Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بم گرانے کیلئے کبوتروں کو تربیت

واشنگٹن .... جنگ عظیم دوم کے دوران کبوتروں کو سکھایا گیا تھا کہ وہ کس طرح گلائیڈر سے بم گرا نے میں مدد کرسکتے ہیں اور اسی نظریے کو سامنے رکھ کر آج کا جدید ٹچ اسکرین سسٹم تیار کیا گیا۔ یہی ٹچ اسکرین ہمیں آج فون ، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیوائسسز میں ملتا ہے۔ یہ بات ایک نئی وڈیو میں بتائی گئی ہے۔کبوتروں کو بم گرانے کا یہ طریقہ صرف اس لئے سکھایا گیا تھا کہ بعض خطرناک علاقوں میں فوجیوں کو بھیجنا ان کی جان خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ اس دور میں نہ تو سیٹلائٹ کی سہولت ہوتی تھی اور نہ ہی جی پی ایس کی اور یوں اس دور میں بم گرایا جاتا تھا تو وہ ہوا کے زور سے کسی اور مقام پر گرنے کے خدشے سے دوچار رہتا تھا۔ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنانے کیلئے پائلٹ کو نچلی پرواز کرنا پڑتی تھی جو انتہائی خطرناک تھا اور ہر وقت خطرہ لگا رہتا تھا کہ دشمن ایسے طیاروں کو مار گرا سکتا ہے۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ انتہائی بلندی پر طیارہ پرواز کرے اور ایک ساتھ کئی بم گرائے جائیں اس آس پر کہ ان میں سے کوئی ایک تو ہدف کو نشانہ بنائے گا مگر یہ کام انتہائی مشکل ، غیر موثر اور اخراجات بڑھانے والا تھا جبکہ زمین پر بھی خاصی تباہی کا خدشہ تھاجس کے بعد نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹینڈرز اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) نے نیشنل بیورو آف اسٹینڈرڈز (این بی) کو ہدایت کی کہ وہ ایک گلائیڈر تیار کرے جس میں ایک ہزار پاﺅنڈ وزنی بم لیجایا جاسکے۔ اس میں ایک نئے قسم کا گائیڈنس نظام بنایا گیا جس سے بم ہدف کی طرف جاتا تھا۔اس سلسلے میں ایک ماہر نفسیات بی ایف اسکینر کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ انہوں نے دیکھا کہ پرندوں کاایک جھنڈ فضا میں اڑ رہا ہے اور اسی وقت انہیں خیال آیا کہ یہ تو وہ ”ڈیوائسسز“ ہیں۔ جو دور تک دیکھ سکتے ہیں اور ان میں غیر معمولی طور پر نقل و حرکت پائی جاتی ہے کیوں نہ یہی میزائل کو اپنے ہدف تک پہنچانے کیلئے رہنمائی کرے اور پھر اسی سوچ کے ساتھ انہوں نے کبوتروں کو تربیت دینا شروع کی۔ایک بڑی سی اسکرین بنائی گئی وہاں دانہ دنکا رکھا گیا اور کبوتروں کو سکھایا گیا کہ وہ اسکرین پر لگے دانے کھائیں۔ اسکرین پر ہی بحری جہاز حرکت کرتے نظر آئے اور یوں انہیں بتایا گیا کہ کس طرح نظر جمانی ہے اور پھر اسی کی مدد سے بم گرائے گئے۔ 
 

شیئر: