کئی لاکھ حاجیوں کے قیام وطعام کی جملہ ضرورتیں پوری کرنے کے انتظامات ہیں ، جو لوگ منیٰ کو 6روزہ عصری شہر کا نام دیتے ہیں وہ غلطی پر نہیں
منیٰ کا تلفظ اکثر منُی کہلاتا ہے۔ یہ مکہ مکرمہ کے مشرقی پہاڑوں کا نام ہے۔ وادی منیٰ چاروں طرف سے سنگ خارا کی خشک پہاڑیوں سے گھری ہوئی ہے۔ اسکے شمال کی جانب ایک پہاڑی بلند ہوتی چلی گئی ہے،جسے ثبیر کہتے ہیں۔ مکہ مکرمہ سے حاجیوں کے قافلے ایک پہاڑی کے راستے کے ذریعے اس وادی میں آتے ہیں اور اس میںزینے بھی ہیں۔ یہ مقام عقبہ کہلاتا ہے جو نبی کریم اور اہل مدینہ کے درمیان اس گفت و شنید کی وجہ سے جو یہاں ہوئی تھی اسلامی تاریخ میں بڑا وزن رکھتا ہے۔
زمانہ جاہلیت میں لوگ اس میدان میں جمع ہوکر اپنے باپ داد ا کے قصیدے پڑھا کرتے ۔ آباءواجداد کی برائیاں بیان کرتے، اشعار کی معرکہ آرائیاں ہوتیں اور کبھی کبھار اسی مقابلے بازی میں تلوار بھی چل جاتی تھی لیکن اسلام نے اب یہاں اللہ رب العزت کی حمدو ثنا بیان کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی میدان میں مشہور مسجد خیف بھی ہے جسکی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حضور اکرم نے نماز ادا کی تھی۔ خیف پہاڑ کے نشیب میں برساتی نالے سے اونچی جگہ کو کہا جاتا ہے۔ یہ میدان عرفات جانے والے راستے کے دائیں جانب منیٰ میں واقع ہے۔ نبی کریم نے یہاں 8ذی الحجہ کو قیام کرکے ظہر، عصر، مغرب ، عشاء اور 9 ذی الجہ کی فجر کی نماز ادا کی تھی۔ نبی کریم اور صحابہ کرامؓ یہاں ٹھہرے تھے اور عبادت کی تھی۔
منیٰ حج مقامات میں سے ایک ہے۔یہ واحد جگہ ہے جہاں سے 6روزہ حج پروگرام کا آغاز 8 ذی الحجہ کو ہوتا ہے اور حج کے اہم اعمال 13ذی الحجہ کو اسی منیٰ میں پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ منیٰ کا میدان حرم کی حدود کے اندر ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً10کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ حاجی 8ذی الحجہ کے دن منیٰ پہنچ کر ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور 9ذی الحجہ کو فجر کی نماز ادا کرتے ہیں۔ رات کا اکثر حصہ وہاں گزارتے ہیں، یہی سنت ہے۔10ذی الحجہ کو مزدلفہ سے چل کر 3یا 4دن منیٰ میں قیام کرتے ہیں۔
حاجی یہاں آتے ہیں تو میلوں تک میدانوں ، پہاڑیوں کے نشیبوں اور بلند و پست جگہوں پرہر طرف حاجیوں کے سفید خیمے نظر آتے ہیں اور جس میدان میں چند دن قبل ہو کا عالم ہوتا ہے وہاں زندگی کی گہما گہمی پورے جوبن پر ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا لشکر خیمہ زن ہے۔ یہ اللہ کے بندوںکا لشکر ہے جو صدیوں سے ان تاریخوں میں یہاں خیمہ زن ہوتا چلا آرہاہے۔
منیٰ میں 3ستون بنے ہوئے ہیں جن میں سے ہر ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ ان ستونوں کو جمرات کہا جاتا ہے۔ جمرات عربی زبان کالفظ ہے۔ یہ جمع کا صیغہ ہے اسکا مفرد جمرہ کہلاتا ہے۔ ا سکی جمع جمار بھی آتی ہے۔ عربی میں جمرہ کنکر کو کہتے ہیں چونکہ ان ستونوں کو کنکریاں ماری جاتی ہیں اسی وجہ سے انہیں بھی جمرات ہی کا نام دیدیا گیا۔ ان جمرات میں سے ایک کا نام ”جمرہ اولیٰ“ ہے۔ دوسرے کا نام ”جمرہ وسطیٰ“ اور تیسرے کا نام ”جمرہ عقبہ“ یا ” جمرہ کبریٰ“ ہے۔
حاجی جمرہ عقبہ کو اپنی زبان میں بڑا شیطان، جمرہ وسطیٰ کو منجھلا شیطان اور جمرہ اولیٰ کو چھوٹا شیطان کہتے ہیں۔ ان جمرات کو کنکریاں مارنے کا علم رمی کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔
روایت میںآتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے لیکر چلے تو یہ وہ مقامات تھے جہاں شیطان نے ابو الانبیاءابراہیم علیہ السلام کو ورغلانے کی کوشش کی تھی۔ آپ ؑ اس کے بہکاوے میں نہ آئے اور اظہار لعنت کے طور پر اس پر کنکر پھینکے۔ ان تینوں مقامات پر نشان کے طور پر ستون بنائے گئے ہیں اور اس واقعہ کی یاد میں اب ہر حاجی جمرات کو کنکر مار کر اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ جس طرح بابائے انبیاءحضرت ابراہیم علیہ السلام نے شیطان کو مایوس کیا تھا اور اس پر لعنت بھیجی تھی اسی طرح ہم بھی شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے اور اس پر لعنت بھیجیں گے۔
بعض علماءکا خیال ہے کہ جمرات کو کنکر مارنا اس واقعہ کی یادگار ہے جس سال رسول اللہ پیدا ہوئے تھے اور عیسائی حکمراں ابراہہ نے زبردست فوج کے ساتھ مکہ مکرمہ میں حملہ کیا تھا۔ وہ کعبہ شریف کو مسمار کرنے کی نیت سے آیا تھا۔ مکہ کے قریب ایک وادی ہے جسے ”وادی محسر“ کہا جاتا ہے۔ جب ابراہہ کی فوج یہاں پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی حفاظت کے لئے غیب سے ایسا بندوبست کیا کہ سمندر کی جانب سے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے جھنڈ پرے کے پرے بن کر نمودار ہوئے۔ ان کے پنجوں اور چونچوں میں ننھی ننھی کنکریاں تھیں۔ انہوں نے ابراہہ کی فوج پر گرائی تھیں۔ ان کنکریوں کی ضربوں سے ابراہہ کی فوج تباہ و برباد ہوکر رہ گئی تھی ۔ فوج میں ہاتھی بھی تھے جو اہل مکہ کے لئے بڑی غیر مانوس شے تھے۔ اس واقعہ کے باعث اہل عرب نے اس سال کا نام عام الفیل یعنی ہاتھی کا سال رکھ دیا تھا۔
ماضی قریب میں جمرا ت کی رمی کرتے وقت اذیت ناک سانحات پیش آجاتے تھے۔ سعودی حکومت نے اب یہاں ایک عظیم الشان 5منزلہ پل تعمیرکرادیا ہے جہاں تک جانے اور آنے کے راستے الگ الگ بنائے گئے ہیں اور رمی کے اوقات بھی منظم کردیئے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے اب رمی کے دوران ایسی کوئی تکلیف دہ صورتحال پیدا نہیں ہوتی۔
منیٰ میں جمرات کی 10ذی الحجہ کوجمرہ عقبہ کی رمی کے بعد دوسرا اہم کام سر منڈوانے یا ترشوانے کا ہے۔ یہاں ماضی میں اس حوالے سے بڑے مسائل پیش آتے تھے مگر اب سعودی حکومت نے منیٰ میں سر منڈوانے یا ترشوانے کے لئے حجاموں کی دکانیں کثیر تعداد میں کھلوا دی ہیں جہاں صفائی اور حفظان صحت کے ضوابط کا بھی خیال کیا جاتا ہے۔
منیٰ میں ایک اہم کام قربانی کا ہے۔ ماضی میں قربانی کے جانوروں کا گوشت ضائع ہوجاتا تھا۔ صفائی کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے تعفن پھوٹنے لگتا۔ بسا اوقات بیمار جانور ذبح کر دیئے جاتے۔ انجانے میں ایسے جانوروں کی قربانی کردی جاتی جو شرعی ضوابط پر پورے نہیں اترتے تھے۔ اب سعودی حکومت نے منیٰ میں جدید طرز کے سلاٹر ہا¶س قائم کرادیئے ہیں جنہیں یہاں مذابح کا نام دیا گیا ہے۔ مذابح، مذبح کی جمع ہے اور مذبح اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جانو ر ذبح کئے جاتے ہیں۔
منیٰ میں حاجی سب سے زیادہ قیام کرتے ہیں۔ یہاں حج کے زیادہ کام انجام دیئے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے منیٰ میں حج آگہی کی ضرورت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس ضرورت کے پیش نظر سعودی حکومت نے مختلف مقامات پرحج آگہی کے انتظامات کئے ہیں۔ درس ہوتے ہیں، فتوے دینے کے لئے مستند علماء تعینات ہیں۔ حج لٹریچر اور کتابچے تقسیم کئے جاتے ہیں۔ لا¶ڈ اسپیکر کے ذریعے اہم حج ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔
چونکہ حاجی منیٰ میں طویل قیام کرتے ہیں اسلئے وہ اپنے اعزہ او ر احباب سے رابطے میں بھی رہنا چاہتے ہیں۔ سعودی حکومت نے مواصلاتی کمپنیو ںکے ذریعے یہاں موبائل اور لینڈ لائن اور انٹرنیٹ کی سہولتیں بھی فراہم کردی ہیں۔ سعودی حکومت نے منیٰ کو اسمارٹ سٹی بنادیا ہے جہاں سے عازمین بغیر کسی فیس کے انٹرنیٹ استعمال کرسکتے ہیں جس سے ضیوف الرحمان خوب استفادہ کررہے ہیں۔ موبائل سے انٹرنیٹ استفادہ ہورہا ہے۔ بہت سے حاجی اپنے ہمراہ لیپ ٹاپ اور ڈیجیٹل کیمرے بھی لے کر آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا کے نمائندے اور حج محکموں کے اہلکار بھی انٹرنیٹ کی مفت سہولت سے خوش ہیں۔ میڈیا کے نمائندے ریڈیو ، ٹی وی ، سیٹلائٹ چینلز اور اخبارات کو آسانی سے رپورٹنگ کررہے ہیں۔
موبائل نیٹ ورک بڑا زبردست ہے۔ جگہ جگہ تقویتی مراکز قائم کردیئے گئے ہیں۔ یہاں سے ایس ٹی سی، موبایلی اور زین کمپنیوں نے موبائل رابطوں کو نہایت آسان اور سستا بنادیا ہے۔ حاجیوں کو اپنے اعزہ اور احباب کو خطوط بھیجنے ، ٹیلیگرام ارسال کرنے کی سہولتیں بھی منیٰ میں مہیا کی گئی ہیں۔
حاجیوں کے کھانے پینے کا سامان وافر مقدار میں منیٰ میں موجود رہتا ہے۔ اس کے لئے فاسٹ فوڈ کے لئے معروف اہم کمپنیاں اپنی برانچ ان دنوں میں یہاں قائم کئے ہوتی ہیں اسکے علاوہ تازہ پھلوں کے علاوہ ٹھنڈے اور گرم مشروبات بھی موجود ہوتے ہیں اسکے علاوہ نرخوں کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔
آج منیٰ کے ایک حصے میں بہتات ہے۔ ماضی میں یہاں پانی کی زبردست قلت ہوتی تھی۔ ماضی میں طہارت خانے نہ ہونے کے برابرتھے مگر اب کثیر تعدادمیں بنادیئے گئے ہیں۔ حاجی اطمینان سے وضو، غسل اور قضائے حاجت کرپاتے ہیں۔ پینے کا پانی بھی وافر مقدار میں مہیا کیا گیا ہے۔
منیٰ کو 24گھنٹے بلا انقطاع بجلی فراہم کرنے کے لئے خصوصی بجلی گھر قائم کئے گئے ہیں۔ یہاں سے ایک لمحے کے لئے بھی بجلی غائب نہیں ہوتی۔
منیٰ آنے جانے کے لئے ایک طرف تو پبلک ٹرانسپورٹ کمپنیاںساپٹکو کی بسیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ انکے کرائے علامتی ہیں۔ دوسری طرف مشاعر مقدسہ ٹرین کی سہولت بھی مہیا کردی گئی ہے۔
منیٰ آنے جانے کے لئے جدید ترین راستے اور پل تعمیر کئے گئے ہیں۔ ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لئے پولیس اہلکار24 گھنٹے ڈیوٹی دے رہے ہیں۔
منیٰ میں طویل قیام گندگی کے ڈھیر کا باعث بن سکتا تھا لیکن مکہ مکرمہ میونسپلٹی نے صفائی کے بڑے مؤثر انتظامات کئے ہیں۔ یہاں صفائی کارکن 24گھنٹے اس کام کے لئے ڈیوٹی دیتے رہتے ہیں۔ حاجیو ںکو صحت خدمات فراہم کرنے کے لئے اسپتال، ہیلتھ سینٹرز، گشتی میڈیکل ٹیمیں ، ہلال احمراور فضائی ایمبولینس کا انتظام ہے۔ ممکنہ آتشزدگی کے واقعات سے بچنے کے لئے محکمہ شہری دفاع کے اہلکار جگہ جگہ سینٹر کھولے ہوئے ہیں۔ امن و امان کو یقینی بنائے رکھنے کےلئے حج سیکیورٹی فورس کے اہلکار مسلسل ڈیوٹی پر ہیں۔ علاوہ ازیں نیشنل گارڈز اور وزارت دفاع کے اہلکار بھی اس موقع پر چوکس کردیئے گئے ہیں۔
پورے حج نظم کو مکمل طور پر کنٹرول کرنے کے لئے اعلیٰ قیادت منیٰ میں حاضری کو اپنا معمول بنائے ہوئے ہے۔ یہ دیکھ کر کہ میرکاررواں تمام انتظامات کی نگرانی بنفس نفیس کررہے ہیں ہر سرکاری ادارہ ، وزارت محکمہ اور حج کے تمام نجی ادارے انتہائی چوکس اور مستعد ہوجاتے ہیں۔
گمشدہ اور راستہ بھول جانے والے حاجیو ںکو ان کے خیموں تک پہنچانے کے لئے اسکاؤٹس اور وزارت حج نیز وزارت اسلامی امور کے اہلکار مختلف مقامات پر دفاتر کھولے ہوئے ہیں۔
انسان سے بہرحال غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔ ضیوف الرحمان کی خدمت میں کوتاہی یا لاپروائی یا غیر انسانی عمل کے مواخذے کے لئے مختلف ادارے منیٰ میں اپنے دفاتر کھولے ہوئے ہیں۔ منیٰ میں امکان کے پیش نظر کہ وہاںبعض عازمین میں جھگڑے ہوسکتے ہیں اور انہیںہنگامی بنیادو ںپر نمٹانا لازمی ہے۔ وزارت انصاف نے سرسری سماعت والی عدالتوں کا انتظام کررکھا ہے۔
سعودی حکومت نے اس امکان کو مد نظررکھ کر کہ سرکاری ادارے حج منصوبوں پر عمل درآمد میں آنا کانی سے کام لے سکتے ہیں یا یہ کہ وہ اعلیٰ حکام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ضیوف الرحمان کے ساتھ کسی کوتاہی یا غفلت یا زیادتی کے مرتکب ہوسکتے ہیں اس امر کے پیش نظر کنٹرول اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ کے افسران تعینات کئے گئے ہیں جو ہر حج ادارے کے پلان کو پیش نظر رکھ کر اس ادارے کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔
بسوں کیلئے پارکنگ کا بندوبست کیا گیاہے۔بسوں کی اصلاح و مرمت کیلئے ایمرجنسی مینٹیننس سینٹر قائم کئے گئے ہیں۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر فاضل بسوں کا نظم بھی کیا گیا ہے۔
جزیرہ عرب میں دریا تو نہیں ہوتے لیکن وادیاں ہوتی ہیں جو بارش کے زمانے میں طغیانی کے باعث ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ حج موسم میں موسلا دھار بارش کے امکانات کے پیش نظر محکمہ شہری دفاع کے اہلکاروں نے ایک طرف تو محصور حاجیوں کو سیلاب سے نکالنے کے لئے جامع منصوبہ تیار کیا ہے اسکے تحت غوطہ خوروں کے دستوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ سیلاب کے ریلے سے گزرنے کے لئے ہزاروں کشتیوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اسی طرح سے ہیلی کاپٹرز بھی ہنگامی صورتحال میں مدد دینے کے لئے تیار رکھے گئے ہیں۔ دوسری طرف محصور حاجیوں کو محفوظ طریقے سے محفوظ مقامات پر پہنچانے اور پھرٹھہرانے کے انتظامات بھی ہیں۔ کئی لاکھ حاجیوں کے قیام، طعام کی جملہ ضرورتیں پوری ہونگی اسکے انتظامات ہیں لہذا جو لوگ منیٰ کو 6روزہ عصری شہر کا نام دیتے ہیں وہ غلطی پر نہیں۔ سچ اورحق یہی ہے کہ سعودی حکومت نے وادی منیٰ کو سچ مچ عصر حاضر کا جدید ترین شہر بنادیا ہے۔