منصوبہ بندی کے فقدان کی انتہا،جمہو ری بد نظمی
سیاسی رسہ کشی نے عوام کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں
تسنیم امجد ۔ریا ض
قو می سطح پر پلا ننگ یعنی منصوبہ بندی کے با رے میں تو سب ہی جا نتے ہوں گے کیو نکہ 5 سا لہ منصو بہ بندی کے سلسلے کا آغاز 1955ءسے ہو گیا تھا کیو نکہ آ زادی کے بعد ہمیں جا ن بو جھ کر کمزور معیشت دے دی گئی تھی تا کہ مسا ئل سے گھبرا جا ئیں۔ایک تر قیا تی بو رڈ اس سلسلے میں تشکیل دیاگیا تھاجسے بعد میں منصو بہ بندی اور معا شی ترقی کو نسل کا نا م دے دیا گیا ۔اس کے تحت 5سا لہ منصو بے تشکیل پا تے رہے لیکن بد قسمتی سے ان میں سے کو ئی بھی اپنے اہداف حا صل نہ کر سکا۔اس کی اہم وجہ یکجہتی کا فقدان اور سیاسی رسہ کشی و عدم استحکا م رہی۔ تعلیم کا شعبہ عدم تو جہی کی وجہ سے بہت پیچھے رہ گیا حالانکہ اس پر سب سے پہلے تو جہ دینی چا ہئے تھی تا کہ عوا م با شعور ہو ں اور جمہو ریت پنپ سکے۔جہا لت اور اس کے ساتھ آبا دی میں بھی اضافہ مشکلا ت کا با عث بنا ۔ہما ری معیشت ز رعی ہے لیکن اس پر خاطر خواہ کام نہ ہوسکا۔ اس طر ح زر مبادلہ کا بڑا حصہ خو راک کی بر آمد پر خرچ ہو نے لگا۔تیسرا منصوبہ تنا ظری تھا جو20 سالہ تھا لیکن یہ بھی خا طر خواہ نتا ئج نہ دے سکا۔اس مختصر تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ان حقا ئق پر غور کیا جا ئے جو اب تک معا شی بد حا لی کا با عث بنے اور منصوبے اہداف بھی پو رے نہ کر سکے۔
حقائق سے وضاحت ہو تی ہے کہ وزارت ما لیات کے تحت تمام منصو بو ں پر اخرا جات کا تخمینہ لگا یا جا تا ہے اور پھراس کے اہداف مقرر کر کے مختلف وزارتو ں کو سو نپا جا تا ہے۔جیسے تعلیم ،صحت ، محنت اور سما جی بہبود وغیرہ ۔سیا سی عدم استحکام کی وجہ سے اگر ایک بھی وزارت نہ رہی تو نتیجہ پو رے منصو بے پر اثر انداز ہو گاکیو نکہ افسر شاہی کا راج ہو تو نیچے سے اوپر تک دھا ندلیو ں کا راج ہی راج رہتا ہے ۔
دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر جمہو ری بد نظمی کا منہ بو لتا ثبوت ہے۔منصوبہ بندی کے فقدان کی جب ا نتہاءہوجائے تو یہ نوبت آتی ہے ۔آدھے منصو بے کیا کسی خرچ کے بغیر بن جا تے ہیں ؟ان اخرا جات کو ڈبل کر کے فا ئلو ں میں لگا دیا جا تا ہے اور با قی جیبو ں میں، کیونکہ ایسا کرنے وا لوں کو یقین ہوتا ہے کہ پوچھنا کسی نے نہیں۔اکثر سڑک کے راستے سفر کے دوران کہیں پا نی کے نل اور کہیں ٹیوب ویل لگے نظر آتے ہیں جن میں پانی کے سوا کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔یہ سب منصوبہ بندی معدوم ہونے سے پیدا ہونے والی بد نظمی کا وا ویلا کر رہے ہو تے ہیں۔وہا ں کے با سیو ں سے ان کے با رے میں پو چھا جا ئے تو بے چا رے کہتے ہیں کہ کبھی ہما ری زبانیں بند کرنے کو یہا ں کا م شروع کیا گیا تھا لیکن پھر نہ جانے اچا نک بند کیو ں کر دیا گیا۔ایک دوسرے صا حب نے کہا کہ میںنے شہر جا کر معلوم کیا تھا جی۔سر کار نے انہیں فنڈ نہیں دئیے ۔پیسہ ملتا تو آ گے کا م بڑ ھتا ناں۔ہم تو روز ہی دعا ئیں کر تے ہیں ۔پتہ نہیں ان لوگوں کو احساس کب ہوگا ۔
اس حقیقت کا ادراک تو ہر کسی کو ہے کہ سیاسی رسہ کشی نے عوام کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔سیاستدانوں کو اپنی کر سیاں بچا نے کی فکر لا حق رہتی ہے ۔ملک کے مختلف سر کا ری اداروں میں دھا ند لیا ں قو می اخلاق کے انحطاط کی بد ترین تصویر ہیں ۔کاش ، بی پا کستانی ، بائے پا کستانی ، کی ملک گیر مہم چلا کر عوام میں شعور بیدار کیا جائے ۔اس کو شش سے بر آمد میں اضا فہ اور در آمدات میں کمی ہو گی ۔سر کا ری ٹرانسپو رٹ کا نظام بہتر کیا جا ئے تو لو گو ں میں کا ریں خرید نے کا رحجان کم ہو گا،معا شر تی ڈپریشن پر خود بخود قابو پا یا جا سکے گا اور یکجہتی کو فروغ ملے گا ۔اداروں کی کا ر کر دگی بہتر ہو نے سے ملک سے با ہر تعلیم و تر بیت کے لئے جا نے وا لے نوجوانوں کو جب اُمید کی کرن نظر آئے گی تو وہ اپنے وطن لو ٹنے کے منصوبے بنانے لگیں گے کیو نکہ بقول شاعر:
اندھیرا کتنا گہرا ہو ، سحر کی راہ میں حائل
کبھی بھی ہو نہیں سکتا ، سویرا ہو کے رہتا ہے
کبھی ما یو س مت ہونا ،امیدو ں کے سمندر میں
تلا طم آتے رہتے ہیں،سفینے ڈوبتے بھی ہیں
سفر لیکن نہیں رکتا ،سفر طے ہو کے رہتا ہے
حال ہی میں ایک خاتون سے ملا قات ہو ئی ۔وہ بتا نے لگیں کہ کس طرح اس نے محنت کر کے اپنے بیٹے کو تعلیم دلا ئی۔آج وہ کمشنر کے عہدے پر فا ئز ہو کر بھی حکومت کی طرف سے ملنے والے گھر میںرہنا پسند کر تا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مجھے یہ عا رضی لگتا ہے۔مصنو عی زندگی کی بجا ئے حقیقت میں رہنا زیادہ منا سب رہتا ہے۔اس نے ایک مثال قائم کی ہے۔مجھے یقین ہے کہ آئندہ آنے والے نو جوان بھی اس کی تقلید کریں گے ۔ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ تا ریخ انہی لو گو ں کو یاد رکھتی ہے جو محب وطن ہوتے ہیں۔زند گی میںکا میا بی کے لئے دو صلاحیتو ں کا ہو نا ضرو ری ہے ۔ایک کردار کی مضبو طی اور دو سری خو د اعتما دی۔اپنی صلا حیتو ں کے بل پر مستقبل سنوارنا ضرو ری ہے ۔کسی مقصد کے حصول کے لئے قو میں صدیو ں تک اپنا مشن جا ری رکھتی ہیں۔اسکاٹ لینڈ کے با د شاہ را برٹ بروس کی کا میابی نصاب کی کتا بو ں میں شا مل ہے جو سا تویں بار جنگ میں کا میاب ہوا تھا ۔ٹرا ئے ٹرائے اگین ، یہ کہا نی آج بھی یا د ہے جو ماما اکثر خوب مزے لے لے کر سناتی تھیں۔
ریاستیں مقا صد کے تکمیل کا ذریعہ ہوتی ہیں۔یہ عوام کو وہ تمام موا قع فراہم کر تی ہیں جن میں وہ صلا حیتو ں کو برو ئے کار لا سکیں۔ اس کے لئے وہ حقوق و فرا ئض کا متوازن ما حول مہیا کر تی ہیں۔ایسا ماحول جس میں کو ئی کسی کے معا ملات میں مدا خلت کئے بغیر اپنے راستوں کو ہموار کرسکے۔
افسوس تو یہ ہے کہ ہم جمہوری فلا حی ریا ست کے با سی ہیں۔جمہو ریت صرف ایک سیاسی تصور ہی نہیںبلکہ ایک مکمل معاشرتی فلسفہ ہے جو افراد کو مکمل سہو لتو ں کے ساتھ کا میا بیا ں فرا ہم کر نا اپنا فر ض سمجھتا ہے لیکن جب سیا سی جما عتو ں کے ما بین چپقلش کا ما حو ل پیدا ہو جائے تو ملکی اندرو نی معاملات کے ساتھ بیرونی دنیا میںملکی وقار کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔گرو ہی سیاست جب بھی سر اٹھا تی ہے تو تشدد کی راہیں ہموار ہو تی ہیں۔نتیجہ وہی ہو تا ہے جو تصویر میں نظر آ رہا ہے ۔ادھورے منصوبے خوا بوں کی طرح ہو تے ہیں جن کی تعبیر یں شا ذو نادر ہی دیکھی جا تی ہیں۔شا عر نے ایسی ہی حالت کے لئے کہا ہے کہ:
جسے جمہو ریت کہتے ہیں، وہ درسِ خودی بھی ہے
یہ کیا سمجھے سیا ستداں ، ابھی آ زادی با قی ہے
ایک جمہو ری ریا ست میں احتساب کا عمل بہت ضرو ری ہے ۔اگر حکمرانو ں کو آزاد چھو ڑ دیا جا ئے تو استبدا د جنم لیتا ہے ۔لو گ شہر ی نہیں بلکہ غلام بن کر رہ جا تے ہیں۔وہ کچھ بو لتے ہو ئے ڈرتے ہیں۔امن و سکون غارت ہو جا تا ہے ۔خلفا ئے را شدین رضی اللہ عنہم کے ادوار ہمارے سامنے ہیں۔ایک مسلم ریا ست میں عوام کو عدم تو جہی کا شکار نہیں ہو نے دیا جا تا۔حکمران لا محدود اختیارات نہیں رکھتے۔ اکاونٹیبلٹی یعنی جواب دہی یا احتساب کا نظام حکو متوں کو بہتر سمت میںگا مزن رکھتا ہے۔