آئی فونز چوری ہونے کے بعد کہاں جاتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟
آئی فونز چوری ہونے کے بعد کہاں جاتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟
بدھ 18 دسمبر 2024 7:09
عرفان احمد -اردو نیوز اسلام آباد
چوری شدہ آئی فون کو سپیئر پارٹس کے لیے استعمال کرنا پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہو چکا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
ایپل کی ڈیوائسز خاص طور پر آئی فونز اپنے سکیورٹی فیچرز کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، جو نہ صرف صارفین کو فون کے استعمال کے دوران بلکہ چوری یا کھو جانے کی صورت میں بھی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
ایپل کی جانب سے فائنڈ مائی آئی فون اور آئی او ایس 18 اپ ڈیٹ کے بعد فون کے سپیئر پارٹس میں ایکٹیویشن لوک کے فیچرز تو موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آئی فونز چوری ہو کر کہاں جاتے ہیں اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔
آئی فون کی چوری اور سپیئر پارٹس کی فروخت کا پیچیدہ کھیل
جب بھی کوئی آئی فون چوری ہوتا ہے، قوی امکان ہے کہ ہر صارف نے لوسٹ پروٹیکشن اور فائنڈ مائی آئی فون کا فیچر فعال رکھا ہوتا ہے جو انہیں ایپل آئی ڈی کے ذریعے فون کی لوکیشن ٹریس کرنے میں مدد دیتا ہے۔
معاملہ پیچیدہ اس لیے ہے کہ پولیس میں آئی فون کی چوری کی رپورٹ درج کروانا اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا کہ پولیس فوری کارروائی کرتے ہوئے آپ کی ٹریس کی گئی لوکیشن تک رسائی حاصل کر پائے، اور عین ممکن ہے کہ جب تک کوئی کارروائی عمل میں آئے آپ کا فون ملک سے بھی باہر سمگل کر دیا گیا ہو۔
ایک بات جو واضح ہے کہ آئی فون چوری ہو جانے کے بعد چور کے کسی کام کا نہیں ہوتا جب تک وہ اس کی سکیورٹی کو بائے پاس نہ کر لے۔ دوسری اور واحد صورت یہ ہوتی ہے کہ فون کو کھول کر اس کے سپیئر پارٹس فروخت کیے جاتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ آئی فون کی حال ہی میں متعارف کرائی گئی آئی او ایس 18 اپ ڈیٹ کے بعد فون کے اہم سپیئر پارٹس جیسے بیٹری، ڈسپلے اور کیمرہ ایپل آئی ڈی کے ساتھ لاکڈ ہو جاتے ہیں اور اگر ان پارٹس کو کوئی نکال کر بیچتا بھی ہے تو دوسرے کسی فون میں یہ پارٹس کام نہیں کریں گے۔
آئی او ایس 18 اپ ڈیٹ کے بعد چوری شدہ آئی فونز کے سپیئر پارٹس کو نکال کر کسی دوسرے فون میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ (فوٹو: بیِٹا پروفائل)
تاہم اگر آپ نے اپنے آئی فون میں کوئی تھرڈ پارٹی سپیئر پارٹ لگوایا ہے اور وہ فون آن کرنے کے بعد لاک ہو گیا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ پارٹ چوری شدہ فون سے نکال کر آپ کو ریپئرنگ کے وقت بیچا گیا ہے۔
آئی فون چوری ہونے کے بعد چور پہلا کام کیا کرتے ہیں؟
ایک آئی فون چوری ہو کر کئی افراد سے گزرتا ہے اور اکثر اوقات ملک سے باہر پہنچا دیا جاتا ہے۔
سب سے پہلا کام جو چور کرتے ہیں وہ صارف کی سم کا نمبر پتا کرانے کا ہے۔ صارفین فون چوری ہونے کے بعد نئی سم نکلوا لیتے ہیں اور اس ہی سم پر آپ کو سپیم میسجز بھیجے جاتے ہیں۔
یہ میسجز بظاہر ایپل سپورٹ کے نام سے آتے ہیں اور ان میں آپ کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کا فون اس لوکیشن پر موجود ہے اس کو تلاش کرنے کے لیے لنک پر کلک کریں۔
چور آپ کے نمبر پر سپیم میسج کے ذریعے فون ٹریس کرنے کا لنک بھیجتے ہیں جس پر کلک کرنا صارفین کو ان کی ایپل آئی ڈی سے محروم کر دیتا ہے (فوٹو: سکرین گریب)
اگر صارف اس سپیم لنک پر کلک کرتا ہے تو آپ کے سامنے ایپل آئی کلاؤڈ جیسی ہی ویب سائٹ کھلتی ہے، اور اگر کوئی شخص اس پر اپنی ایپل آئی ڈی لاگ ان کرتا ہے تو اس کی ساری معلومات چور تک پہنچ جاتی ہے اور آپ کی ایپل آئی ڈی ان لاک کر دی جاتی ہے۔
آئی فون کی بدنام زمانہ بلیک مارکیٹس
اب بات کی جائے کہ آئی فونز چوری ہو کر کہاں جاتے ہیں تو اس کا واحد جواب ہوگا بلیک مارکیٹس۔
سنڈے ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر آئی فونز سمیت چوری شدہ الیکٹرانکس کی دنیا کی سب سے بڑی بلیک مارکیٹ چین کے شہر شینزین میں ہے۔
یوآن وانگ ڈیجیٹل مال اور لوہو کمرشل سٹی جیسی مارکیٹیں چوری شدہ فونز کی تجارت کے لیے بدنام زمانہ مرکز ہیں۔ یہ مارکیٹیں فون کے پرزوں کو ان لاک کرنے اور فروخت کرنے میں اپنی مہارت کے لیے مشہور ہیں جہاں آلات کو ناقابلِ شناخت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
ایپل کی ہائی ٹیک سیکیورٹی خصوصیات جیسے کہ ایکٹیویشن لاک اور فائنڈ مائی آئی فون، چوروں کے لیے چوری شدہ ڈیوائسز کا استعمال مشکل ہی نہیں بلکہ کسی حد تک ناممکن بنا دیتی ہیں۔
اگرچہ یہ فیچرز صارفین کو کسی حد تک تحفظ فراہم کرتے ہیں، اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ صارفین نے پولیس کی مدد سے اپنے آئی فونز کامیابی سے ٹریس کروا کر واپس بھی حاصل کیے۔
ایک طرف چوری شدہ آئی فونز کو کسی بھی صورت استعمال کرنا مشکل ہے وہیں ان آئی فونز کے سکیورٹی فیچرز نے ڈیوائسز کو ان لاک کرنے اور برآمد کرنے کی پوشیدہ صنعت کو بھی جنم دیا ہے جہاں دنیا بھر میں نت نئے سکیورٹی فیچرز کے ساتھ ان کو بائے پاس کرنے کے بھی نئے طریقے دریافت ہوتے رہتے ہیں۔