شہزاد اعظم
انسان پر ماحول کا بے حد اثر ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو فطینوںنے اس قدر سہل الفاظ میں عام سی مثال دے کر بیان کرنے کا اہتمام کیا تاکہ کم فہم ہی نہیں بلکہ جاہل سے بڑھ کر جاہل شخص کی سمجھ میں آجائے۔ ان تمام سچائیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔‘‘ہمارے سکڑ دادا جب کسی شرارت پر ہماری چھترول کرتے تھے تو وہ زبان سے بھی ہمیں بعض پتے کی باتیں اس خیال سے سناتے جاتے تھے کہ یہ ہمیں ازبر ہو جائیں گی اور پھر ایسا ہی ہوا مگر یہ اور بات ہے کہ ہم نے سکڑ دادا کی زندگی میں تو ان کا کہا سمجھ کر نہیں دیاتاہم ان کے دنیا سے جانے کے بعد آج جب ہم خود کھپٹ ہو گئے تو سکڑ دادا کی ڈپٹ کے ایک ایک حرف کے معانی ہماری شاہراہِ فراست کے دونوں جانب قندیلوں کی مانند روشن دکھائی دیتے ہیں۔ سکڑ دادا فرمایا کرتے تھے کہ :
’’یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا‘‘
ہماری آئیڈیل خالہ جان بھی اسی فارسی شعر کے ہم معانی حقیقت بیان کرتی تھیں ۔ جب ہم کوئی شرارت کرتے تو وہ کہتیں کہ مجھے لگتا ہے کہ جب تک آپ کی پٹائی نہیں ہو جاتی ناں، اس وقت تک شاید آپ کوکوئی بات سمجھ نہیں آ سکے گی۔ یہ کہہ کر وہ ہمارے موٹے موٹے گال اپنی نازک انگلیوں سے پکڑ کر کھینچتیں اور ہمیں گھسیٹتے ہوئے صحن میں لے جاتیں اور کہتیں کہ’’جاہلِ مطلق! اب میری ڈانٹ کو انتہائی غور سے سنئے ۔ یہ کہہ کر وہ چٹکی اور تالی کے خوبصورت سنگم سے ’’چپک پھٹ، چپک پھٹ‘‘ کی آواز نکالتیں اور اس کے ساتھ لتا منگیشکر اور نور جہاں سے بھی زیادہ خوبصورت آواز میں ’’اصلاحی نغمہ‘‘ یوں اس آنگن کی وسعتوں کے سپرد کرتیں:
’’جو تم آگ کے پاس بیٹھو گے اکثر
تو اٹھو گے اک روز کپڑے جلا کر
یہ مانا کہ کپڑے بچاتے رہے تم
مگر سینک تو خوب کھاتے رہے تم‘‘
پھر وہ کہتیں کہ ’’میری جان! ان دواشعار کو مثبت معنی میں بھی لیا جا سکتا ہے ۔‘‘آج ہماری خالہ تو اس دنیا میں نہیں رہیں مگروہ جسے میری جان کہہ کر اپنی بے لوث اور پاکیزہ محبت کا اظہار کیا کرتی تھیں وہ ہم ہی تھے۔ بہر حال50برس تک غور و فکر کرنے کے بعد ہم سکڑ دادا اور خالہ جان کے بیان فرمائے ہوئے عقدے سمجھ گئے ۔ اب ہوا یوں کہ دو روز قبل ہماری عجیب کیفیات ہوئیں۔ ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے ہمارا اپنی سوچوں پر سے اختیار اٹھتا جا رہا ہے۔ ہم بلی کو دیکھتے تو ذہن میں خیال آتا کہ یہ شیر ہے اور شیر کو دیکھتے تو ذہن ہمیں باور کراتا کہ یہ بلی کے خالو جان ہیں۔ ہمیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں ہماری حالت زیاد ہ نہ بگڑ جائے چنانچہ کافی فکر و تردد اور ہوا کے ددش پراپنوں سے طویل مباحث اور مشاورت کے بعد ہم نے اپنے ایک بچپنی دوست ’’ڈاکٹر کھٹکا‘‘کے ہاں جانے کا قصد کر لیا ۔ویسے تو موصوف ذہنی و نفسیاتی امراض کے ماہر ہیں مگر ان کا نام ’’ کھٹکا‘‘اس وقت رکھا گیا تھا جب وہ ہمارے ساتھ 8ویں جماعت میں مس شکیلہ کی نگرانی میں درس و تدریس سے آراستہ ہو رہے تھے ۔ وجہ تسمیہ یہ تھی کہ وہ ہر بات میں ’’ کھٹکا‘‘استعمال کرتے تھے ۔ وہ کہتے یار مجھے ’’ کھٹکا‘‘ہے کہ میرا یہ جواب غلط ہے ،کبھی کہتے کہ مجھے ’’ کھٹکا‘‘ہے کہ یہ کباب باسی ہے یا کبھی کہتے کہ ’’ کھٹکا‘‘یہ ہے کہ مس شکیلہ آج ہمیں ڈانٹیں گی۔ بہر حال ہم ڈاکٹر کھٹکا کے ہاں جا بیٹھے اور اپنی کیفیات بیان کیں۔ انہوں نے کہا کہ فکر نہ کریں یہ ملکی حالات کا اثر ہے۔ یہ سن کر ہم نے ’’ڈاکٹر کھٹکا‘‘سے منہ ماری کرنی شروع کر دی ۔ ہم نے کہا کہ آپ ہمارے عارضے کو سمجھ نہیں سکے تو خواہ مخواہ میں تو بات کہیں کی کہیں لے گئے۔ ہم یہاں، ملکی حالات وہاں، بھلا ہم پر اثر کیسے؟’’ڈاکٹر کھٹکا‘‘نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی مگر ہم نے نہ سمجھنے کی ضد کر لی۔ اسی دوران ایک معمر شخص ا پنے جواں سال بیٹے کو لے کر آیا اور کہنے لگا کہ’’ڈاکٹر کھٹکا‘‘ذرا میرے بیٹے کو دیکھئے، اس پر پاگل پن کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ ڈاکٹر نے نوجوان کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کو کس قسم کے دورے پڑتے ہیں، اس نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب مجھے کوئی دورہ نہیں پڑتا مگر اباجان کہتے ہیں کہ تم پاگل ہو چکے ہو۔آج ہی کی بات ہے ، میں اپنے ڈرائنگ روم میں 56انچ اسکرین والا ٹی وی دیکھ رہا تھااور ریموٹ کی مدد سے ’’نظر گشت‘‘ کر رہا تھا۔ ایک چینل پر کوئی چلا رہا تھا کہ پاکستان کے زر مبادلہ ذخائر 13ارب ڈالر رہ گئے ہیں، معاشی صورت حال انتہائی زبوں حالی کاشکار ہے، میں نے دوسرا چینل لگا یا تو وہاں کوئی کہہ رہا تھا کہ ملک ترقی کر رہا ہے، معیشت مضبوط ہو رہی ہے ، آج ملک میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔میں نے چینل بدلا تو ایک محترمہ کہہ رہی تھیں کہ میری تو کوئی جائداد اندرون ملک نہیں ہے ، ان لوگوں نے لندن میں نجانے کون سی جائدادیں میرے نام کر دی ہیں۔ میں نے اگلا چینل بدلا تو وہاں وہی خاتون کہہ رہی تھیں کہ لندن میں میری جائداد ہے اور میں اس کی مالکہ ہوں۔ ہم نے چینل بدلا تو وہاں ایک شخص تحکمانہ استفسار کر رہا تھا کہ ’’بتائو، مجھے کیوں نکالا، میرا قصور یہ ہے کہ میں نے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہیں نکلوائی۔یہ سن کر میں فوراً باہر گیا اور اے ٹی ایم سے اپنی ساری تنخواہ نکال لایا۔ اب میں نے چینل بدلا تو وہاں کہا جا رہا تھا کہ ہمارے سربراہ مملکت اورغیر ملک کے ’’اقامہ بردار‘‘یہ قوم کی توہین نہیں تو کیا ہے؟میں نے چینل بدلا تو وہاں چند لڑکے لڑکیاں مائیک پر چلا چلا کررکہہ رہے تھے کہ ہم ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کریں گے۔ میں نے چینل بدلا تو وہاں اسپتال کا منظر دکھایاجا رہا تھا اور رپورٹر کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹروں نے ہڑتال کر رکھی ہے ، مریضوں کے آپریشن نہیں ہو پا رہے۔ کئی مریض تو علاج کے انتظار میں ہی دنیا سے جا چکے ہیں، کسی کے دل میں انسانیت کا درد نہیں۔ میں نے چینل بدلا تودیکھا کہ لوگوں نے شاہراہ بند کر رکھی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 16گھنٹے سے بجلی غائب ہے۔ میں نے چینل بدلا تو وہاں ایک سرکاری ذمہ دار فرما رہے تھے کہ ملک میں لوڈ شیڈنگ کا تقریبا ً خاتمہ ہو چکا ہے۔ اگر کہیں ہو رہی ہے تو اسکا دورانیہ بہت کم ہے،اب میں نے چینل بدلاتو .....ڈاکٹر کھٹکا چیخ کر بولا ’’چُپ کر جا کسی چینل کے چپڑاسیِ تو مجھے پاگل کر دے گا ۔ وہ نوجوان ڈاکٹر سے بھی اونچی آواز میں دھاڑا، نہیں ناںںںں، کیونکہ میں نے چینل بدلا تو بدلا ہی نہیں گیا کیونکہ بجلی ہی چلی گئی تھی۔
ہم ڈاکٹر کھٹکا اور اس کے ’’گاہک‘‘ میں ہونے والی توتکار کے دوران ہی نظر بچا کر کھسک آئے۔ہم نے اپنے عارضے کی خود ہی تشخیص کر کے نسخہ تجویز کر لیا کہ آج کے بعد سے ’’چینل گردی‘‘ ختم۔ اس تاریخی فیصلے کے بعد سے ہم کافی خرم ہیں۔