لندن .... دنیا ایک زمانے سے اس روایتی جزیرے کی تلاش میں لگی ہوئی ہے جس کا ذکر دیومالائی کہانیوں کے ساتھ مختلف سائنس فکشن میں بھی کیا جاتا ہے مگر اب علم آثار قدیمہ میں جو فنی پیشرفت ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماہرین جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ان چیزوں کی بھی تلاش کامیابی سے کرسکتے ہیں جن کے بارے میں سوچنا بھی صرف خواب اور خیال سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس حوالے سے جو تازہ تصاویر جاری ہوئی ہیں ان میں بحر اوقیانوس کے تقریباً درمیانی حصے میں واقع ایک جزیرہ نظر آتا ہے جس کے چاروں جانب 12’’سمندری دیواریں ‘‘ حائل ہیں اور جس نے بھی فضاسے اتاری جانے والی ان تصاویر کو دیکھا ہے اور سائنس چینل پر اپنا بیان دیا ہے انکا کہناہے کہ اس جزیرے کو سمندری سرنگوں نے ایک دوسرے سے الگ کررکھا ہے اور یقینی طور پریہ’’ نان ماڈول‘‘ زمانہ قدیم کی روایات کے مطابق سوڈیلیور کہلانے والے پراسرار لوگوں کا دارالحکومت تھا اور 1628ء تک یہاں یہ لوگ حکمرانی کرتے رہے۔ ماہرین آثار قدیمہ نے امکان ظاہر کیا ہے کہ جو تصاویر خلائی جہاز کی مدد سے اترنے کے بعد اب سامنے آئی ہیں انہوں نے اس نظریہ کو مزید فروغ دیا ہے کہ اب تک قصے کہانیوں میں سنا جانے والا جزیرہ جسے اٹلانٹس کا بھی نام دیا جاتا ہے کوئی تصوراتی یا خیالی جزیرہ نہیں تھا بلکہ ایک حقیقت تھااور وہاں لوگ رہتے بستے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شہر سمندری لہروں کے ساتھ زبردست زیر آب تغیرات کے نتیجے میں تباہ ہوگیا تھا اور پھر سمندر کا حصہ بن گیا۔نئی تصاویر دنیا میں کیا ہے نامی سائنسی چینل بار بار دکھا رہا ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شہر ایک لاگون پر بنایا گیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اسے بحر اوقیانوس کا وینس قراردینا شروع کردیا ہے۔