جدید ادب حال سے جوڑتا ہے اور کلاسیکی ماضی سے، حمیرا راحت
کراچی میں بہت سے نام ہیں جو متاثر کن شاعری کر رہے ہیں(آخری قسط)
انٹرویو:زینت شکیل۔جدہ
٭٭کلاسیکل اور جدید ادب میں آپ کسے زیادہ پسند کرتی ہیں اور کیوں؟
جواب: جس طرح کسی عمارت کو اس کی بنیاد سنبھالے رکھتی ہے،اِسی طرح کلاسیکل ادب ہماری بنیاد ہے۔اسے نظر انداز کیا ہی نہیں جا سکتا۔جدید ادب ہمیں ہمارے حال سے جوڑتا ہے اور کلاسیکی ادب ماضی سے اور انسان کسی حال میں بھی اپنے ماضی سے کٹ کر جی سکتا ہے اور نہ ہی اپنے حال سے بے خبر رہ سکتا ہے۔مجھے ذاتی طور پر جدید ادب زیادہ پسند ہے کیونکہ آج کے لکھاری کے لئے ایک بہت وسیع کینوس موجود ہے۔ماضی میں جو باتیں لکھنے پر مصنفین پرمقدمے قائم کر دئیے جاتے تھے آج وہ باتیں کھل کر کہی جا رہی ہیں۔علامتی افسانے نے بھی قاری کے ذہن کو بلاغت ،بصیرت اور وسعت بخش دی ہے۔ شاعری میں نئے تجربات کئے جارہے ہیں۔نئی اصناف سخن ایجاد ہو کر قبولیت ِعام کا درجہ حاصل کر رہی ہیںمثلاً ہائیکووغیرہ ۔
٭٭کیا موجودہ ادب اور شاعری جدید تقاضوں کو پورا کر رہی ہے؟
جواب: اگر جدید تقاضوں سے مراد ہے شاعری اور ادب میں جدید طریق کار کو اپنانا،تو بے شک فارمیٹ ترقی یافتہ ہو گیا ہے۔کسی زمانے میںسائنس اور ادب کے درمیان جو فاصلے تھے وہ اب کم ہوتے جا رہے ہیں۔زندگی جس تیزی سے بھاگ رہی ہے اور انسان جس مشینی دور میں سانس لے رہا ہے ،ا±س میں سب سے نایاب شے لمحہ¿ فرصت ہے ۔سو اس حوالے سے اب ”سولفظی کہانی“ متعارف کروائی گئی ہے جو مقبولیت بھی حاصل کر رہی ہے۔ ہائیکو اور ثلاثی وغیرہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔موضوعات میں بھی بے حد وسعت آئی ہے۔مجھے سارک رائٹرز کانفرنسز میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوتا رہا ہے۔ مجھے وہاں دیگر ایشیائی ممالک کے ادب کو پڑھنے اور سننے کا موقع بھی ملا ہے۔میں حیران ہوتی ہوں کہ دیگر ممالک میں کن کن موضوعات کو ٹچ کیا جا رہا ہے۔
٭٭شاعرات نے اپنے ترنم اور میک اپ سے مشاعروں کو ورائٹی شوز میں تبدیل کردیا ہے۔ اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: میں اس سوال کا مقصد نہیں سمجھ سکی ۔اگر ترنم کی بات کی جائے تو ترنم کوئی معیوب بات نہیں۔زہرہ نگاہ ، بسمل صابری، ریحانہ روحی اوربے شمار شاعرات پاکستان اور ہندوستان میں ترنم سے مشاعرہ پڑھتی رہی ہیں اور پڑھ رہی ہیں۔ترنم تو شاعری کو خوبصورتی اور حسن عطا کرتا ہے۔یہ قدرت کی عطا کی ہوئی ایک اضافی خوبی ہے جو کسی کسی کو ملتی ہے۔اب جہاں تک بات ہے فیشن اور میک اپ کی تو اپنی سیلف گرومنگ پر تو آج کل ہر اچھے ادارے میں زور دیا جاتا ہے۔میں پڑھاتی ہوں لیکن ہمارے اسکول میں بھی اساتذہ کو گرومنگ ورکشاپس دی جا رہی ہیں۔کیا عام خواتین کسی تقریب میں یونہی اُٹھ کر چلی جاتی ہیں، خواہ وہ ادبی محفل ہو یا سالگرہ کی تقریب ،ہر جگہ آپ کو صنفِ نازک میک اپ کئے ہوئے نظر آئیں گی اور یہ غلط نہیں۔یہ ان کا حق ہے۔صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ میک اپ اور لباس تہذیب کے دائرے میں ہو ںاور یہ بات ہر جگہ کے لئے ہے صرف مشاعرے ہی کے لئے اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ۔ہم آج کی دنیا میں رہتے ہیں۔آج کا مشاعرہ بھی یقینا 30،40 سال قبل کے مشاعرے سے مختلف ہو گا اور اسے ہونا بھی چاہئے۔
٭٭آپ قدیم شعراءاور ادیبوں میں کسے پسند کرتی ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب: بہت قدیم شعرا ءمیں اگر میں غالب کا نام لوں تو خیر یہ ایک عمومی جواب ہوتا ہی ہے لیکن مجھے ان کے علاوہ سراج اورنگ آبادی، مجاز اور فراق بہت پسند ہیں۔وجہ کیا بتاﺅں۔ہر شاعر کی پسندیدگی کی الگ الگ وجوہ ہیں۔ہر ایک کی شاعری دل کو اور احساس کے تاروں کو چھو لیتی ہے۔سراج اورنگ آبادی کے ہاں گہرائی اورمخصوص رنگ متاثرکرتا ہے ،فراق اور مجاز کے ہاں عشق اپنے اصل خدوخال کے ساتھ نظر آتا ہے۔روح کا خلا اور فرد کی تنہائی گفت گو کرتی دکھائی دیتی ہے۔
٭٭موجودہ شعراءاور افسانہ نگاروں میں مستقبل کے شعراءاور ادیبوں کی صف اول میں کسے دیکھ رہی ہیں؟
جواب: اقبال نے کہا تھا:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
زندگی کے ہر شعبے کی طرح ادب کے شعبے میں بھی نئے امکانات کی دنیاآباد ہو تی نظر آتی ہے۔بے شمار نئے چہرے ہیں۔ان گنت نئے نام ہیں جو ہمیں مستقبل کے آسمان پر ستاروں کی طرح جگمگاتے نظر آتے ہیں لیکن ادب میں پیش گوئی نہیں چلتی ادب میں جذبہ، لگن، احساس اور عشق چلتا ہے۔یہاں کسی ایک یا دو لوگوں کے نام نہیں دئیے جا سکتے کیونکہ :
جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
٭٭آپ کس ادیب اور شاعر سے متاثر ہیں؟
جواب : اس سوال کا جواب میں پہلے بھی دے چکی ہوں۔اگر آپ کی مراد یہاں پر نئے نام دینے سے ہے تو بے شمار نئے نام ہیں جوآج کے منظر نامے میں دل کو چھوتے ہیں۔مجھے ذاتی طور پر نوجوان شعراءمیں رانا سعید دوشی، شہزاد نیر اور جنیدآزر کی شاعری زیادہ متاثر کرتی ہے۔کراچی میں بھی بہت سے ایسے نام ہیں جو متاثر کن شاعری کر رہے ہیںاور کراچی کی ادبی دنیا کا ایک مضبوط حوالہ بنے ہوئے ہیں۔
غزل
پھر ملاقات کی دعوت نہیں دینے والے
زندگی تجھ کو یہ زحمت نہیں دینے والے
دل ا±سے یاد کر ے اشک بہائیں آنکھیں
ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دینے والے
رقص کرتے ہوئے گر جائے ،فنا ہوجائے
عشق کو اتنی بھی وحشت نہیں دینے والے
آج ہم صاف بتاد یتے ہیں شہرت تجھ کو
ہم تِری کوئی بھی قیمت نہیں دینے والے
جن کے ہتھیار نمائش کے لئے ہوتے ہیں
ہم اُنہیں دادِ شجاعت نہیں دینے والے
وہ اگر لوٹ بھی آئے تواُسے یہ کہنا
ہم وہ پہلی سی محبت نہیں دینے والے
تم نے جن خوابوں کو بچوں کی طرح پالا ہے
یہ حمیرا تمہیں راحت نہیں دینے والے
ڈر
یہ ڈر جو ساتھ چلتا ہے
مِری ماں کی امانت ہے
میں جب چھوٹی سی بچی تھی
تو میری ماں نے
اِس ڈر کو
مِرے دل کے کسی سنسان گوشے میں
بڑی مشکل سے ڈالا تھا
وہ کہتی تھی
کہ میں تنہا کہیں باہر نہ جاﺅں
کیوں نہ جاﺅں؟
بحث کرتی میں
وہاں پر بھیڑئیے پھرتے ہیں
انسانوں کی صورت میں
میں اُس کی بات سن کر
دل میں ہنس پڑتی
وہ کہتی تھی
دوپٹہ سر پر لوں
اپنی نگاہیں نیچی رکھوں
اورہر اِک حکم پر سر کو جھکاﺅں
اور میں کہتی
سراسر بزدلی ہے یہ
وہ کہتی
ہاں تو بزدل لڑکیاں ہی شاد رہتی ہیں
سدا آباد رہتی ہیں
مجھے آباد رہنا تھا
ہمیشہ شاد رہنا تھا
سو میں نے اپنی ماں کی اس امانت کو
سدا آنچل سے اپنے باندھ کر رکھا