سعودی اخبارات میں شائع ہونے والے کالمز
میں اور پرکاش رانا
حسین عبدالعزیز السویغ ۔ المدینہ
میں سوچ رہا ہوں کہ میرے اور ہندوستانی سرمایہ کار ”پرکاش رانا“ کے درمیان کیا فرق ہے؟
میں سعودی شہری ہوں، مملکت میں پیدا ہوا۔ یہیں پلا بڑھا، یہیں تعلیم پاتا رہا۔ سرکاری خرچ پر اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کیلئے باہر گیا۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ پھر میں نے کئی سرکاری اداروں میں کام کیا۔ بالاخر 40برس سرکاری ملازم رہ کر ریٹائر ہوگیا۔
میں نے دولت بھی جمع کی۔ ترکہ میںبھی والد رحمتہ اللہ علیہ سے اثاثے حاصل ہوئے تھے۔ کچھ میں نے اپنی محنت اور سرمایہ کاری کے ذریعے بھی دولت کمائی۔ اسکا ایک حصہ ناکام سرمایہ کاری میں ضائع ہوگیا۔کچھ رقم حصص کھا گئے اور دیگر تجارتی سرگرمیوں میں ضائع ہوگیا۔
دوسری جانب ہندوستانی سرمایہ کار پرکاش رانا ہےں جو مقامی اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق 32برس قبل 1985ءمیں سعودی عرب پہنچا تھا۔ اس نے یہاں کئی ملازمتیں کیں۔ بالاخر ٹرانسپورٹ ، تعمیرات، الماس اور انجینیئر نگ کے آلات کی کمپنیاں قائم کیں۔ پرکاش کے پاس فی الوقت اثاثوں اور عمارتوں کی صورت میں 3ارب ہندوستانی روپے ہیں۔ 47 بینک اکاﺅنٹ ہیں۔ 13انشورنس اسکیمیں ہیں جن میں 20ملین روپے سے زیادہ لگے ہوئے ہیں۔
میں اپنے او رپرکاش رانا کے درمیان تقابل کرتا ہوں تو عجیب و غریب نتیجہ سامنے آتا ہے۔ میرے سامنے کمائی کے تمام جائز راستے کھلے ہوئے تھے مگر میں نے اپنے کاروبار سے خسارے کے سوا کچھ نہیں کمایا۔ تجارت کرنا کوئی برائی نہیں۔ جہاں تک پرکاش کاتعلق ہے تو آج وہ ایسے محل میں رہائش پذیر ہے جہاں ہیلی کاپٹر اتر سکتا ہے۔ وہ اپنے صوبے ہماچل پردیش کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں امیدوار بھی ہے۔
کیا میں پرکاش رانا کو اسکی کامیابی پر برا بھلا کہوں یا خود جیسے لوگوں کو ان کی بھاری ناکامی پر لعن طعن کروں؟
(روشندان)
اللہ تعالیٰ اگر کسی قوم کے ساتھ برا کرنا چاہتا ہے تو اسے بحث مباحثے میں لگا دیتا ہے اور کام سے روک دیتا ہے (امام اوزاعی)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭