Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہم قافلہ صلہ رحمی لے کر چلے

جب سیدہ ھالہؓ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ کو ام المؤمنین سیدہ خدیجہؓ کا اجازت طلب کرنے اور گفتگو کرنے کا انداز یاد آ گیا
* * * عبد المالک مجاہد۔ریاض* * *
عربوں میں یہ عادت ہے کہ جس کی تکریم کرنا ہواس کیلئے بکرا ذبح کرتے ہیں۔ہم عرب تو نہیں مگر عربوں میں جو اچھی عادات اورروایات ہیں ان کو اپنانا چاہیے اور میں بھی اپنانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مسافر کو شریعت نے رخصت دی ہے کہ وہ 2 نمازیں اکٹھی ادا کرسکتا ہے۔ ہم نے ظہر اور عصر کی نماز اسی ہسپتال کے احاطے میں واقع مسجد عفراء بنت عبدالمالک میں ادا کی ۔ چھوٹی سی خوبصورت اور پیاری سی یہ مسجد، میری عزیز از جان بیٹی عفراء نے بنوائی ہے۔ 3 بھائیوں سے چھوٹی اور 3 بھائیوں سے بڑی عفرا گھر کی رونق ہے۔ اس وقت یہ کالج کی ا سٹوڈنٹ تھی کہ ایک دن صبح صبح میرے کمرے میں آئی، کہنے لگی: ابو میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں مسجد بنوا رہی ہوں۔ میں نے خود اس کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ پہلی اینٹ میں نے رکھی ہے اور دوسری اینٹ آپ نے رکھی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مسجد کے لئے جو پیسے میرے پاس ہیں وہ میں ادا کروں گی اور دوسری اینٹ چونکہ آپ رکھ رہے اس لئے باقی پیسے آپ خرچ کریں گے۔ ہاں یہ مسجد اس جگہ بنے گی جہاں میرے ابو پیدا ہوئے ہیں۔ اس نے مجھے خواب اور اس کی تعبیر بھی خود ہی سنا دی۔ وہ خواب اور اس کی تعبیر سنا کر میرا جواب سنے بغیر چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد پس انداز 7 ہزار ریال میری جھولی میں پھینک کر بکھیر دیے۔ میں نے مسکرا کر اسے گلے لگا لیا۔ میری یہ پیاری بیٹی میرے سینے پر چڑھ کر اپنے مطالبات منوایا کرتی تھی۔ 5 پپیاں کرتی، بھائیوں کو چڑاتی کہ دیکھو میرے پاپا میرے ساتھ کتنا پیار کرتے ہیں۔ اس کی امی نے کہا: عفراء بیٹی! کیلیانوالہ میں پہلے سے کئی مساجد ہیں کسی اور جگہ بنوا لو، مگر اس کا اصرار تھا کہ بس مسجد وہاں بنے گی جہاں میرے ابو پیدا ہوئے ہیں۔ گھر میں اسے منوانے کی کوشش جاری رہی، مگر اس کی ایک ہی رٹ تھی کہ مسجد وہاں بنے گی جہاں میرے ابو پیدا ہوئے ہیں۔ اللہ جزائے خیر دے میرے چھوٹے بھائی طارق شاہد کو، انہوں یہ مسئلہ اس طرح حل کیا کہ یہ مسجد ہسپتال کے کونے میں بنانے کا فیصلہ کر لیا تاکہ ہسپتال کا عملہ اور مریض وہاں نمازیں ادا کر سکیں۔ ہمارے ایک عزیز جناب خالد مخدوم جو اس وقت ہمارے کنٹریکٹر بھی تھے، انہوں نے بڑی خوبصورت مسجد بنا ڈالی۔ 5 کونوں والی مسجد چھوٹی سی مگر بے حد خوبصورت ہے۔ مجھے اس مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے بہت روحانی سکون ملتا ہے کہ یہ میری بیٹی نے اس وقت بنوائی جب ابھی وہ کالج کی ا سٹوڈنٹ تھی اور اس کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ میں اکثر اسے فخر سے کہتا: عفراء! تم ہمارے خاندان کی منفرد لڑکی ہو جس کی مسجد شادی سے پہلے ہی بن گئی ہے۔
ہم نمازوں سے فارغ ہوئے تو کھانا چن دیا گیا جس میں گاؤں کے تمام رشتہ دار بھی شریک تھے۔ آج کے کھانے کا اہتمام ڈاکٹر محمد عثمان اور ان کی اہلیہ بشریٰ نے کیا تھا۔ ڈاکٹر محمد عثمان ہمارے کیلیانوالہ کے حلقے کے صدر ہیں اور میرے چچا زاد بھائی برادرم محمد مسعود احمد کے صاحبزادے ہیں۔ بڑی ناسپاسی ہو گی اگر میں اپنے ایک اور بھتیجے قاری عرفان الحق صابر کا ذکر نہ کروں کہ یہ خصوصی طور پر حافظ آباد سے تشریف لائے ہیں۔ یہ آنکھوں کی معذوری کے باوجود ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ آنکھیں اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا عطیہ ہیں، مگر جو اُن سے محروم کیا گیا ہے اور صبر کرتا ہے تو اس کے لئے صحیح بخاری میں اللہ کے رسول اللہکی حدیث ہے کہ جس شخص سے اللہ تعالیٰ اس کی 2پیاری چیزیں چھین لے اور وہ اس مصیبت پر صبر کرے تو اس کا عوض اسے قیامت کے روز جنت کی صورت میں دیا جائے گا۔ قاری عرفان الحق بڑا خوبصورت قرآن پڑھتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر حبیب الرحمن، اللہ تعالیٰ نے ان کے گلے میںا سپیکر فٹ کر رکھا ہے۔
اتنا پیارا اور خوبصورت قرآن پڑھتے ہیں کہ دل خوش ہو جاتا ہے۔ ہم نے کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کیلیانوالہ میں گزارا۔ اسی دوران میرا بیٹا طلحہ مجاہد اپنی اہلیہ ڈاکٹر مریم زعیم کے ساتھ اس قافلہ میں شرکت کیلئے پہنچ گیا۔ میں نے اپنی بہو ڈاکٹر مریم سے کہا تھا کہ تم نے کچھ مریضوں کو چیک کرنا ہے، مگر یاد آیا کہ آج تو اتوار کا دن ہے اور اتوار کے روز ہسپتال بند رہتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب بھی مریضوں کو چیک کرنے کے لئے تیار تھے۔ ظہرانہ کے بعد کچھ تمہیدی گفتگو ہوئی۔ کیلیانوالہ کے رشتہ داروں نے مختصر خطاب کی صورت میں قافلہ صلہ رحمی پر اپنی پسندیدگی اور خوشی کا اظہار کیا۔ راقم الحروف نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
بہترین ضیافت پر شکریہ ادا کیا۔ وقت کی قلت کے باعث خاندان کی خواتین کو سلام نہ کر سکے۔ ہمارے خاندان میں عموماً غیر محرم رشتہ داروں سے پردہ کیا جاتا ہے۔ اسلام نے ہمیں پردہ کا حکم دیا ہے، مگر اس کامطلب یہ بھی نہیں کہ قریبی رشتہ دار خواتین کو سلام تک نہ کیا جائے، یا ان کے احوال نہ پوچھے جائیں۔ اسلام نے ہمیں ہر گز اس سے منع نہیں کیا۔ میں عموماً اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنے خاندان کی خواتین کے پاس بیٹھتا ہوں، بعض پردہ میں ہوتی ہیں۔ ان کے ساتھ تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ بچوں‘ بچیوں کی تعلیم کے حالات‘ انکے رشتے کس کس جگہ کیے ہیں؟ شادی شدہ بیٹیاں کہاں اور کس حال میں ہیں؟ گھروں کے مسائل کیا ہیں؟ چھوٹی بیٹیاں آتی اور پیار لیتی ہیں۔ عموماً اپنا تعارف کرواتی ہیں کہ میں فلاں ہوں اور فلاں کی بیٹی ہوں۔ اس سے محبتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ کس کی منگنی ہو گئی ہے، کس کیلئے رشتہ کی تلاش جاری ہے۔ کسی عزیزہ کا خاوند کہاں نوکری کرتا ہے؟ اللہ کے رسول اللہ ایک مرتبہ اپنے گھر میں تشریف فرما ہیں۔
دروازے پر کسی خاتون نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ ارشاد فرما رہے ہیں: اللہ کرے یہ ھالہ ہو۔ یہ اللہ کے رسول اللہ کی سالی اور سمدھن تھیں۔ سیدہ خدیجہ ؓ کی بہن‘ آپکی صاحبزادی سیدہ زینب کی ساس محترمہ۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب سیدہ ھالہؓ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ کو ام المؤمنین سیدہ خدیجہؓ کا اجازت طلب کرنے اور گفتگو کرنے کا انداز یاد آ گیا۔ قارئین کرام! آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ امام کائنات نے سیدہ ھالہؓ سے کس طرح کا عمدہ سلوک کیا ہو گا۔ کیلیانوالہ سے رخصت ہونے کو جی تو نہیں چاہ رہا تھا، مگر ہمارے مانیٹر جناب آصف کا حکم مانے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ہمارا رخ اب نکی چٹھہ کی طرف تھا۔ یہاں ہمارے خاندان کے متعدد گھرانے رہتے ہیں۔ ہمارا استقبال برادرم عبدالسلام بن چچا محبوب عالم اور ان کے بھائیوں نے کیا۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں چھت پر پھولوں کی پلیٹیں ہاتھوں میں پکڑے کھڑی تھیں۔ گھر میں داخل ہوئے تو اوپر سے پھولوں کی پتیوں کی بارش ہو گئی۔ بیٹھک میں بیٹھنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنی مزیدار خوبانی نہیں کھائی۔ یہاں کی رسیلی اور مزیدار خوبانی بڑی عمدہ تھی۔ ٹیبل انواع و اقسام کی چیزوں سے بھری ہوئی تھی۔
حال احوال پوچھے‘ میں نے چلتے وقت سورہ یٰسین اور چھوٹی سورتوں پر مشتمل پنجسورے کافی بڑی تعداد میں ساتھ لے لیے تھے۔ جہاں بھی گئے، احباب کو دیتے ہوئے کہا: ان کو بچوں اور بڑوں میں تقسیم کر دینا۔ نکی چٹھہ سے ہمارا رخ قادر آباد بیراج کی طرف تھا۔یہ بیراج 1963میں بنا تھا۔ چناب کا پانی تیزی سے شور مچاتا ہوا گزر رہا تھا۔ پانی بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے : ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندہ کر رکھا ہے۔ یہ پانی ہمارے ملک کی لاکھوں ایکڑ زمین کو سیراب کرتا ہے۔ کاش ہم چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر بجلی کی مقامی ضروریات کو پورا کریں۔ اس پانی کو محفوظ کر کے بنجر زمینوں کو آباد کر سکیں۔ بیراج سے گزرتے ہوئے کتنے ہی واقعات تازہ ہو گئے۔ پھالیہ میں ہمارے کئی رشتہ دار رہتے ہیں۔ ہمارا رخ پھالیہ شہر کی طرف تھا۔ وہاں کے رشتہ دار بڑی بے تابی سے قافلہ کا انتظار کر رہے تھے۔
برادرم خلیل بھٹہ کے گھر پہنچے تو پھالیہ میں مقیم تمام رشتہ داروں نے گھر سے باہر نکل کر قافلہ کا استقبال کیا۔ پھول برسائے گئے ۔ ہاتھوں میں گلدستے تھمائے گئے۔ پیاروں سے گلے ملے، محبتوں میں اضافہ ہوا۔ اندر گئے تو ایک وسیع و عریض ٹیبل انواع و اقسام کی چیزوں سے بھری ہوئی مہمانوں کا انتظار کر رہی تھی۔ مہمانوں کو بڑی محبت سے بٹھایا گیا۔ اہل خانہ نے قافلہ صلہ رحمی پر اپنی مسرت اور محبت کا اظہار کیا ۔ مہمانوں میں سے بھی کچھ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ شاندار مہمان نوازی پر میزبانوں کا شکریہ ادا کیا گیا۔ برادرم حبیب الرحمن اور خلیل الرحمن مہمانوں کو آگے بڑھ بڑھ کر چیزیں پیش کر رہے تھے۔ میں اپنی بھانجیوں عزیزات زمرد اور طیبہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے قافلہ صلہ رحمی کیلئے اشعار لکھے۔ یہ عمدہ شاعرات بھی ہیں۔ یہ اشعار ان کی محبتوں کے آئینہ دار تھے۔ ہماری اس کاوش، کوشش اور جدوجہد کے مقاصد پورے ہو رہے تھے۔ جب آپ کے خاندان کی بیٹیاں آپ کی آمد کی خوشی میں خیر مقدمی اشعار لکھیں اور انہیں سنایا بھی جائے تو کیا محبتوں میں اضافہ نہ ہو گا؟ مجھے یہ لکھتے ہوئے مسرت ہو رہی ہے کہ اُس روز بار بار میری آنکھوں میں خوشی سے آنسو آتے رہے۔ میں محبتوں کا اظہار دیکھتا، انہیں محسوس کرتا تو نگاہیں تشکر سے بار گاہ الٰہی کی طرف اٹھ جاتیں۔
اللہ! یہ تیرا کرم اور تیرا فضل ہے اور تیرا ہی شکر ہے کہ رشتہ داروں کی باہمی محبتوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ لمبی چوڑی ٹیبل اور اس پر انواع و اقسام اشیاء کی موجودگی میزبانوں کی محبت کا مظہر تھی۔ اس روز ہماری عزیزہ عنصر زوجہ خلیل بھٹہ صاحبہ بڑی خوش تھیں کہ اتنے رشتہ دار اُن کے گھر آئے ہیں۔ خواتین نے اس روز اپنے گھروں کو خوب سجایا ہوا تھا۔ ہم جس گھر بھی گئے وہ چمک رہا تھا۔ اہل خانہ اس قافلہ کے انتظار میں کتنے ہی گھنٹے بیٹھے رہے۔ ہمارا مانیٹر کامیاب رہا کہ اس نے ہمیںہر جگہ وقت مقرر پر کوسٹر میں بٹھا دیا۔ ڈرائیور اشارے کا منتظر تھا۔ اب ہمارا رخ پاہڑیانوالہ کی طرف تھا۔ وہاں پر ہمارے میزبانوں نے سڑک پر ایک نوجوان کو موٹر سائیکل دے کر کھڑا کیا ہوا تھا کہ وہ ہمیں بغیر کسی رکاوٹ کے گھر لے آئے۔ اس قصبہ بلکہ شہر میں بھی ہمارے کئی رشتہ دار ہیں، مگر آج ہمارا استقبال ڈاکٹر سعید اکبر صاحب کر رہے تھے۔
مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں کہ ہم پاہڑیانوالہ کے بازار میں داخل ہوئے۔ فیصلہ ہوا کہ پہلے اپنے رب کے حضور حاضری دی جائے۔ قریبی مسجدمیں نماز مغرب اور عشاء جمع تقدیم کے ساتھ ادا کی،پھر ڈاکٹر سعید اکبر سپرا کے گھر داخل ہوئے۔ وہ ماشاء اللہ بڑی خوبصورت کوٹھی کے مالک ہیں۔ ان کا گھر جتنا کھلا ہے، دل بھی اتنا ہی کھلا ہے۔ یہ ڈاکٹر حبیب الرحمن اور پروفیسر نجیب الرحمن کیلانی کے سگے خالہ زاد ہیں۔ میجر جمیل الرحمن کے چچا زاد بھائی ہیں۔ میرے ساتھ رشتہ داری کے علاوہ پیار ومحبت کا رشتہ ہے۔ عموماً فون پر رابطہ رہتا ہے۔ یہ ڈینٹسٹ ہیں۔ سرکاری نوکری کے علاوہ اپنا کلینک بھی کرتے ہیں۔ ان کے بڑے بھائی علامہ عزیز بڑے زبردست خطیب ہیں۔ اسکول میں ملازمت کے علاوہ جمعہ پڑھاتے اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ وہ بھی ہماری خدمت اور استقبال میں پیش پیش تھے۔ میں شکر گزار ہوں ڈاکٹر سعید کی اہلیہ اور ان کی بیٹیوں کا کہ انہوں نے خاصا وقت کچن میں گزارا اور ہمارے لئے نہ جانے کتنی ہی اشیاء تیار کر کے دستر خوان سجا دیا۔ ڈاکٹر سعید کی اولاد بڑی قابل ہے۔ ان کی اہلیہ ہماری برادری کے گل سرسبد پروفیسر ظہور الحسن کی بیٹی ہیں۔ ہمارے قارئین کرام سوچ رہے ہوں گے کہ اتنی جگہ یہ قافلہ گیا۔ جہاں گئے وہاں دستر خوان سجا ہوا تھا۔ ایک دن میں انسان کتنا کھا سکتا ہے؟! اس کی وضاحت کر دوں کہ ہمارا مقصد کھانا پینا نہیں تھا، بلکہ ان محبتوں کا فروغ تھا جن کا آج معاشرے میں فقدان ہے۔ اللہ کے رسول اللہ کی حدیث ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ ہمارے مانیٹر کبھی آنکھیں دکھاتے، کبھی آنکھیں بچھاتے ہوئے ہمارے سامنے ہوتے۔ کبھی حکم جاری کرتے، کبھی عاجزی سے کہتے: مجاہد صاحب! وقت تھوڑا ہے ابھی ہمیں 3 اورمقامات پر جانا ہے۔ پاہڑیانوالہ سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر میلوشرقی نامی گاؤں ہے جہاں میری سگی تایا زاد بہن عذرا بیاہی ہوئی ہے۔ اس کے میاں برادرم عبدالرشید سپرا حال ہی میںا سکول ٹیچر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ یہ چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اسی دوران ایک تجویز آئی کہ ان سے معذرت کر لی جائے، کیونکہ ہمیں گجرات جانا تھا۔ رات کا کھانا وہاں پر برادرم عبدالعلیم کے ہاں تھا۔ مجھے عذرا بہن سے محبت ہے۔ میں اس سے ڈرتا بھی ہوں گو کہ عمر میں مجھ سے چھوٹی ہے۔ دراصل میں اس کے پیار اور محبت سے ڈرتا ہوں۔ اللہ کے رسول اللہ کی چچا زاد بہن ام ہانی فتح مکہ کے موقع پر اپنے دیوروں کو پناہ دینے کی درخواست لے کر آئی تھیں۔ انہوں نے اپنے دیوروں کو پناہ دے رکھی تھی۔ وہ جنگی مجرم تھے، مگر عورت کا اپنے سسرال میں ایک مقام ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول اللہکے پاس آئیں۔ سیدہ فاطمہؓ بھی اپنے بابا کے پاس موجود تھیں۔
آپنے اپنی اس چچا زاد بہن اور سردار ابو طالب کی بیٹی کو مرحبا کہا۔ انہیں یہ اعزاز بخشا کہ ارشاد فرمایا :جس کو أم ہانی نے پناہ دی، اسے ہم نے بھی پناہ دی۔ بہنوں کو بھائیوں پر بڑا مان ہوتا ہے اور اچھے بھائی اپنی بہنوں کے ار مان پورے کرتے ہیں۔ عذرا بہن کے بار بار فون آ رہے تھے: بھائی جان! آپ کیا پسند کرتے ہیں؟میں نے کہا: چلیے عذرا! آپ کے ہاں چائے پی لیں گے ۔ میلو پہنچے تو عشاء کی نمازیں ہو چکی تھیں۔ گاؤں پر ہو کا عالم طاری تھا، مگر برادرم عبدالرشید اپنے بڑے بھائی جناب محمد رفیق ان کے صاحبزادگان اور دیگر عزیزوں کے ہمراہ سڑک پر قافلہ صلہ رحمی کا انتظار کر رہے تھے۔موبائل کی روشنی میں داخل ہوئے تو چھوٹی چھوٹی بچیاں ہم پر پھول برسا رہی تھیں۔ یہ بات بتانے کی نہیں کہ اہل خانہ نے ہمارا بھرپور استقبال کیا۔
عذرا بہن نے بڑی مزیدار چائے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اس کے ساتھ علی پور چٹھہ کے مدینہ چوک کی برفی تھی۔ یہاں بھی صلہ رحمی کے تقاضوں کو پورا کیا گیا۔ خواتین کی طرف سے اعتراض ہوا کہ عورتوں کو بھی آپس میں ملانا چاہیے تھا۔ اصل میں صلہ رحمی کا سبب تو وہ بنتی ہیں، انہیں بھی ساتھ لانا چاہیے تھا۔ میرا موقف یہ تھا کہ اگر آج ہمارے ساتھ خواتین ہوتیں تو ہم آدھے سے بھی کم رشتہ داروں کے ہاں جا پاتے۔ ہمارے میزبانوں کو علم تھا کہ ہمارے پاس وقت کم ہے اس لئے ہر جگہ ہمارے ساتھ یہ لحاظ برتا گیا کہ جیسے ہی آصف صاحب نے اشارہ کیا، سبھی نے میرے سوا اس کا احترام کیا۔ مجھے اعتراف ہے کہ میرے اندر مروت کچھ زیادہ ہے۔ کوشش کرتا ہوں کہ ہر ایک کا مسئلہ سنوں، اس کو تسلی دوں۔ گھڑی رات کے نو بجا رہی تھی اور ابھی ہمیں گجرات پہنچنا تھاجہاں ہمارا رات کا کھانا تھا۔ گجرات شہر خاصا بڑا ہے۔ وہاں پہنچتے ‘ ٹریفک سے بچتے‘ نکلتے خاصا وقت لگ گیا۔
برادرم عبدالعلیم اور ان کے چھوٹے بھائی عبدالعظیم بہت بڑے باپ کے بیٹے ہیں۔ محترم عبدالکریم اثری کتنی ہی کتابوں کے مؤلف اور محقق ہیں۔ ان کے بعض نظریات سے اختلاف کے باوجود ہم ان کی عزت اور احترام کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ رشتہ داری بھی کئی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے آخرت کے سفر کو آسان بنائے۔ ایک مدت پہلے ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ ایک مرتبہ ان کے گاؤں گیا تو ان کی اہلیہ نے بتایا کہ میں تمہاری والدہ کی سہیلی ہوں۔ والدہ کی باتیں سنائیں تو بے اختیار رو دیا۔ برادرم عبدالعلیم اور ان کی اہلیہ ا سکول میں ٹیچر ہیں، دونوں بڑے ہی با صلاحیت ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں بڑا خوبصورت گھر بنایا ہے۔ گلی میں داخل ہوئے، شرکائے قافلہ صلہ رحمی کو خوش آمدید پر مبنی بینر لگا ہوا تھا۔ صحن میں پتیوں سے بڑا سا دل بنا ہوا تھا۔ ہم اس استقبال‘ پھولوںکی پتیوں کو نچھاور کرنے کو شرع کے میزان پر نہیں تولیں گے۔ اسلام نے مہمانوں کی عزت کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہمارے قارئین اس سلسلہ میں حدیث تو پڑھ ہی چکے ہیں۔ پھولوں سے بنے ہوئے دل نے شرکائے صلہ رحمی پر بڑا مثبت اثر ڈالا۔ محترم و مکرم چچا ظہور الحسن کی بیٹی اور عبدالعلیم کی اہلیہ محترمہ نے میری بھتیجی کوثر کے ساتھ مل کر بڑا مزیدار اور یاد گار کھانا بنایا ہوا تھا۔ میرے تایا زاد بھائی مسعود احمد سپرا کی بیٹی کوثر کی شادی اپنے ماموں زاد عبدالکریم اثری صاحب کے بیٹے حکیم عبدالعظیم کے ساتھ ہوئی ہے۔
میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے ابھی تک اس کے گھر نہیں جا سکا تھا۔ کوئی 2سال قبل ایک دن میری بھتیجی کوثر کا فون آ گیا۔ کہنے لگی: چچا جان! میری شادی کو 18سال گزر چکے ہیں اور آپ ابھی تک میرے گھر نہیں آئے۔ میں نے اپنے سر کو جھکا لیا۔ ہاں بیٹی! واقعی میں نے آج تک تمہارا گھر نہیں دیکھا۔ تو پھر آپ کب میرے گھر آئینگے؟ اس کا سوال تھا۔ ان شاء اللہ بہت جلد میں آؤنگا اور پھر میں اولین فرصت میں کوثر کے گھر گیا۔
(جاری ہے)

شیئر: