Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ممکنہ مستقبل پر نظر‘ رکھنے کے لیے شامی بفرزون پر قبضہ کریں گے: اسرائیل

ہرمون کی چوٹی پر قبضے کے بعد اسرائیل کی شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کی فوج شامی سرحد کے بفرزون اور خصوصاً ہرمون پہاڑ کی چوٹی پر تب تک قیام کرے گی جب تک اسرائیل کے تحفظ کا کوئی اور انتظام نہیں ہو جاتا۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یہ الفاظ انہوں نے اسی پہاڑ کی چوٹی پر گفتگو میں کہے جو کہ اس علاقے کی سب سے اونچی چوٹی ہے جو کہ شام کے اندر ہے اور اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
  یہ بظاہر پہلی مرتبہ ہے کہ اسرائیلی لیڈر نے شامی سرزمین پر قدم رکھے۔
نیتن یاہو کا مزید کہنا تھا کہ وہ 53 برس قبل بھی ہرمون کی پہاڑی پر آ چکے ہیں، جب وہ ایک فوجی تھے تاہم اسرائیل کے لیے اس مقام کی اہمیت حالیہ واقعات کے دوران بہت بڑھی ہے۔
شامی صدر بشارالاسد کو باغیوں کی جانب سے نکالے جانے کے بعد اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں سے ملحقہ جنوبی حصے پر قبضہ کر لیا تھا جو اسرائیل کے ساتھ لگتا ہے۔
بفر زون کا یہ علاقہ غیرفوجی ہے جو تقریباً 400 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔
قبضے کے بعد ناقدین کی جانب سے اسرائیل پر شدید مذمت سامنے آئی اور اس کو 1974 کے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا گیا اور اس پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ بشارالاسد کے بعد شام میں بننے والی افراتفری کی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شامی زمین پر قبضے کی کوشش کر رہا ہے۔

ہرمون کا پہاڑاسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے (فوٹو: روئٹرز)

نیتن یاہو کے ساتھ بفر زون جانے والے اسرائیلی وزیر دفاع کیٹز کا کہنا ہے ان کو ہدایت کی گئی ہے کہ  ساتھ بفر زون کا دورہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کو فوری طور پر قلعہ بندی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور امید ہے کہ اس علاقے میں مزید قیام کیا جا سکتا ہے۔
 ان کا کہنا تھا کہ ’ہرمون کی چوٹی اسرائیلی ریاست کی آنکھیں ہیں جن سے ہم دور قریب اور دور کے دشمنوں کی شناخت کرتے ہیں۔‘
ایک اسرائیلی فوجی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بفر زون میں رہائش پذیر شامیوں کو وہاں سے نکالنے کی کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
شام اور اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں کے درمیان علاقے کو بفر زون کہا جاتا ہے جو کہ 1973 میں مشرق وسطیٰ کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ نے قائم کیا تھا اور اس وقت سے وہاں اقوام متحدہ کا 1100 اہلکاروں پر مشتمل فوجی دستہ موجود ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے منگل کو کہا کہ اسرائیلی فوجی پیش قدمی 1974 میں ہونے والے بفر زون کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’اس معاہدے کا احترام کرنا ضروری ہے اور قبضہ کسی بھی صورت میں قبضہ ہی ہے، چاہے وہ ایک ہفتے کے لیے ہو، مہینے یا پھر سال کے لیے، وہ قبضہ ہی تصور کیا جائے گا۔‘
اس معاملے پر ابھی تک شام کے باغی گروپ ھیۃ تحریر الشام اور عرب ریاستوں کا کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔

شیئر: