اگرنیت درست ہے یہی قربانی زندگی کی علامت،فتح کی نشانی،کامیابی کی ضمانت،تقرب الٰہی کا وسیلہ اورمقبولیت کا تمغہ بن جاتی ہے
صادق رضامصباحی۔ممبئی
قربانی بظاہرموت ہے لیکن بباطن زندگی ۔ عیدالاضحی میں کی گئی قربانی بھی بظاہر جانوروں کی زندگی سے کھلواڑمعلوم ہوتی ہے مگر یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے حیات کاآغازہوتاہے ۔ جانورقربان کرکے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوشی کاتصوروہی شخص کرسکتاہے جو دین اسلام کی ابجد سے بھی نا واقف ہو۔جانورکی قربانی محض علامتی اورتمثیلی ہے ورنہ اس کے ذریعے جوپیغام دیاجارہاہے وہ یہ کہ ہماری حیات سے قربانی کے تعلق کی جڑیں اتنی گہری اورپائیدارہیںکہ بغیرا س کے حیات کی صحت کا تصوربھی محال ہے۔عیدالاضحی کی قربانی جس طرح ہماری اخروی زندگی سے متعلق ہے اسی طرح ہماری دنیوی زندگی سے بھی متعلق ہے مگردونوں میں فرق یہ ہے کہ اخروی حیات کی کامیابی اخلاص نیت کی اساس پراستوارہوتی ہے جبکہ دنیوی زندگی سے نیتوں کا رشتہ اتناگہرااورمضبوط نہیں ہوتا۔
عیدالاضحی میں قربانی کا مقصدیہ ہے کہ مسلمان اپنی نیتوں کومخلص بنائیں،اپنے آپ کو خدائے تعالیٰ کے لئے ہمہ وقت تیار رکھیں اوراپنی جان،مال ،عزت ،آبروغرضیکہ ہر چیز خداکی راہ میں خرچ کرنے کے لئے تیاررہیں۔ اگرصرف جانوروں کی قربانی ہی مقصود ہوتی توپھرنیتوں کاکوئی خاص اعتبارنہیں کیاجاتاجبکہ قربانی کے گوشت،کھال اورخون وغیرہ خداکے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے بلکہ وہاں قربانی کرنے والے کی نیت دیکھی جاتی ہے ۔ اگر نیت میں اخلاص نہیں اور وہ کسی قسم کی آمیزش سے خالی نہیں توپھرموٹے ، تندرست،خوبصورت ،قیمتی اور زیادہ گوشت والے جانورکی قربانی کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ اس کے برخلاف اگر نیت خالص ہے توپھرشرعی شرائط کے ساتھ جانورکیسابھی ہو خداکے یہاں مقبول ہوکرہی رہتاہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کی یادمیں عیدالاضحی کے دن دنیابھرکے مسلمان قربانیا ںپیش کرتے ہیں،کے قصے کو ہی لے لیں۔ یہاں بھی حضرت اسماعیل یا کسی دنبے کی قربانی مقصودنہیں تھی بلکہ اللہ عزوجل نے محض حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اخلاص نیت کاامتحان لیاتھاجس میں وہ صد فی صدکامیاب رہے ۔قربانی کے اس پورے منظرنامے پرغورکریں توفنااوربقاکا مسئلہ بآسانی سمجھ میں آجاتاہے۔ اگر نیت درست ہے یہی قربانی زندگی کی علامت،فتح کی نشانی،کامیابی کی ضمانت، فیروز مندی وارجمندی کا قرینہ،تقرب الٰہی کا وسیلہ اورمقبولیت کاتمغہ بن کرسامنے آتی ہے اور اگر نیت کاقبلہ درست نہیں تویہی عدم مقبولیت ،ناکامی،کم نصیبی،شکست اور فنا کا استعارہ بن جاتی ہے گویااصل مسئلہ قربانی کانہیں نیت کاہے بلفظ دیگر اصل مسئلہ گوشت ،جانور،قیمت ،خون ،کھال کانہیں ایما ن کاہے کیونکہ نیت میں اخلا ص تبھی پایا جاتا ہے، جب ہماراایمان مضبوط بنیادوںپرقائم ہوتاہے اور ہمارے تعلق باللہ کی سطحیں پختہ ترہوتی ہیں۔ عیدالاضحی کے دن ہرسال جانوروںکی قربانی کی صورت میں ہمارے اخلاص کی تربیت کی جاتی ہے اور نیتوں کی آرائش وزیبائش کااہتمام ہوتا ہے ۔سال بھرکے اندرہماری نیتیں برے اثرات قبول کرکے اپناقدرتی حسن کھو دیتی ہیں۔ یہ عیدالاضحی ہرسال ان کا وہی فطری حسن واپس لانے کی کوشش کرتی ہے ۔ حدیث مبارک’’ عمل کا دار ومدار نیت پرہوتاہے‘‘۔ ویسے توہراسلامی عمل کی بنیاد نیت ہے لیکن اگر واقعاتی طور پر دیکھاجائے توعمل کی سطح پر اس کے مفہوم کا مکمل اظہاراسی عیدکے دن ہوتاہے ۔ یہ عیدالاضحی ہمارے اخلاص کی تربیت گاہ ہے ، ہمارے ایمان کی جانچ پرکھ کا مدرسہ اور ہماری نیتوں کا’’تھرمامیٹر‘‘ہے۔ نیت کی پاکیزگی اورصحت جس سطح کی ہوتی ہے ، وہ اسی رفتارسے باب اجابت میں داخل ہونے کاتمغہ حاصل کرلیتی ہے ۔ عیدالاضحی ہمیں ہرکام میں نیتوں کاقبلہ درست رکھنے کاپیغام سناتی ہے اوراس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی سبق دیتی ہے قربانی کے بغیرچونکہ بقاکاتصورمحال ہے اس لئے بغیرقربانی جس طرح دین میں کوئی مقام حاصل نہیں کیاجا سکتا اسی طرح دنیاوی طورپربھی کوئی منصب حاصل نہیں ہوسکتا۔ استعارے کی زبان میں کہنا ہو توکہیں گے کہ قربانی صرف ایک مثال یاعلامت ہے خداکے تقرب ،روحانی ارتقاء اورباطنی تزکیہ کی۔اس کے مفہوم کو اگراور وسعت دیتے جائیں توحیرت انگیزطورپرمعانی کی پرتیں تہ بہ تہ خودبخودکھلتی چلی جائیں گی اور انسان جس یقین واعتمادسے دوچار ہو گا وہ یہ کہ قربانی انسان کوبقاء کی منزل سے آشناکراتی ہے فنانہیں کرتی،یہ حیات کی نویدسناتی ہے ،موت کا سناٹاطاری نہیں کرتی ۔ ا س معنی کو اورپھیلادیں تو کہا جا سکتا ہے کہ قربانی کو صرف جانورسے منسوب کرنے والے قربانی کومحض کوئی سطحی اورمعمولی سی چیزسمجھ بیٹھے ہیں وہ تخلیق حیات سے باخبرہیں اور نہ رازحیات سے آشنا۔ پوری انسانی زندگی اور اس زندگی کا ہرپہلو قربانی سے اس قدرگہرائی ،مضبوطی اورپختگی سے ہم رشتہ ہے کہ بغیراس کی ترقی کاایک قدم بھی اٹھانامشکل ہے ۔ اگر آنکھیں نورکی دولت سے معمور اور دماغ شعور کے سرمائے سے مالا مال ہو توکوئی بھی شخص یہ محسوس کئے بغیرنہیں رہ سکتاکہ عیدالاضحی گرچہ صرف جانوروں کی قربانی کے لئے ہی خاص ہے مگریہ باشعورلوگوں کے سامنے غور وفکراورتعقل وتفکرکے کئی میدان پھیلادیتی ہے اورحیات انسانی کو بامعنی، بامقصد، بافیض اور باوزن بناتی ہے۔اس طورسے دیکھاجائے تویہ عیدالاضحی ہمارے معاشرے کی آنکھ ہے جو ہمیں حسن وقبح،کامیابی و ناکامی،حیات وممات،فتح وشکست، زیرو زبر،بلندی وپستی، فناوبقاء اورکم نصیبی وخوش نصیبی کے درمیان پھیلے ہوئے سارے فاصلے دکھادیتی ہے ۔یہ عیدالاضحی ہمارے معاشرے کی دانش ہے جو ہمارے غوروفکرکی سمت تبدیل کرتی ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ عیدالاضحی کی قربانی کے دوپہلوہیں ،ایک ظاہری ہے اوردوسراباطنی ۔باطنی والاحصہ ہمار ی نیتوں اورہمارے ایمان میں پیوست ہوتاہے اور ظاہری والاحصہ ہماری عام زندگیوں میں اپنی جگہ بناتاہے ۔ عیدالاضحی ہمیں ہرسال یہی پیغام دیتی ہے کہ قربانی زندگی کا راز ، حیات کی علامت ،ترقی کازینہ ،ارتقاء کا وسیلہ اورجینے کاقرینہ ہے ۔ زندہ لوگ اس سے حیات کی نمو حاصل کرتے ہیں اورمردہ لوگ رسم ورواج میں قید ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ آپ کا شمارکس زمرے میں ہے ، مردو ں میں کہ زندوں میں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کہیں میراشمار مردوں میں تو نہیں۔
٭٭٭٭٭٭