10ذوالحج کو مزدلفہ سے منیٰ آتے ہی سب سے پہلے جمرہ¿ عقبہ پررمی کرنا یاکنکریاں مارنا مسنون ہے۔ یہ رمی صرف 7 کنکریوں سے اورصرف ایک ہی جمرہ عقبہ پر ہوگی اور رمی کےلئے کنکریاں موٹے چنے سے ذرا بڑی ہونی چاہئیں چنانچہ صحیح مسلم میں ہے :
”پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم (وادی محسر سے گزر کر ) درمیانی راستے پرچلنے لگے جوکہ سیدھا جمرہ ¿ کبریٰ (جمرہ عقبہ)پر جانکلتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جمرے کے پاس پہنچے جوکہ درخت کے پاس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اسے 7 کنکریاں مارتے وقت ساتھ ہی تکبیر (اَللّٰہُ اَک±بَرُ)کہتے تھے۔ وہ کنکریاں موٹے چنے سے ذراسی بڑی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی میںکھڑے ہوکر اس جمرے کو رمی کی ۔ “
وہاں بعض لوگ معلوم نہیںکس جذبہ کے تحت موٹے موٹے کنکر اورجوتے تک مارتے ہیں۔ یہ کوئی مستحسن جذبہ نہیں بلکہ جنون و دیوانگی ہے، سراسر جہالت اورخلافِ سنت ہے۔ وہاںکنکر وپتھر مارنا یاجوتے پھینکنا نہیں بلکہ کنکریاں مارنا کارِ ثواب ہے لہٰذا آپ اتباع کرنے والے بنیں، بدعت کرنے والے نہ بنیں۔
اس رمی کا مستحب وقت تو صحیح مسلم میںمذکور حدیث کی رُوسے طلوعِ آفتاب سے لے کر زوالِ آفتاب تک ہے لیکن اگر کوئی شخص بامرِ مجبوری رات ہونے تک بھی رمی کرلے تومضائقہ نہیں کیونکہ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ کسی صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کیا ”میںنے شام ہوجانے کے بعد رمی کی ہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ۔ “جبکہ دوسرے ایام تشریق کی رمی کا وقت زوالِ آفتاب کے بعد سے شروع ہوتاہے جیساکہ مسلم، ابوداﺅد، نسائی ، ترمذی اورمسنداحمد وسنن بیہقی میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے :
”یوم نحر کے بعد والے ایام تشریق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوالِ آفتاب کے بعد رمی کی ۔ “
اب مسنون تویہی ہے لیکن اگر کوئی کمی بیشی ہو جائے تومضائقہ بھی نہیں ۔
رمی کرتے وقت اس طرح کھڑے ہونا سنت ہے کہ مکہ مکرمہ بائیں طرف اورمنیٰ دائیں طرف ہو جیساکہ صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جمرہ ¿ کبریٰ پر پہنچے توبیت اللہ شریف کو اپنی بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کرلیا اور7 کنکریاں ماریں اورہر کنکری کے ساتھ اَللّٰہُ اَک±بَرُ کہا اورپھر فرمایا :
”جن پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم)انہوں نے اسی طرح رمی کی تھی ۔“
ان مذکورہ متعدد احادیث میں آدابِ رمی کے سلسلہ میں باربار گزر رہا ہے کہ ہر کنکری کو مارتے وقت اللہ اکبر کہیں ۔ یہ عمل بعض دیگر احادیث کی روسے بھی مسنون ہے ۔
رمی سے فارغ ہوجانے کے بعد اس جمرہ ¿ عقبہ کے پاس کھڑے ہوکر دعاءکرنا ثابت نہیں جیسا کہ موطاامام مالک میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے بارے میں صحیح سند والے ایک موقوف اثر میں حضرت نافع ؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ دوسرے دونوں جمروں کے پاس تو کافی دیر کھڑے ہوکر اَللّٰہُ اَک±بَر ، ُسب±حَانَ اللّٰہ ، اَل±حَم±دُ لِلّٰہ کاذکر کرتے اوراللہ سے دعائیں مانگتے تھے مگر جمرہ ¿ عقبہ کے پاس کھڑے نہیں ہواکرتے تھے ۔
رمی کرتے وقت کنکریاں ایک، ایک کر کے مارنا ضروری ہےں ۔ اگر کسی نے مٹھی بھر کر ایک ہی مرتبہ ساری کنکریاں پھینک دیں تو اس کی رمی شمار نہیں ہوگی ۔ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت فضل بن عباس اورحضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے :
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل تلبیہ کہتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ ¿ عقبہ پر رمی کرلی ۔“
لہٰذا اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے یوم نحر وقربانی کو رمی کے بعد تلبیہ کہنا بند کر دینا چاہئے۔
٭٭٭٭٭٭