امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے نقل کیا ہے، سیدنا عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
" تم میں سے ہر شخص نگراں(ذمہ دار ) ہے اور اس سے اس کی نگرانی (ذمہ داری) کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ حاکم نگراں ہے اور اس سے اسکی نگرانی کے بارے میں بازپرس ہوگی اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگراں ہے اور اس سے اسکی نگرانی کے بارے میں باز پرس ہوگی اور عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگراں ہے اور اس سے اسکی نگرانی کے بارے میں باز پرس ہوگی۔" راوی کہتے ہیں کہ مجھے خیال پڑتا ہے کہ رسول اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ " آدمی اپنے باپ کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اسکی نگرانی کے بارے میں باز پرس ہوگی اور تم میں کا ہر شخص نگرا ںہے اور اس سے اسکی نگرانی کے بارے میں باز پرس ہوگی۔"
ذمہ داریوں کے نبھانے اور حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں رسول اللہ کا یہ اہم اور نہایت جامع ارشاد گرامی ہے۔ اسلام میں ہر شخص کے دوسرے پر کچھ حقوق رکھے گئے ہیں اور نہایت باریک بینی سے ذمہ داریوں کو تقسیم کیاگیا ہے تا کہ اجتماعی اور معاشرتی زندگی صحیح نہج پر قائم رہے ۔ حاکم کے رعایا پر حقوق ہیں اور رعایا کے حاکم پر بھی حقوق ہیں۔ بیوی کے شوہر پر اور شوہر کے بیوی پر بھی حقوق ہیں۔ اسی طرح والدین کے اولاد پر اور اولاد کے والدین پر حقوق ہیں ، نیز رشتہ دارو ں کے حقوق ، پڑوسیوں کے حقوق، عام مسلمانوں کے حقوق حتیٰ کہ کافروں کے حقوق، ذمیوں کے حقوق اور جانوروں کے حقوق وغیرہ ہر شخص مکلف اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے شرعی ا حکامات کا پابند ہے۔ اسکی یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ حقوق کو وہ پورا کرے اور اسکی ادائیگی کا اہتمام کرے۔ دنیا میں کوئی اس سے پوچھے یا نہ پوچھے، آخرت میں بہرحال میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے جواب دینا ہے۔ حدیث پاک میں رسول اللہ نے ہر شخص کو اِسی ذمہ داری کا احساس دلایا ہے کہ احساس ذمہ داری بہت بڑی اور اہم چیز ہے۔ اگر ہر شخص خود ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کے احساس کیساتھ حقوق کو ادا کرنے کی فکر کرے تو گھر اور گھر سے باہر پورے معاشرہ میں امن و سکون عام ہوگا۔ کسی کے ساتھ کسی طرح کی ظلم و زیادتی کا امکان نہ رہے گا۔ دنیا میں فساد کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ یہاں ہر طاقتور اپنے ماتحت اور کمزور کے حقوق کو دبانے اور اس سے اپنے حقوق و صول کرنے کی فکر کرتا ہے۔ جیسے شوہر بیوی کے مقابلے میں، والدین اولاد کے مقابلے میں، آقا خادم ، نوکر و غلام کے مقابلے میں اپنی برتری اور فوقیت کے سبب سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داری نہ نبھائیں اور حقوق ادا نہ کریں تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جب ایک کی طرف سے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہو تو دوسرے کی طرف سے بھی لازمی طور پر کوتاہی ہوگی جسکے نتیجے میں اعتدال و توازن اور نظم و ضبط کا فقدان ہوگا ، گھر اور گھر سے باہر معاشرہ میں فساد عام ہوگا۔ حدیث بالا نہایت جامع حدیث ہے جس میں رسول اللہ نے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلایا ہے۔