سری لنکن ملازمہ کے کفیل کو سزا کب ملے گی، کالم نگار
عبدالعزیز حسین الصویغ
المدینہ اخبار کے معروف کالم نگار عبدالعزیز حسین الصویغ نے ”مالدار ترین ملازمہ؟!“ کے عنوان سے بڑا دلچسپ کالم قلمبند کیا ۔خلاصہ یہ ہے :
اس میں کوئی شک نہیں کہ روزی روٹی کا مسئلہ بڑا مشکل ہے ۔ پیٹ بھرنے کےلئے جدوجہد کرنا انتہائی زحمت کا کام ہے ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ روزگار کے متلاشی انسان کو ذلیل و خوار کیا جائے ۔ اسے اس کی انسانیت سے عاری کر کے اس کے ساتھ برا معاملہ کیا جائے ۔بعض لوگ دنیا بھر سے کارکن لاتے ہیں اور ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک روا رکھتے ہیں ۔
حال ہی میں سری لنکا کی ایک ملازمہ سے متعلق خبر پڑھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔کفیل اسے 17برس تک دنیا بھر سے الگ تھلگ رکھے رہا ۔ اس نے اس دوران دور دراز علاقے میں بکریوں کی شکل کے سوا کسی جاندار کی صورت نہیں دیکھی ۔ اسے تنخواہ نہیں دی ۔ اسے چھٹی گزارنے کا موقع نہیں دیا ۔ اسے بکریوں کو چرانے والے ڈنڈے کے سوا کوئی اور چیز اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں دی ۔ ایک طرح سے وہ سری لنکا کی ملازمہ کو اغواءکر کے نظر بند کئے ہوئے تھا۔خبر جس انداز سے جاری کی گئی اس سے ایسا لگتا ہے کہ سری لنکا کی ملازمہ کی رہائی اس کےلئے جنت کے دروازے کھولنے کی طرح تھی ۔ یہ تاثر دیا گیا کہ سری لنکا کی ملازمہ 3.6ملین روپے لیکر مالدار ترین ملازمہ کی حیثیت سے وطن واپس ہوئی کیونکہ اس کے سعودی کفیل نے اسے اپنے جملہ حقوق ادا کر دئےے تھے اور17برس کی تنخواہ اسے ےکمشت دیدی گئی تھی ۔
عبدالعزیز الصویغ نے اپنا کالم سمیٹتے ہوئے تحریر کیا کہ میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا سری لنکا کی ملازمہ کے کفیل کو یونہی چھوڑ دیا جائےگا، اسکا احتساب نہیں ہو گا،اسے محکمہ تحقیقات و استغاثہ کے حوالے نہیں کیا جائیگا ؟ اس سے قبل مشرقی ریجن کی پولیس ایک 50سالہ سعود ی شہری کو 13برس تک گھریلو ملازمہ کی تنخواہ نہ دینے پر گرفتار کر کے اسکا معاملہ2016ءکے دوران پبلک پراسیکیوٹر کو پیش کر چکی ہے ۔
عبدالعزیز الصویغ نے اپنے کالم کے اختتام پر امیر المومنین عمر بن خطاب ؓ کا یہ تاریخی مقولہ تحریر کیا:
تم نے لوگوں کو غلام کب کیسے بنا لیا جبکہ ان کی ماﺅں نے انہیں زندہ جنا تھا۔