احرام زیب تن کرنے والوں سے زیادہ پاکیزہ اورسر کے بال منڈوانے اور ترشوانے والوں سے زیادہ معزز اور محترم کوئی ہے؟
لبیک کہنے والوں کا تلبیہ توبہ کرنے والوں کی آہ، خشوع و خضوع سے دعائیں مانگنے والوں کی للہیت اور گناہوں کے احساس سے ٹوٹ جانے والوں کی رب سے سرگوشی کا منظر حج مقامات پر جو نظر آتا ہے کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ حج مقامات پر رب کی کبریائی ، اسکی عظمت شان اوراللہ تعالیٰ کے بندگان کی جانب سے کمال بندگی کا اظہار دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ دنیا کے گوشے گوشے سے آنے والے اس جذبے، اس خواہش اور اس عزم سے آتے ہیں کہ انہیں رب العالمین کے حضور حاضری اور حضوری کی رسم ادا کرکے اپنے گناہ معاف کرانا ہے، رب سے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑنا ہے، رب سے جنت بخشائش کی صورت میں حاصل کرنا ہے اور نئی زندگی پاک و صاف گزارنی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ذی استطاعت مسلمانوں پر حج فرض کیا ہے۔اسے اسلام کا ایک رکن بنایا ہے۔ حج ایسی عبادت ہے جس میں بہت سارے درس، حکمتیں، اسرار، تربیت، تزکیہ، نفع بخش آداب، جامع نصیحتیں ، شاندار رویئے اور تزکیہ نفس کے بے شمار پہلو مضمر ہیں۔ حج ایک سفر ہے لیکن دنیا کے ہر سفرسے مختلف ہے۔ عازم حج یہ سفر کرتا ہے تو اس کا دل، اس کا جسم او راسکی دولت اسکا شعور اور اس کا وجدان بلد امین کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ عازم حج یہ سفر شروع کرتا ہے تو اس کے پیش نظر رب العالمین سے سرگوشی، مغفرت طلبی اور گناہوں سے توبہ ہوتی ہے۔ یہ سفر کتنا شاندار اور کتنا عظیم ہے، حج کا منظر کتنا پرکشش اور کتنا پاکیزہ ہے۔ یہاں ہر انسان کو اپنے طور پر خود سے سوال کرنا چاہئے کہ کیا کبھی کسی نے احرام پوشوں سے زیادہ پاکیزہ انسان اور حج و عمرے کا لباس زیب تن کرنے والے انسانوں سے زیادہ پاکیزہ لباس کسی کا دیکھا ہے؟آیاسر کے بال منڈوانے اور ترشوانے والوں سے زیادہ معزز اور محترم سر کبھی کسی کو نظر آئے ہیں؟ کیا طواف کرنے والوں کے قافلے سے زیادہ معزز قافلہ انکی نظر سے گزرا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کی ندا پر لبیک کہنے والوں کے تلبیہ سے زیادہ پورے سرا پا کو ہلادینے والا نغمۂ بندگی انہوں نے کبھی کسی سے سنا ہے؟ حاجیو ںکے قافلے بڑے پرعزم اور پروقار انداز میں آگے بڑھتے ہیں۔
حجاج کرام شرک اور مشرکوں سے برأت کا اعلان کرتے ہیں،وہ بے قصور انسانوں کے بہائے گئے خون سے توبہ کرتے ہیں۔دوسروں کی ہتھیائی ہوئی دولت واپس کرنے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں۔تمام عازمین بیک آواز ’’لاالہ اللہ ‘‘کا نعرہ دل ، دماغ، ذہن،شعور اور وجدان کے ساتھ اس انداز سے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس انداز سے ماضی میں پیغمبر اور نبی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے ساتھ ہر طرح کے شرک کی نفی کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ عازمین حج پاکیزہ مقدس مقامات پر رونما ہونے والے ماضی کے ان واقعات کی یادیں تازہ کرتے ہیں جن سے حج کے شعائر جڑے ہوئے ہیں۔
وہ چشم تصور سے پیغمبر اعظم و آخر محمد مصطفی کے سفر حج کی یاد تازہ کرتے ہیں جب آپ الوداعی حج کیلئے مقدس شہر مکہ مکرمہ آئے ہوئے تھے۔آپ کے ہمراہ ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم تھے۔ عازمین اس الوداعی حج کی یادوں کو ذہن کی اسکرین پر لاکر ایک طرح سے افکارِ نو حاصل کرتے ہیں اور رسول اللہ کی اللہ کے حضور بندگی کا تصورکرکے اپنے گناہوں ، اپنی غلطیوں اور اپنی کوتاہیوں کا زیادہ شدت اور زیادہ قوت سے اعتراف کرتے ہیں۔ وہ معافی مانگتے ہوئے سوچتے ہیں کہ ایسی شخصیت جس کے اگلے پچھلے تمام گناہ رب العالمین نے معاف کر دیئے تھے اگر وہ یہاں آکر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کررہی تھی، اگر وہ شخصیت یہاں آکر خانہ کعبہ کا طواف، صفا و مروہ کی سعی اور مشاعر مقدسہ کی حاضری انتہائی سرشاری اور کمال بندگی کے ساتھ کررہی تھی تو ہم لوگ اس بندگی اور عجز و نیاز کے زیادہ حقدار ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے عازمین کے اندر ایک خاص قسم کا ولولہ، ایک خاص قسم کا جوش، ایک خاص قسم کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور یہ کیفیت اور یہ جذبہ انہیں اپنے ماضی پر پشیمان ہونے ، اپنے حال کو ماضی کی اصلاح اور مستقبل کو اس سے روشن کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ حج پر آنے والی بہنوں اور بھائیوںکا فرض ہے کہ وہ ویسا ہی حج کریں جیسا محبوب آقا محمد مصطفی نے کیا تھا۔ ارشاد رسالت بھی یہی ہے کہ ’’مجھ سے اپنے مناسک سیکھو۔‘‘ حج کی بہت ساری حکمتیں ہیں۔حج کے بہت سے اسرار و رموز ہیں، عازمین حج کو سفر حج کے دوران ان کا احساس و ادراک کرنا چاہئے،چند اسرار و رموز یہ ہیں:
٭ اسکا مظاہرہ تلبیہ میں ہوتا ہے۔ حاجی تلبیہ پڑھتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ حکم ربی پر لبیک کہہ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر طرح کے شرک باللہ کی بھرپور طریقے سے نفی کررہا ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہوتے ہیں کہ وہ حمد و ثنا کا واحد مستحق صرف اور صرف رب العالمین کو مان رہا ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنا محسن صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو تسلیم کررہا ہے۔ عازمین حج کی یہ کیفیت اور انکا یہ تصور انکے تمام اعمالِ حج میں منعکس ہونے لگتا ہے۔
اس کیفیت سے سرشار عازمین کے دل ، زبان اور اعضاء سب تسبیح و تمجید میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے : ’’تم لوگ شیطان کو کنکریاں مارتے ہو اور اپنے باپ ابراہیم کی ملت کی پیروی کرتے ہو۔‘‘ حاصل اسکا یہ ہے کہ عازمین حج کا امتیاز یہ ہے کہ وہ شیطان سے قطع تعلق اور رحمن سے پختہ تعلق کا عہد و پیمان کرتے ہیں۔ سعی میں بھی مسلمان اپنے خالق کے سامنے اپنی ضرورت پیش کرتے ہیں۔ وہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا قصہ یاد کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے انہیں امرِ ربی سے بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ حضرت ہاجرہ ؑنے سوال کیا تھا کہ آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کرجارہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ اللہ کے سہارے۔ اس پر حضرت ہاجرہ ؑنے جو جملہ کہا تھا وہ تاریخ کے زریں صفحات میں پوری آب و تاب سے محفوظ ہے۔
انہوں نے بے ساختہ اور برملا کہا تھا : ’’ تو پھر وہ ہمیں برباد نہیں ہونے دیگا۔‘‘ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام جیسے ایمان باللہ کی ضرورت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا زاد ِراہ ختم ہوگیا ،ان کے پاس کھجوروں کا ذخیرہ اور پانی کا مشکیزہ تک ختم ہوگیا تو ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے انکے لئے غیب سے ایسے چشمے کا انتظام کیا جس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ پانی کی تلاش میں حضرت ہاجرہ ؑنے 7چکر صفا اور مروہ کے لگائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انکی اس سعی کو اس قدر پسند کیا کہ ننھے شیرخوار کی بھوک پیاس دور کرنے کیلئے ماں کی تڑپ کو پوری بنی نوعِ انسان کی تڑپ میں تبدیل کردیا۔ اب جو شخص بھی عمرے یا حج کی نیت کرتا ہے اسے حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی سعی کی یاد تازہ کرنے اور ایک طرح سے انکی ممتا کو خراج عقید ت پیش کرنے کے لئے صفا اور مروہ کی سعی لازمی کردی گئی ہے۔