کیا سعودی عرب میں ”بیداری “ختم ہو گئی؟
مشاری الذایدی
مشاری الزایدی الشرق الاوسط کے معروف کالم نگاروں میں سے ایک ہیں ۔ انہوں نے جریدے کے آخری صفحے پر اپنے کالم کا عنوان ” ھل انتھت ،الصحوة“فی السعودیہ؟رکھا ہے ۔
”الصحوة “(بیداری) سعودی ابلاغی تعبیر ہے ۔ اس سے سیاسی اسلام کی بیداری مراد لی جاتی ہے ۔اس عمل کی قافلہ سالار جماعت الاخوان المسلمون ہے ۔
الذایدی تحریر کرتے ہیں کہ خصوصاً سعودی عرب اور عموماً عرب دنیا میں کسی نہ کسی درجے میں یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ بیداری کا دور لد گیا ہے۔جب سے سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے، جو نئے سعودی وژن کے قافلہ سالار ہیں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ انتہا پسندوں کو آج بلکہ ابھی صفحہ ہستی سے مٹا کر دم لیں گے ۔ تب سے یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ بیداری کا باب ہمیشہ کےلئے لپیٹ دیا گیا۔
حالیہ دنوں میں بیداری کے قافلہ سالار سلمان العودہ اور عوض القرنی کی چمک دمک ماند پڑتی جا رہی ہے ۔اس دنیا سے تعلق رکھنے والے غیر سعودی سید قطب ، حسن البنا ، کویت کے احمد القطان ، محمد العوضی ، طارق السویدان جیسی شخصیت کی چمک دمک بھی کم ہوئی ہے ۔
الذایدی لکھتے ہیں کہ آٹھویں اور نویں عشرے میں بیداری کی علمبردار سعودی اور غیر ملکی شخصیات کا تذکرہ مقامی اخبارات میں بڑا مشکل تھا،پھر الاخوان کی ادبی تحریری اور ان کے افسانے مقبول ہوئے ۔ زینب الغزالی ، احمد رائف کی کتابیں مشہور ہوئیں ۔محمدقطب کی کتابیں اسکولوں کی لائبریری کا بنیادی حصہ بنیں۔سید قطب کو خصوصی قدرومنزلت حاصل ہوئی ، پھر کویت پر صدام حسین کے غاصبانہ قبضے اور اس وقت مملکت کے ولیعہد شہزادہ نایف بن عبدالعزیز کے اس بیان کے بعد اخوان کی حیثیت کمزور پڑ گئی جس میں انہوں نے کویت پر صدام کے قبضے کے بعد سعودی عرب سے غداری کی تھی ۔ رفتہ رفتہ الاخوان کا اثرونفوس ماند پڑتا چلا گیا۔
الذایدی اپنا کالم سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اِس وقت تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بیداری کی عارضی شکست کو حتمی مانا جا رہا ہے۔ جب تک ماضی میں بیداری سے متاثر لوگوں کے ذہن ٹھیک نہیں کئے جائیں گے تب تک بات نہیں بنے گی۔