لکھنؤ۔۔۔۔ملیح آباد اور رحیم آباد علاقے میں اب تک 2درجن سے زائد عورتوں اور لڑکیوں کی چوٹی کٹنے کے واقعات پورے علاقے میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ ملیح آباد کے رحیم آباد قصبے میں سب سے پہلے ایک اسکول ٹیچر انیتا کی چوٹی کٹنے سے یہ واقعہ شروع ہوا۔ یہ واقعات ابتک عورتوں کے دل و دماغ پر سوار ہیں۔ رحمت نگر ، بھلسی، ڈھونڈے، مئو، نئی بستی، محمد نگر، صدر ، لاکھیڑ وغیرہ علاقے میں خواتین کی چوٹی کٹ چکی ہے۔ ملیح آباد میں 13سالہ طالبہ مہیما نے اپنی چوٹی کٹنے پر بتایا کہ وہ گھر پر اکیلے تھی۔ اسے احساس ہوا کہ لال رنگ کی ایک بڑی قینچی اسے دکھائی دی تو وہ ڈر کرچیختی ہوئی گھر کے باہر بھاگی۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیااور وہ دیوار سے ٹکرا کر وہیں گر کر بیہوش ہوگئی۔ طالبہ کی چیخ سن کر گھروالے اس کے پاس پہنچے تو طالبہ ہوش میں نہیں تھی،اسے نرسنگ ہوم میں داخل کرایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے علاج کے بعد گھر جانے کا مشورہ دیا۔
********
تجزیہ کے دوران سامنے آنے والے حقائق
* * **** ٭
ملیح آباد میں ابتک 2درجن سے زائد عورتوں اور لڑکیوں میں صرف 2معاملہ مسلم کنبوں سے متعلق تھے باقی ہندو کنبوں سے تھے۔
٭چوٹی کٹنے سے متاثرہ خواتین میں 75فیصد لڑکیاں اور 25فیصد شادی شدہ عورتیں ہیں۔
٭چوٹی کٹنے والی لڑکیاں دبلی پتلی، بیمار اور ڈپریشن کا شکار پائی گئیں۔ ان لڑکیوں کی عمریں 13سے 22سال کے درمیان ہیں۔عورتوں میں یہ عمر 25سے 50سال کے درمیان پائی گئیں۔
٭چوٹی کٹنے کی شکار عورتوں اور لڑکیوں کے گھروالے ان پر کم دھیان دیتے پائے گئے۔
٭واردات کے وقت متاثرین کے قریب کوئی نہیں پایا گیا نہ کسی نے چوٹی کٹتے ہوئے دیکھا۔
٭ان سبھی عورتوں میں چوٹی کٹنے کے بعد بیہوش ہوجانا۔ بلڈپریشر بڑھ جانا اور کئی دنوں تک ڈپریشن میں رہنا نیز ہوش آنے پر مختلف باتیں کرنا جیسی چیزیں پائی گئیں۔
*جائزے سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر گھر والے عورتوں اور لڑکیو ں کے دل میں بیٹھے ہوئےڈر وخوف کو دور کرسکیں تو ایسے واقعات پر روک لگ سکتی ہے۔