فالتو اور ناکارہ نظر آنیوالی پرانی چیزوں کی قیمت کروڑوں میں
لندن .... آئے دن نیلامی کرنے والے مختلف اداروں سے ایسی خبریں آتی ہیں کہ کوئی ہزار یا سو سال پرانی چیز غیر معمولی قیمت میں فروخت ہوگئی۔ اس حوالے سے کئے جانے والے سروے سے پتہ چلا ہے کہ عام لوگوں کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ٹوٹا ہوا صدیوں پرانا برتن یا زمین سے برآمد ہونے والا ڈھانچہ یا کہیں ملنے والی کوئی نادر چیز کروڑوں میں فروخت ہوئی تو انکا پہلا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ وہ ان خبروں پر یقین نہیں کرتے اور اپنے طور پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سب دولت والوں کا کھیل ہے۔ ان چیزوںکو کروڑوں پونڈ یا ڈالرز میں خریدنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ یا تو اپنی امارت ظاہر کریں یا دولت کو چھپانے کی کوشش کریں کیونکہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں نوادرات کی خریداری اوراپنے گھر میں انہیں ڈیکوریشن کے طور پر رکھنے پر ٹیکس عائد نہیں ہوتا او راس طرح کروڑوں کی رقم جو ٹیکس کی مد میں ان لوگوں پر واجب الادا تھی وہ انہی کے پاس رہ جاتی ہے اور یہ صورتحال پیدا کرنے میں نیلام گھروں کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ برطانوی اخبار دی میل نے آثار قدیمہ کے حوالے سے مضامین لکھنے والے دو افراد ہیری ویلپ اورایمی اولیور نے کہا ہے کہ بہت سی پرانی چیزیں صدیوں کا سفر کرکے عصر حاضر تک پہنچتی ہیں مگر حیرت کی بات ہے کہ انکی چمک دمک برقرار رہتی ہے۔ نوادرات کی نمائش کے حوالے سے مہارت رکھنے والے مارک ایلم نے ایسی بہت سی چیزوں کی تصاویر پیش کی ہیں اور ان کے بارے میں بتایا ہے کہ ان چیزوں میں سے بیشتر پر کوئی وقت یا تاریخ نہیں لکھی ہوتی مگر ماہرین پھر بھی انہیں پہلی نظر میں پہچان لیتے ہیں اور انکے عہد اور ساخت کا تعین کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سنگاپور کی نیلامی میں چین کا بنایا ہوا ہزاروں سال پرانا پیالہ جو سرامک کا بنا ہوا تھا 2کروڑ 80 لاکھ پونڈ میں نیلام ہوا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ 11ویں صدی کے چینی شاہی خاندان کی ملکیت رہا ہے۔ اسی طرح زار نکولس کے زمانے کے بنے ہوئے ایسٹر ایگز جو زار رو س نے اپنی بیوی کو تحفے کے طور پر دیئے تھے ، بھی کروڑوں پونڈ میں فروخت ہوا ہے۔ یہ چمکتے دمکتے انڈے سیکڑوں ہیرے جواہرات سے مرصع ہیں۔ دولت کے اظہار کا یہ سلسلہ بہت پرانا ہوچکا ہے اور ماہرین کو یقین ہے کہ یہ سلسلہ آگے بھی اسی طرح بڑھتا رہیگا۔