* * * * * *
موت شہید کی ہو یا عام مرگ ،موت بہر حال موت ہی ہے جو پسماندگان اوراعزاء و اقارب کے لئے صدمہ اور دکھ کا باعث بنتی ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ یہ زندگی خوشی و غم اورشادی و مرگ سے عبارت ہے ،موت و حیات کا نظام، کائنات کا ایک جز ہے اور ہر ذی روح کی موت کا وقت مقرر ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ ارشاد ِ الٰہی ہے’’ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ‘‘ (العنکبوت57) اسی قانون ِ الٰہی کے تحت جب کسی کو موت آجائے تو ایسے موقع پر فطری امر ہے کہ پسماندگان کو صدمہ اور دکھ تو پہنچے گا مگر اس کے اظہار کی کہاں تک اور کس طرح گنجائش ہے ؟اس سلسلہ میں شریعت ِ اسلامیہ میں واضح ہدایات موجود ہیں ۔ سورہ البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے موقع پر صبر و ہمت سے کام لینے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا ہے ’’ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیں جو مصیبت کے وقت یہ کہتے ہیں کہ ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت و عنایت ہے ، اور یہی (آخرت میں) کامیابی پانے والے ہیں ‘‘ (البقرہ156)
مصیبت آجائے ،دل دکھوں سے بھر جائے ،اور صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلک پڑے تو دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے رونا اور آنسو بہانا بھی جائز ہے کیونکہ ایسے کئی مواقع پر خود نبی رحمت کا آنسو بہانا ثابت ہے جیسا کہ بخاری و مسلم اور ابو داؤدمیں آپ کا حضرت سعد بن عبادہ ؓپر،بخاری و مسلم اور ابو داؤد و نسائی میں اپنی بیٹی کی ایک لخت ِ جگر(امامہ بنت زینبؓ) پر، بخاری و مسلم اور ابو داؤد میں خود اپنے لخت ِ جگر حضرت ابراہیمؓ پر آنسو بہانا ثابت ہے بشرطیکہ رونے اور آنسو بہانے کے ساتھ زبان نہ چلائی جائے ،مرنے والے کی صفات اور اس کی موت کی وجہ سے پیش آنے والے مصائب کا ذکر نہ چھیڑا جائے کیونکہ بخاری و مسلم اور ابو داؤد میں ارشاد ِ نبوی ہے ’’اللہ تعالیٰ آنکھوں سے آنسو بہانے اور دل کے حزن و غم پر عذاب نہیں کرے گا البتہ اس کے عذاب دینے یا رحم فرمانے کا تعلق اِس سے ہے، یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنی زبان ِ مبارک کی طرف اشارہ فرمایا ‘‘ اسلام میں شہادت یاطبعی موت مرنے والوں پر بین و نوحہ خوانی ،واویلا اور واہی تباہی جائز نہیںکیونکہ نوحہ خوانی آگے جانے والے کے ساتھ خیر خواہی نہیں بلکہ نادانستہ دشمنی کے مترادف ہے۔
صحیح بخاری و مسلم اور ترمذی و نسائی میں ارشاد ِ نبوی ہے ’’میّت کو اپنے پسماندگان کی نوحہ خوانی کے سبب قبر میں عذاب ہوتا ہے‘‘ اس حدیث شریف کا مفہوم بظاہر سورہ انعام (آیت164) ، سورہ بنی اسرائیل (آیت15) ،سورہ فاطر (آیت18)،سورہ زمر (آیت7) اور سورہ نجم (آیت38 ) کے معارض ہے ، جن میں ارشاد ِ الٰہی ہے ’’اور کسی کے گناہ کا بوجھ کوئی دوسرا نہیں اٹھائے گا ‘‘ اہل ِ علم نے اس تعارض کو دور کرنے کے لئے کئی آرا ء ذکر کی ہیں جن میں سے یہ بھی ہے کہ آگے جانے والا اگر پسماندگان کو بین و نوحہ کرنے کی وصیت کر کے جائے اور وہ اس پر عمل کر گزریں تو اُسے ان کے نوحہ کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا ۔ بعض نے اس حدیث میں مذکور لفظ ِعذاب کا مفہوم ’’احساس ِ الم‘‘ بیان کیا ہے جبکہ امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ کچھ بھی ہو ، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ صحیح احادیث میں رسول اللہ سے ثابت ہے کہ پسماندگان کے بین کرنے سے میّت کو عذاب ہوتا ہے پس ہم نے آپ کا ارشاد سنا اور اطاعت کی ، اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں کہتے ‘‘ (الفتح الربانی)
بعض لوگ اور خصوصاً خواتین غم کے موقعوں پر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتی ہیں اور جائز رونے اور آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ مرنے والے کی صفات اور اس کی موت کی وجہ سے پیش آمدہ مصائب کی گنتی شروع ہوجاتی ہے اور ایک راگ کے ساتھ بین کئے جاتے ہیں۔ اس نوحہ خوانی سے نبی نے سختی سے منع کیا ہے ۔ بخاری و مسلم اور ابو داؤد و نسائی میں حضرت ام عطیہؓ سے مروی ہے ’’ہم سے بیعت لیتے وقت نبی نے یہ عہد لیا تھا کہ ہم نوحہ خوانی نہیں کریں گی ‘‘صحیح مسلم میں ارشاد ِ نبوی ہے’’لوگوں میں دو باتیں ایسی ہیں جن کا ارتکاب کفر ہے ،پہلی کسی کے نسب میں طعن کرنا اوردوسری میّت پر نوحہ خوانی کرنا‘‘ جو لوگ کسی کی مرگ پر جوش ِ غم میں ہوش کھودیتے ہیں اور بین و نوحہ خوانی کے ساتھ ساتھ سر کے بالوں کو بکھیرنا اور نوچنا ،رخساروں کو پیٹنا ،سینہ کوبی و ماتم کرنا اور کپڑے پھاڑنا شروع کردیتے ہیں، ایسے افعال کا ارتکاب کرنے والوں کے بارے میں صحیح بخاری و مسلم اور ترمذی و نسائی اور ابن ماجہ میں ارشاد ِ نبوی ہے ’’ جو اپنے رخساروں کو پیٹے ،کپڑے پھاڑے اور زمانۂ جاہلیت کی طرح نوحہ خوانی کرے ، وہ ہم میں سے نہیں ‘‘ بخاری و مسلم ، ابو داؤد و نسائی اور ابن ماجہ میںہی حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے مروی ہے ’’بے شک رسول اللہ بین کرنے ، سر کے بال بکھیرنے اور مونڈنے اور کپڑے پھاڑنے والی عورتوں سے بری ہیں ‘‘سنن ابو داؤد میںایک صحابیہ (خاتون) کا بیان ہے کہ نبی نے ہم سے عہد لیا تھا ’’(مصیبت میں) نہ ہم منہ نوچیں گی ، نہ واویلا کریں گی ،نہ کپڑے پھاڑیں گی اور نہ بال بکھیریں گی ‘‘عورتیں چونکہ مردوں کی نسبت کمزور طبع ہوتی ہیں اور ان سے ایسے امور کا صدور ممکن ہونے کی بنا پر آپ نے ان سے یہ عہد لئے اور اگر اس کے باوجود بھی کوئی عورت فرمان ِ نبوی کی نافرمانی کرے تو ایسی عورت کے بارے میں صحیح مسلم ، ابن ماجہ ، مسند احمد اور بیہقی میں ارشاد ِ نبوی ہے ’’ نوحہ خوانی کرنے والی عورت اگر توبہ کئے بغیر مرگئی تو قیامت کے دن وہ اس حالت میں اٹھائی جائے گی کہ آتش گیر مادے (چقماق) کی قمیص پہنے ہوگی اور اسے خارش کی ذرع پہنائی جائے گی ‘‘اور مسند ِ احمد میں یہ الفاظ بھی ہیں ’’پھر اس آتش گیر مادّے کے اوپر آگ کے شعلے کی ذرع ہوگی ‘‘ شریعت ِ اسلامیہ ہر معاملہ میں چونکہ اعتدال پسند ہے ، اس میں نہ خوشی کے مواقع پر حدِاعتدال پھلانگنا جائز ہے اور نہ ہی مرگ کا سوگ منانے پر لگائی گئی حدود اور پابندیاں توڑنا روا ہے ۔
ایسے مواقع پر عورت کی طبیعت کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلام نے اس کے لئے شوہر کے سوا ہرعزیز کی مرگ کا صرف 3 دن سوگ منانا جائز رکھا ہے البتہ اگر کسی کے شوہر کی مرگ ہوجائے تو اس عورت کو4 ماہ اور10 دن تک سوگ منانے کی اجازت ہے۔ ان ایام میں وہ زیب و زینت نہ کرے ، نہ زیورات اور ریشمی کپڑے پہنے اور نہ ہی خوشبو ،مہندی اور سرمہ وغیرہ لگائے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ارشاد ِ نبوی ہے ’’ کوئی عورت 3 دن سے زیادہ سوگ نہ منائے ،سوائے شوہر کی وفات کے ، اُس پر وہ 4 ماہ 10 دن سوگ مناسکتی ہے ۔ وہ رنگین کپڑے نہ پہنے ، سوائے یمنی چادر کے ،وہ نہ سرمہ لگائے اور نہ ہی خوشبو استعمال کرے ، سوائے اُس دن کے ،جس دن وہ غسل ِ حیض سے فارغ ہو تو عود وغیرہ کے بخور(یعنی دھویں ) کا استعمال کرسکتی ہے ‘‘امام نوویؒ کے بقول یہ بخور بھی کوئی خوشبو کی غرض سے نہیں بلکہ محض خون جاری رہنے سے پیدا ہونے والی بدبو کو زائل کرنے کی غرض سے جائز ہے ۔ ابو داؤد اور نسائی میں یہ الفاظ بھی ہیں ’’ اور وہ مہندی و خضاب بھی نہ لگائے ‘‘یہ احکام صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیںاور وہ بھی عام عزیزوں کی نسبت صرف تین دن اور شوہر کے لئے 4 ماہ 10 دن تک اور مردوں کے لئے ان امور میں سے کوئی ایک بھی ایک دن کے لئے بھی جائز نہیں، سوائے دل کے غم اور آنکھوں کے آنسؤوں کے ۔اس ارشاد ِ نبوی کے پیش ِ نظر بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ جو14 سو سال پہلے کی موت ِ شہادت پر سوگ منارہے ہیں ،وہ تعلیمات ِ اسلام کے سراسر منافی فعل کا ارتکاب کرتے ہیں ،جس کا کسی بھی طرح کوئی جواز نہیں۔