Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے

معصوم مرادآبادی
آئینہ ایک ایسی لاجواب شے ہے کہ اس میں ہر کسی کو اپنا چہرہ صاف وشفاف نظر آتا ہے۔ ہمارے درمیان بعض لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو نہ تو کبھی اپنا منہ دھوتے ہیں اور نہ ہی آئینے کے قریب جانا پسند کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو جب کوئی آئینہ دکھاتا ہے تو انہیں اپنا چہرہ بڑا بدحواس اور بے ترتیب نظر آتا ہے۔ اپنے چہرے کی گرد صاف کرنے اور اسے ترتیب دینے کی بجائے وہ لوگ آئینے کو ہی پاش پاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات ہمارے ملک میں سرگرم فرقہ پرست اور فسطائی عناصر پر بالکل صادق آتی ہے۔ حال ہی میں اس کا تجربہ فلم اداکار کمل ہاسن کو بڑی شدت کے ساتھ ہوا ہے، جنہوں نے اپنے ایک حالیہ مضمون کے ذریعے ہندوکیمپوں میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر اظہارخیال کیا تھا۔ان کے اس مضمون پرفرقہ پرست اور فسطائی خیموں میں اتنا واویلا مچا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہاں تک کہ ہندومہاسبھا کے ایک لیڈر نے انہیں گولی ماردینے کی وکالت کی ہے۔ 
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک طرف تو ہم خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور اپنی برداشت اور تحمل کا ڈھول پیٹتے ہیں لیکن جب کوئی شخص اپنے اس جمہوری اور دستوری حق کا استعمال کرتاہے تو ہماری اصلیت سب کے سامنے بے نقاب ہوجاتی ہے حالانکہ جمہوریت کا سب سے بڑا حسن اظہار خیال کی آزادی اور اختلاف رائے کو برداشت کرنا ہے لیکن اسے کیاکہاجائے کہ فرقہ پرستوں کے نزدیک انکی سوچ اور فکر سے اختلاف کرنا ہی سب سے بڑا جرم ہے۔ یہ طاقتیں اپنے نظریاتی مخالفین کے خلاف زہر اگلنے اور انکی حب الوطنی پر سوال قائم کرنے میں تو کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتی لیکن جب کوئی دوسرا اُن کے نظریات پر تنقید کرتا ہے یا انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ آپے سے باہر ہوجاتی ہیں۔ کمل ہاسن کے بیان پر فرقہ پرست طاقتوں کا جارحانہ اور غیرانسانی ردعمل اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ 
تمل ناڈو کی سیاست میں داخل ہوکر ایک نئے تجربے کا آغاز کرنے والے کمل ہاسن مانتے ہیں کہ ہندو دہشتگردی نام کی شے کا واقعی وجود ہے۔ ہفتہ وار تمل میگزین ’’آنندہ وکٹن‘‘ میں تحریر کردہ اپنے ایک مضمون میں انہوں نے لکھا ہے کہ دائیں بازو کے گروپ اب تشدد پر آمادہ ہوگئے ہیںکیونکہ ان کی حکمت عملی اب کارگر نہیں رہی ۔ پہلے دائیں بازو کے ہندولوگ تشدد میں شامل نہیں ہوتے تھے۔ وہ اپنے مخالفین کی دلائل کی بنیاد پر مخالفت کرتے تھے لیکن یہ پرانی حکمت عملی ہارگئی ہے اور اب وہ جو کچھ کرتے ہیں اس میں طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ دایاں بازو تشدد میں شامل ہیں اور ہندو کیمپوں میں دہشتگردی داخل ہوچکی ہے۔ کمل ہاسن نے مزید لکھا ہے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہندودہشتگردی کا وجود نہیں۔ ہندوشدت پسند پہلے بات چیت میں یقین رکھتے تھے لیکن اب تشدد میں شامل ہوگئے ہیں۔ لوگوں کا’’ ستیہ میو جیتے‘‘ پر عقیدہ ختم ہوگیا ہے لیکن جو لوگ خود کو ہندو کہتے ہیں ان کیلئے شدت پسندی کسی بھی طورپر کامیابی یا ترقی کی ضامن نہیں ہوسکتی۔ کمل ہاسن نے اپنے مضمون میں کیرل حکومت کی ستائش کی ہے۔ 
اگر آپ غور سے دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ گزشتہ عرصے میں ہندوتو کے نام پر سیاست چمکانے والی طاقتوں نے تشدد برپا کرنے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ خواہ وہ گئو رکشا کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو انتہائی سفاکی اور بے دردی سے ہلاک کرنے کا معاملہ ہو یا پھر لوجہاد کے نام پر نوجوانوں کو دہشت زدہ کرنے کا معاملہ۔ ہندوتو وادی طاقتوں نے اس ملک میں اقلیتوں اور کمزوروں کا جینا حرام کردیا ہے۔ ملک میں عدم برداشت کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر ملک ہی نہیں بیرونی دنیا میں بھی سخت تشویش پائی جاتی ہے اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں عدم برداشت اور بھگوا دہشتگردی کے سوال پر مسلسل تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ بھگوادہشتگردی کو سب سے پہلے مالیگاؤں بم دھماکہ معاملہ میں مہاراشٹر اے ٹی ایس کے سربراہ آنجہانی ہیمنت کرکرے نے بے نقاب کیا تھا۔ انہوں نے اپنی غیر جانب دارانہ تحقیقات سے یہ ثابت کیا تھا کہ مالیگاؤں بم دھماکوں میں بھگوادہشتگردوں کا ایک انتہائی منظم نیٹ ورک کام کررہا ہے۔ بعد کو حیدرآباد کی مکہ مسجد ، اجمیر کی درگاہ خواجہ معین الدین چشتی  ؒ اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے خطرناک بم دھماکوں میں بھگوادہشتگردوں کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا۔ یہ دھماکے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت مسلمانوں کو جانی نقصان پہنچانے کیلئے انجام دیئے گئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ مرکز میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد قومی تحقیقاتی ایجنسی نے مذکورہ بم دھماکوں میں ملوث تمام دہشتگردوں کو کلین چٹ دے کر بھگوادہشتگردی کا داغ مٹانے کی کوشش کی۔
کمل ہاسن نے اپنے مضمون میں کوئی انہونی بات نہیں لکھی تھی بلکہ انہوں نے جو کچھ لکھا تھا اس کا اعتراف ملک کا ہر حقیقت پسند شہری کرتا ہے لیکن سنگھ پریوار کے لوگوں نے کمل ہاسن کیخلاف جو محاذ آرائی شروع کی ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کوئی ایسی غیر معمولی بات کہہ دی ہے جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سبرامنیم سوامی سے لیکر راکیش سنہا تک نے کمل ہاسن کیخلاف اپنی بھڑاس نکالی ہے۔ یہاں تک کہ بی جے پی ترجمان پی وی ایل نرسمہاراؤ نے تو ان کا موازنہ حافظ سعید سے کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک دہشتگرد کی زبان بول رہے ہیں۔ ان سے ایک قدم آگے بڑھ کر ہندو مہاسبھا کے لیڈر اشوک شرما نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ کمل ہاسن جیسے لوگوں کو گولی ماردینا چاہئے۔ اس طرح کے لوگ اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے تحت ہندوتو وادیوں کا تعلق ہندودہشتگردی سے جوڑتے ہیں۔ شرما کے مطابق کمل ہاسن جیسے لوگوں سے نمٹنے کیلئے انہیں پھانسی پر لٹکادینے یا گولی مار دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔  شرما کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کمل ہاسن نے کہاہے کہ جولوگ اپنی تنقید برداشت نہیں کرسکتے وہ مجھے ماردینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ’’ اگر ہم ان سے سوال پوچھتے ہیں تو وہ ہمیں غدار ٹھہراکر جیل میں ڈال دینا چاہتے ہیں،اب چونکہ جیلوں میں جگہ نہیں ہے تو وہ گولی مارکر ہمارا قتل کردینا چاہتے ہیں۔ ‘‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندوانتہا پسندی سے متعلق کمل ہاسن کے مضمون کیخلاف ملک کے کئی شہروں میں مقدمات قائم ہوچکے ہیں اور انہیں عدالتوں میں گھسیٹا جارہا ہے۔ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے اداکار پرکاش راج نے کہاہے کہ ’’اگر فرقے ، تہذیب اور اخلاقیات کے نام پر کسی کو خوف زدہ کرنا دہشتگردی نہیں تو اور کیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا ہے کہ اخلاقیات کے نام پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی اور گالم گلوچ کرنا کیا انہیں دہشت زدہ کرنا نہیں ۔ گئو رکشا کے نام پر اور گئو کشی کے شبہ میں قانون ہاتھ میں لے کر لوگوں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنا دہشتگردی نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر دوسروں کو گالیاں دینا ، دھمکیاں دینا اور اختلافی آوازوں کو دبانے کی کوشش کرنا اگر دہشتگردی نہیں ہے تو پھر دہشتگردی کیا ہے؟ ‘‘
 
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں