”بزمِ اُردو ،دبئی“ کا ”مشتاق یوسفی کیلئے ایوارڈ،غلام علی نے غزلیں پیش کیں
حسیب اعجاز عاشر۔دبئی
صحرائے عرب میں متحدہ عرب امارات کے بارونق شہر دبئی میں”بزم اردو“ نے ”محفلِ اردو2017“کے زیر عنوان اردو ادب کی تاریخ کا ایک روشن باب رقم کر دیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثر نثر نگاریا مصنف کسی بھی تقریب کی کامیابی کا تاثر پیدا کرنے کیلئے منفرد وپُرکشش الفاظ کا چُناﺅ،پھر اِن کے ردوبدل اور اُلٹ پلٹ کرنے ، بار بار تحریر کے بناﺅ سنگھار، گویاقارئین کی توجہ لینے کیلئے روشنائی سے اندھیروں میں روشنی بھرنے کیلئے نجانے قلم و قرطاس کے ساتھ کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں مگرکبھی صورتحال یکسر مختلف ہوتی ہے کیونکہ تقریب ہی ایسی رنگین ودلفریب،شاندار و یادگار ہو تی ہے کہ سر دُھننا نہیں پڑتا بلکہ الفاظ خود ہی عطا ہوتے رہتے ہیںاور کڑیوں سے کڑیاں ملتے ہوئے ایک تحریر بن ہی جاتی ہے۔یہاں بھی ایک ایسا ہی احوالِ تقریب پیش خدمت ہے۔
بزمِ اُردو دبئی کے زیراہتمام3 حصوں پر مشتمل تقریب”محفلِ اُردو2017“متحدہ عرب امارات میں اُردو ادب کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد تقریب تھی۔انڈین ہائی اسکول، ڈیرہ دبئی کاشیخ راشد آڈیٹوریم وقت سے پہلے ہی اہل ذوق حضرات کی کثیر تعداد سے کچھا کچھ بھر چکا تھا۔مین گیٹ پر پُرجوش ہنستے مسکراتے چہروں کیساتھ انتظامیہ شرکاءکے پُرتپاک استقبال کیلئے موجود تھی جبکہ شرکاءکو اُنکی مخصوص نشستوں تک لے جانے کیلئے ہال کے اندر بھی انتظامیہ کی جانب سے ذمہ داران چاق و چابند تھے۔
تقریب کا آغاز ہوا، قمقمے مدھم ہونے لگے۔اسی دوران سماعتیں یوں گونج اٹھیں کہ ”میں ہوں ترنم احمد“ ، اسٹیج پر موجود شخصیت نے انتہائی خوش اسلوبی سے پروگرام کا سرسری تعارف پیش کیا۔شاعر”مومن“کا ذکر آتے ہی”تم اُس مومن کا ذکر تو نہیں کر رہیں جو۔۔۔۔۔“یہ کہتے ہوئے ایک شخص”عزیر“ا سٹیج پر لگے دوسرے ڈائس پر جلوہ افروز ہوئے اور پھر دونوں میں دلچسپ مکالمے کا آغاز ہوا۔ ترنم کی گفتگو سے یہ تاثر واضح تھا کہ وہ ادب کا ”حال “ہیں جبکہ عزیر اپنی باتوں سے ”ماضی“ کا تاثر دے رہے تھے۔ایک اگر حال کو بہتر بتانے پر بضد نظر آتیںتو دوسرے ماضی میں ادب کو قابل رشک ثابت کرتے اگر ماضی میں ادب کو معیاری کہا جاتا تو دوسری جانب سے حال میں فروغ ادب کی کاوششوں کو مثالی قراردیا جاتا۔”دل میں جھانکو تو ماضی حال میں آجاتاہے“ اِس متفقہ رائے کے بعد ترنم نے کہا کہ ریحان خان اُردو کے عاشق ہیں، حال میں رہتے ہوئے ماضی پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔انہوں نے عزیر سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ ماضی ہیں اور میں حال، تو مستقبل کون ہے؟ دونوں نے ہاتھوں کو حاضرین محفل کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا ”مستقبل آپ ہیں“ یوں تالیوں کی گھن گرج میں ریحان خان کو ڈائس پر مدعو کیا گیا۔ ریحان خان نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا جی بالکل،اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُردو ادب کا مستقبل آپ سب ہیں۔ مگر قابل فکر بات یہ ہے کہ لسانی احساس کمتری ہوگیا ہے۔انگریزی بول چال کا رحجان فروغ پا رہا ہے جب کہ یہ صرف کام کاج کی حد تک محدود زبان ہونی چاہئے تھی۔600 ملین لوگوں کی بولی جانے والی دنیا کی چوتھی بڑی زبان” اُردو“ کی ترویج کا آغازہمیں پھر سے اپنے گھروں سے کرنا ہوگا۔انہوں نے اِس عزم کا بھی اظہار کیا کہ اردو زبان کے حوالے سے کوئی مشاعرے یا غزل گائیکی کے انعقاد کا ارادہ رکھتا ہوتو ”بزم اُردو دبئی“ ہر ممکنہ تعاون کریگی۔
غزل کا ذکر ہو اور اُستاد غلام علی کا نام نہ لیا جائے ،یہ ممکن نہیں۔غزل صنف سخن کے اعتبار سے نازک سہی مگرگائیکی کے اعتبار سے مشکل ترین ہے۔اساتذہ سے سیکھنے کی ٹرپ اور پھر برسوں کی ریاضت کی بدولت اُستاد غلام علی نے کلاسیکل موسیقی کوجس آن بان شان کے ساتھ زندہ رکھا ہوا ہے،وہ بے مثال ہے۔تلفظ،سروں پر گرفت ،موسیقی پر دسترس ،میٹھی آواز کا جادو اورسادہ اندازِ گائیکی کی وجہ سے غلام علی نے غزل گائیکی میں وہ مقام بنایاکہ ساراعالم ان کی جانب رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہاہے۔غلام علی بلا شبہ20ویں اور اب21ویں صدی میں بھی ”غزل گائیکی“ کے حوالے سے بہت بڑا قابل قدر نام ہیں۔ناصر کاظمی نے کسی موقع پر کہا تھا کہ ”غلام علی کی گائیکی کا خاصہ یہ ہے کہ وہ کسی ایک راگ میں غزل گاتے ہوئے اس راگ کے قریب کے سروں کی آمیزش سے اپنی غزل کو خوب صورت بناتے ہیں“جبکہ ہری ہرن کا کہنا ہے کہ” غزل گائیکی میں مہدی حسن اور غلام علی کی مثال نہیں“لتا ،آشا بھوسلے، محمد رفیع سمیت برصغیر میں کوئی ایسا گائیک نہیں جس نے غلام علی کے فن کو تحسینی کلمات سے نہ نوازا ہو۔
اُستاد غلام علی کی فروغِ اُردو ادب کیلئے اِنکی گراں قدر خدمات کے حوالے سے ”بزم اُردو 2017“کے حصہ اول میں غیر رسمی اندازِ گفتگو کیلئے بعنوان ”روبرو“میں شگفتہ یاسمین اور اُستاد غلام علی کواسٹیج پر مدعو کیاگیا،حاضرین محفل نے تالیوں کی گونج میں غلام علی سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا۔ اِس سے قبل ”یہ دل یہ پاگل دل میرا“، ”چپکے چپکے ر ات دن آنسو بہانہ یاد ہے“ سمیت غلام علی کی چند مشہورِ زمانہ غزلوں کی سُریلی دھنوں کی مختصر آڈیو کو بھی سماعتوں کی نذر کیا گیا ۔جسے شرکاءکی تالیوں اور واہ واہ کی داد و تحسین نے سندِ پسندیدگی سے نوازا۔شگفتہ یاسمین نے کہا کہ مدتوں تاریخ کو انتظار کرنا پڑتا ہے پھر غلام علی جیسی ہستیاں سامنے آتی ہیں۔ انکے لہو میں اُردو تہذیب رچ بس چکی ہے۔
اُستاد غلام علی نے کہا کہ میری آواز میری نہیں یہ سب میرے اساتذہ اور والدین کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔پُرانی یادوں کی کتابوں کے اوراق سے دھول اُڑاتے ہوئے کبھی غلام علی کے چہرے پر افسردگی چھا جاتی اور کبھی جگ مگا اُٹھتا۔ حاضرین نے بڑی دلجمعی سے تمام واقعات سنے ۔غلام علی نے کہا کہ میرے چہرے کی شگفتگی اُردو ادب کا کمالِ خاص ہے۔ شگفتہ یاسمین کے اِس سوال پر کہ اگر آپ غزل گائیک نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟ غلام علی نے کہا کہ میں غزل گائیک نہ ہوتا تو ہوتا ہی نہیں۔
ماضی اور حال کے ایک اور دلچسپ مکالمے کے بعد تقریب اگلے پڑاﺅ کی جانب بڑھی۔جوش اُردو ایوارڈ2017 کے لئے مشتاق احمد یوسفی کا انتخاب کیا گیا تھا۔مشتاق احمد یوسفی, ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز ، ڈی لٹ (اعزازی) کا شمار ایک رحجان ساز اور صاحب اسلوب مزاح نگار میں ہوتا ہے۔مشتاق احمد یوسفی کی پیدائش 4 ستمبر، 1921 کو ریاست ٹونک، راجستھان، ہندوستان میں ہوئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم راجپوتانہ، ایم اے (فلسفہ) آگرہ یونیورسٹی اور ایل ایل بی کی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی تشریف لے آئے ۔کامیاب ترین بینکر ہونے کے علاوہ طنزومزاح میں بلند پایہ مقام حاصل کرنا اِنہی کا خاصہ ہے۔
مشتاق احمد یوسفی صاحب شدید علالت کے باعث تقریب میں شرکت سے قاصر رہے۔ مگر ایوارڈ نوازنے کے حوالے سے ٹی وی سکرین پر ویڈیو کلب پلے کیا گیاجس میں بزم اُرد دبئی کی جانب سے ظہورالاسلام جاوید اور تابش زیدی ،مشتاق احمد یوسفی کی خدمت میں کراچی میں اُنکے دولت کدے پر جوش ایوارڈ2017پیش کر رہے تھے ۔ عنبرین حسیب عنبر کے چندسوالات کا جواب دیتے ہوئے یوسفی صاحب نے کہا کہ” میری عزت افزائی کیلئے جو صورت اختیار کی گئی ، وہ قابل ستائش ہے۔آج اِس روایت کو بدلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں کہ زندہ کی بھی تعریف ہورہی ہے ورنہ تو مرنے کے بعد یاد کیا جاتا ہے ۔ لگتا ہے انتظامیہ نے کچھ عجلت دکھائی ہے“۔ عنبرین کے اِس سوال پرکہ آج لکھنے والے کا تلفظ،بولنا،لکھنا سب غلط ہے،آپ کیا کہتے ہیں؟جواب ملا کہ” دوسروں کی بدچلنی پر تبصرے کا حق کسی بدچلن کو ہی ہوسکتا ہے۔“بعدازاں ہندوستان سے آئے ہوئے معروف آرٹسٹ ڈاکٹر سعید عالم اور ویشنو شرما نے مشتاق احمد یوسفی کی تصا نیف سے طنزومزاح پر مشتمل ا قتباسات پیش کئے۔ ایوارڈ کا سلسلہ پھر شروع ہوا اور بزم اُردو دبئی کا پہلا علم داراُردو ایوارڈ سہیل زرعونی اور شکیل خان نے اُستاد غلام علی کو پیش کیا۔ ذیشان حیدر بھی ہمراہ تھے۔پاسبان اُردو ایوارڈ ڈاکٹراُتم کمارکو دیاگیا۔مجلے کی رونمائی بھی عمل میں لائی گئی جس کے لئے تمام مہمانان خصوصی کے علاوہ شکیل احمد خان، ریحان خان سمیت ندیم احمد، معراج احمد نظامی، سید تابش زیدی، شبی قریشی، محمد عزیر عتیق،عائشہ جنتی، شاداب، عبد ا لصبور، سید اطہر عباس، سعود مدنی، احیاءبھوج پوری، سرور نیپالی،سید سروش آصف اور محمد شاداب بھی اسٹیج پر موجود تھے۔
ڈاکٹر اُتم کمار نے کہاکہ اُردو انتہائی گہری زبان ہے لہٰذا اس کو پڑھنے کیلئے دماغ کے زیادہ حصوں کو استعمال میں لانا پڑتا ہے ۔اُردو کا سب سے اہم کردار جو ریسرچ میں سامنے آیا وہ فیصلہ کرنے اور اچھے اور بُرے میں فرق کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے۔اب پردے گرے اور کچھ دیر کے بعد اچانک ایک گرج دارآوازآئی۔1850 کادور،لال قلعے کا ایک منظر، پھر آواز کانوں کے پردوں سے ٹکراتی ہے”مومن صاحب طرحی مصرع کیا ہے ؟“شہنشاہ معظم پردے کے پیچھے اپنے عہد کے نامور شعرائے کرام کے ہمراہ اسٹیج پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ ایک حکم صادر کردیتے ہیں کہ اِس بار مشاعرے کی نظامت ایک شاعر کرے گا ۔ مشاعرے کی تاریخ میں پہلی بار نظامت کا سہراجس شاعر کے سر سج رہا تھا،وہ خوش نصیب مرزا اسد اللہ خان غالب تھے۔اور یوں لال قلعے کا آخری مشاعرہ”تمثیلی مشاعرہ“ اپنے اصل رنگ لئے شروع ہوا جسے دیکھ کر آنکھیں دنگ رہ گئیں۔ ماضی ،حال میں موجود تھا۔ خوبصورت مکالمے بازی،اندازِنظامت،شعراءی گفتگو بدولت ہم ماضی میں موجود تھے۔اِس مشاعرے کے مصنف اورہدایتکار ڈاکٹر ایم سعید عالم تھے جو مرزا غالب کا کردار بھی بخوبی ادا کررہے تھے،مومن، آغا جان، بہادر شاہ ظفر، ذوق، غلام رسول شوق، بال موکند حضور، سخنور رُکن، آرزوردا، داغ دہلوی اور سشلا کا کردار ادا کرنے والے فنکاروں کے اصل نام بالترتیب ساحر خان، عیش، ویشنو شرما، ایمن انصاری، منیش سنگھ، ھنان سنگھ، آرن، پرتاپ، ساحل جان اور یشراج تھے۔شرکاءنے دلجمعی سے تمثیلی مشاعرہ سُنا اور ہر کلام کے ہر مصرعے پر داد لٹاتے رہے۔ فنکاروں کی پرفارمنس کو بھی خوب سراہا گیا۔
جس نت نئے انداز،پیرائے اورزاویوںمیں اُردو کی چاشنی سے لبریزاس محفل کو سجا گیا تھا،وہ قابل دید بھی تھا،قابل رشک بھی ،قابل تعریف بھی اور قابل تقلیدبھی۔بڑے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ”بزم اُردو،دبئی“ کی کاوششوں سے پاک و ہند کی تہذیب کی سنہری تاریخ سے مزین کتب میں اُردو ادب کے اوراق کبھی پھیکے نہیں پڑ سکتے ۔