Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نمازکے وقت دکانیں بند کروانا بدعت ہے؟

 نمازکے وقت تجارتی مراکز بندکروانا لوگوں کیلئے مضرت رسانی کاباعث ہے، شریعت مطہرہ تو دفعِ مضرت کیلئے نازل ہوئی ہے
  سعودی عرب میں نماز کے وقت دکانیں، بازار اور شاپنگ سینٹرز بند کروانے کی بحث عروج پر ہے۔ اس سلسلے میں بعض حلقوں کا کہناہے کہ نماز کے وقت دکانیں بند کروانا بدعت ہے جس کی کوئی اساس نہیں جبکہ دوسرا فریق اسے سعودی عرب کی امتیازی شان سے تعبیرکرتا ہے ۔ اس موضوع پر دونوں فریقوں کی آراء پیش کی جارہی ہیں۔
شرعی ریسرچ اسکالرشیخ عبداللہ علویط نے بازار، شاپنگ سینٹرز و دفاتر وغیرہ کونمازکے وقت بند کرانے کے مسئلہ کے بارے میں سلفی نہج استدلال کاسہارالیتے ہوئے اپنی بحث کاآغازکیااورمیڈیاکو مذکورہ مسئلہ میں بعض چیزوں کے بارے میں باورکرانے کی کوشش کرتے ہوئے یوں اظہارخیال کیاہے کہ:
’’نماز کے وقت دکانیں اور کاروبار بند کرنا  بدعت محض ہے۔  دین اور عقل دونوں اعتبارسے اس کی کوئی بنیاد واساس نہیں، نہ تو شریعت نے اس کے نفاذکا حکم جاری کیا ہے اور نہ ہی عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ اس طرح کی کوئی کارروائی سرانجام دی جائے مگرچند اصول پسندعلماء کا کہنا ہے کہ اس فعل کا شمارمصالح عامہ میں ہوتا ہے اسلئے اس کے ثبوت کیلئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔‘‘
شیخ عبداللہ علویط نے اس سلسلہ میں 7 وجوہ کاتذکرہ کیا ہے جویقینی طورپر اس بات کاثبوت فراہم کرتی ہیں کہ مذکورہ مسئلہ احکامات شرعیہ کے سراسرمخالف ہے ، اس سلسلے میں پہلی وجہ میںان کا کہناہے کہ:
’’نمازکے وقت تجارتی دفاتریادکانوں کے بندکرنے کا کام بدعت کے زمرے میں آتاہے۔ اگردیکھاجائے تو دراصل معنی کے اعتبارسے یہ عمل عین بدعت ہے بایں طورکہ ہروہ کام جواسلام کے صدراول میں نہیں کیاگیا یابالفاظ دیگرقرون اولیٰ میں اس کی کوئی نظیرنہ ملتی ہو،وہ عرف عام کے اعتبارسے بدعت ہے۔ عرف عام میںبدعت کے یہی معنی جاری وساری ہیں ۔ اسلام کے صدراول میں تجارتی مراکز بندنہیں کئے جاتے تھے اسی لئے شرعاً اس بارے میں اسلامی اور شرعی رو سے کوئی ایسا نظام یااجباری حکم نہیں پایاجاتا جودکان اورتجارتی مراکز بندکرنے کرانے کاثبوت فراہم کرسکے۔یہاں پر قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس مسئلہ میں اشکال اجباری طورپر دکانیں یا تجارتی مراکز بندکرانے پر ہے ورنہ اگرکوئی شخص نمازکے وقت اپنی مرضی سے دکان بندکرتا ہے تواس میں کوئی حرج نہیں مگراس بارے میں اجباریازبردستی کامعاملہ بعد کی دین ہے، قرون اولیٰ میں اس کی کوئی اصل وبنیاد نہیں ملتی۔‘‘
اس بارے میں موصوف دوسری وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ:
’’جہاں تک نمازکے وقت  بازار، شاپنگ سینٹرز و دفاتر وغیرہ بندکرنے کرانے کے بارے میں دوسری توجیہ کا معاملہ ہے تووہ فقہی قول کا لوگوں کوپابندبناناہے یافقہی قول کولوگوں کے سرتھوپناہے اور لوگوں کوزبردستی اس پرعمل پیراکرواناہے۔ مثال کے طورپر اگرہم نمازباجماعت اداکرنے کے وجوب پر اصرارکریں(اگرچہ اس کے وجوب کاقول ضعیف ہے) چلئے بفرض محال ہم وجوب جماعت کے قول کوراجح قراردیدیں تواس کامطلب یہ تو نہیں کہ ہم اس کی بنیادپر لوگوں کو  بازار، شاپنگ سینٹرز و دفاتروغیرہ بندکرنے کاپابندبنائیں۔ اس قسم کا الزامی عمل مکلف کے سرمڑھ دینا شریعت اسلامیہ کی رو سے مذموم ہے۔ اصول فقہ سے تعلق رکھنے والے اصولیوں نے شروع ہی سے اس قسم  کے قضیہ کو(ادبیات)کے کالم میں جگہ دی ہے۔  ان کا کہنا ہے کہ شریعت اسلامیہ میں کسی قسم کااجباریااکراہ نہیں۔مرادیہ ہے کہ فقہی اصول کے مطابق زبردستی بازار، شاپنگ سینٹرز و دفاتر وغیرہ کوبندکرنے کیلئے لوگوں پر دباؤ نہیں ڈالاجاسکتا۔اگرہم نمازعیدین کے وجوب کے قول کوراجح قراردیتے ہیں تواس کی روسے لوگوں کو نمازعیدین کیلئے تجارتی محلات بندکرنے کا پابندبناناپڑے گا۔ اسی طرح اگر ہم(یوم شک ) کے روزے کے وجوب کے قول کوراجح قراردیدیں تو30شعبان کودن میں ہوٹلزوغیرہ بندکرنے کا حکم جاری کرناپڑے گا۔ اسی طرح کی صورتحال ہراختلافی مسئلہ میں درپیش آئیگی، چونکہ موجودہ مسئلہ بھی مختلف فیہ مسئلہ سے تعلق رکھتا ہے لہذاہم کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ صورتحال  میں زبردستی لوگوں کو تجارتی مراکز  بندکرنے کامکلف کیوں کر بنایا جارہا ہے؟ جبکہ اس بارے میں علمی حلقہ میں بہت بڑااختلاف پایاجاتا ہے جیسے وجوب جماعت کے بارے میں پایا جاتا ہے‘‘۔
اس بارے میںجہاں تک تیسری توجیہ کاتعلق ہے توشیخ علویط کاکہنا ہے کہ تجاری مراکز کو نمازکے وقت بندکرنے کے معاملہ سے یہ بات عیاں ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ اس عمل کے نفاذسے لوگوں کواول وقت میں دکانیں اور تجارتی مراکزبندکرنے کیلئے مجبورکرنا مقصودہے جبکہ ادائیگیٔ نمازکاوقت تنگ نہیں بلکہ اس میں شارع حکیم کی طرف سے وسعت ہے گویاکہ دکانیں اورتجاری مراکزکو نمازکیلئے بندکرانے والوں نے اپنے اس تصرف سے نمازکے وقت کو تنگی کاشکاربناکر ایک محدوددائرے میں گھیر دیا ۔ اس بات کا کہاں سے جوازپیداہوتاہے کہ اگرکوئی شخص اذان کے وقت تجا رتی مراکزیا دفاتر بند نہ کرے تواس کی سرزنش کی جائے یااسے موردالزام ٹہراکرسزادی جائے۔ اس بے جاحرکت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مکلف کو اول وقت میں نمازپڑھنے کیلئے مجبورکیاجارہا ہے جبھی تو اذان سے قبل دکانیں اور تجارتی مراکز بند کروائے جارہے ہیں اور یہ حرکت اسلامی قانون کی سراسرخلاف ورزی ہے۔ اس کی مثال تو یہی ہوئی کہ کسی شخص کو رمضان کریم کے روزوں کی قضاکرنے کیلئے شوال کے مہینے میں مجبورکیاجائے یقینا یہ حرکت شرعی مخالفت گردانی جائے گی جس کیلئے مزیدوضاحت کی ضرورت نہیں۔
اس سلسلہ کی چوتھی کڑی یہ ہے کہ نمازکے وقت تجارتی مراکز بندکروانا لوگوں کیلئے مضرت رسانی کاباعث ہے اور شریعت مطہرہ تو دفعِ مضرت کیلئے نازل ہوئی ہے اور لوگوں کوایذا  رسانی کا رازنمازکے وقت دکانوں اور دفاتربندکرنے میں مضمرہے۔ وہ اس طرح کہ نمازکے وقت  بازار، شاپنگ سینٹرز و دفاتر وغیرہبندکرکے گویاکہ ضرورت مندشخص کیلئے اس کی ضرورت کی انجام دہی کے کام میں رخنہ اندازی پیدا کرناہے اور بازارکی ہماہمی کوکم کرنا ہے، اب چاہے وہ شاپنگ کے وقت کو کم کرکے ہو یاتاجروںکے کاموں کی ترتیب میں رخنہ اندازی اور پیچیدگی پیداکرکے ہو،دونوں صورتیں باعث مضرت ہیں اور بازار، شاپنگ سینٹرز و دفاتر وغیرہ بندکرانے  کے حکم میں تاجروں کے حق کی حق تلفی ہے کیونکہ اس حکم کے بموجب انہیں دکان یا شاپنگ سینٹرزاذان سے پہلے بندکرناپڑتے ہیں۔  قبل اس کے کہ وہ دکانیں  بندکریں، انہیں گاہک کو شاپنگ کرنے سے روکناپڑتاہے توگویاکہ دکان یا تجارتی مراکزبندکرنے کی روٹین زیادہ سے زیادہ وقت کی خوا ستگارہے۔ یہی حال بڑے بڑے مالز اور شاپنگ سینٹروں کا ہے جہاں گاہک کو اذان سے کافی پہلے شاپنگ کیلئے اندرآنے سے منع کرنا پڑتا ہے  اور جولوگ اندرضروری سامان لے رہے ہوتے ہیں انہیں جلدی کرنے کیلئے وارننگ دینی پڑتی ہے تاکہ وہ کاؤنٹرپرآکراذان سے پہلے ادائیگی کرسکیں بایں طورمغرب اور عشاء کے درمیان لوگوں کوشاپنگ کرنے یاخریداری کرنے کیلئے تقریباًآدھاگھنٹہ ہی مل پاتاہے جوکہ  بڑے مالزیا شاپنگ سینٹروں میں شاپنگ کیلئے ناکافی ہے۔ اس بات سے یقینا یہ تصور پیداہوتاہے کہ اسلام کے نام پر اس قسم کے قانون کا اجرا  اسلامی روح کی سراسرمخالفت ہے اور قوانینِ اسلامیہ توآسانی سے عبارت ہیں جس کوشریعت مطہرہ نمازکی ادائیگی کے بارے میں لے کر نازل ہوئی ہے۔ 
موصوف نے اپنی گفتگوجاری رکھتے ہوئے مزیدوضاحت کی کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کووسیع وعریض وقت کے ساتھ موسوم نہیں کیا  مگر ہاں اگر کہیں کسی شخص کوضرورت لاحق ہے تواسے اس بات کاحق حاصل ہے کہ وہ اپنی ضروریات پوری کرے اور اس کے بعدفور  اًنمازادا کرلے،  نمازکو بغیرضرورت درپیش ہوئے  طویل وقت کے ساتھ متصف نہیں کیا جاسکتا۔مرادیہ ہے کہ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ نماز کی طرف سے کوتاہی برت کر قرآن کریم کی تلاوت کرے یا ذکرواذکار میں مشغول ہوجائے پھرجب نماز کاآخری وقت آپہنچے تواٹھ کر نماز ادا کرلے۔ نہیں ایسا کرنا جائز نہیں مگریہ چھوٹ صرف ضرورت پیش آجانے کی صورت میں ضرورت پوری کرنے کی غرض سے دی گئی ہے تاکہ انسان اپنی اہم ترین ضروریات کو پوراکرسکے اس کے فوراًبعدنمازاداکرلے جیساکہ بخاری  شریف  میں ہے کہ:
’’نمازکھڑی ہوگئی اور نبی کریم مسجد کی ایک جانب کسی شخص سے محوِگفتگوتھے، اقامت  ہوجانے کے باوجودآپ نے اپنی گفتگوجاری رکھی بلکہ آپ پورے طور پرمحوِگفتگورہے حتیٰ کہ لوگ سوگئے اس کے بعد جب نبی کریم اپنی گفتگو سے فارغ ہوئے تب نمازاداکی۔‘‘
یہ حدیث دلیل ہے اس بات کی کہ اگرگوئی اہم  میٹنگ ہورہی ہو اور گفتگوطول پکڑجائے تونماز اختتام ِ گفتگو( وقت نماز ختم ہونے سے قبل) اداکی جاسکتی ہے۔ اس بات کی دلیل حدیث میں واردجملہ’’حتیٰ نام القوم‘‘ہے۔ یہ تعبیرِ بیان بتلارہی ہے کہ اس طرح کی صورتحال پیش آنے کی وجہ سے نمازمیں تقدیم وتاخیرکی جاسکتی ہے۔ یہ شخصی ضرورت کیلئے حدیث واردہوئی ہے توپتہ یہ چلاکہ جب شخصی ضرورت کیلئے نمازمیں تاخیرہوسکتی ہے توپھراہم ترین ضرورت کیلئے تو بدرجہ اولیٰ اس کا جواز ہے چنانچہ شاپنگ یامارکیٹنگ چونکہ ضروریاتِ زندگی مہیاکرنے کیلئے ہواکرتی ہے توپھراس کیلئے نمازمیں تاخیر کیوں نہیں ہوسکتی ؟ اور یہ واقعہ امام کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ نبی کریم اس واقعہ میں امام تھے تو پھرمقتدی کوتو بدرجہ اولیٰ اس کی چھوٹ ہوگی کہ وہ اپنی ضروریاتِ زندگی پہلے مہیا کرے اس کے بعد نمازاداکرے۔

شیئر: