Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران اور عرب چینلز پرسعودی اخبارات کے کالم

ایران عرب چینلز پر کس طرح حاوی ہوگیا اس حوالے سے منگل کو سعودی اخبار میں شائع ہونے والا کالم
ایران عرب چینلز پر کس طرح حاوی ہوگیا؟
علی الموسیٰ۔ الوطن
 بصری ابلاغ کے ماہر پروفیسر نے 2 روز قبل رابطہ کرکے یہ افسوسناک حقیقت سنائی کہ ایران 28 عرب ٹی وی چینلز چلا رہا ہے۔ یہ چینلز عرب شہروں سے اپنی نشریات پیش کررہے ہیں۔ انکا بجٹ ایران دے رہا ہے۔ ان چینلز کا سارا عملہ عربوں پر مشتمل ہے۔ پروگرام تیار اور پیش کرنے والے سب کے سب عرب ہیں۔ عربی کے سوا کوئی اور زبان نہیں بولتے۔ عرب چینلز کے سارے پروگرام عرب سیاروں کے ذریعے پیش کئے جارہے ہیں۔ یہ عرب تنظیم کے اجازت یافتہ ہیں۔ان میں سے 9چینلز بیروت کے مضافاتی محلے حریک میں کھلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے 4 مذکورہ محلے کی ایک چھوٹی عمارت کے تہہ خانے سے چلائے جارہے ہیں۔ یہ عمارت اسلحہ پروف ہے۔ایران اپنے عوام کے لئے فارسی زبان میں صرف 5مذہبی چینلز چلا رہا ہے جبکہ عرب عوام میں فرقہ وارانہ زہرپھیلانے کیلئے مکمل 28 چینلز مختص ہیں۔ 
صورتحال بیحد خوفناک ہے۔ جوابی کارروائی کیلئے زبردست اسٹراٹیجک جدوجہد کی محتاج ہے۔ افسوسناک سچائی یہ ہے کہ ابھی تک عربوں نے اس خطرے کا احساس ہی نہیں کیا۔ اس کے خلاف جوابی اقدام کا پہلا قدم تو بہت دور کی بات ہے۔
ایران دسیوں سیٹلائٹ چینلز کی مدد سے عرب رائے عامہ تک پہنچا ہوا ہے۔ بصری ابلاغ کے ماہر پروفیسر نے عرب چینلز میں ایران کی دراندازیوں کے مختلف پہلوﺅ ں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ الجزیرہ چینل ایک مثال ہے۔ جس نے گزشتہ 10برس کے دوران ایرانی عوم کی زندگی، ایران کے داخلی حالات، ایران میں سیاسی جبر اور ایرانی عوام کے مشکل اقتصادی حالات پر ایک رپورٹ بھی اپنے ناظرین کو نہیں دکھائی جبکہ اس کے برعکس ایران کی خوبصورت تصویر پیش کرنے والی دسیوں فلمیں الجزرہ کے ناظرین مختلف اوقات میں دیکھتے رہے ہیں۔ الجزیرہ چینل ایران کے خوبصورت پہلوﺅں کو انتہائی ذہانت سے اجاگر کرنے میں لگا ہواہے۔ الجزیرہ کے سابق اناﺅنسر غسان بن جدو نے بڑی خوبصورت بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے الجزیرہ چینل کے ذریعے عرب رائے عامہ کو اپنی مٹھی میں لینے کیلئے جتنا کچھ کرلیا ہے ایران کے تمام وزرائے اطلاعات و نشریات و ثقافت مل کر بھی اتنا کام انجام نہیں دے سکے۔
سوال یہ ہے کہ عربوں نے گزشتہ عشروں کے دوران برپا کئے جانے والے اس طوفان کو روکنے کیلئے کیا کیا؟ میرا جواب یہ ہوگا کہ کسی وجہ سے آج میں اسکا جواب نہیں دے سکتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
ہماری امتیازی خصوصیات کیا ہیں؟
فہد عامر الاحمدی ۔ الریاض
ہر قوم کی امتیازی خصوصیات ہوتی ہیں؟ یہ صد فیصد فطری عمل ہے تاہم قومی خصوصیات کو تعمیر و ترقی کے عمل میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔ امتیازی خصوصیات کو دیگر ثقافتوں کی خصوصیات کے ساتھ حسین امتزاج کی کوشش کرنا لازم ہے۔
ہمارا مسئلہ مختلف ہے۔ ہم نے اپنی امتیازی خصوصیات کو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے جواز کا خوبصورت وسیلہ بنالیا ہے۔ جب بھی کسی قوم سے مسابقت کی بات آتی ہے تو ہم اپنی امتیازی خصوصیات کا رونا رونے لگتے ہیں۔ ہم بآواز بلند یہ کہتے ہیں کہ ہماری تہذیب اور ہمارا تمدن اس کام کی اجازت نہیں دیتا۔اسی کو بہانہ بناکر ہم ترقی کے اسباب اختیار کرنے سے جان چھڑا تے رہے ہیں اورقومی خصوصیات کے پردے میں اپنی کمزوری چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم پیچھے رہ گئے۔اگر یہودی زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی نہ کئے ہوتے تو بلاشبہ ہمارا دعویٰ ہوتا کہ ہم ”اللہ کی برگزیدہ قوم ہیں۔“
چند روز قبل ٹویٹر پر میں نے لوگوں سے سعودی خصوصیات کی بابت سوال کیا۔ میرا سوال ایک طرح سے استصواب رائے جیسا تھا۔ مجھے 200جواب موصول ہوئے۔ ان میں سے بعض مضحکہ خیز، دوسرے متوازن اور تیسرے بھاری تھے۔ قدرے مشترک بات یہ تھی کہ سارے کے سارے جوابات آگہی اور روشندان کھولنے والے تھے۔
مجھے سعودی خصوصیات سے متعلق جو جوابات موصول ہوئے، ان میں نمایاں ترین یہ تھے:
1۔ سعودی خصوصیات کی اصطلاح خود کو حاصل سہولتوں کے تحفظ کیلئے گھڑی گئی ہے۔ حقیقت سے اسکا کوئی تعلق نہیں۔
2۔ تغیرات کے آگے بند باندھنے کیلئے ایک دعویٰ کرلیا گیا ہے جسکی کوئی شرعی بنیاد نہیں۔
3۔ معمول کو فرض کا درجہ دیدیا گیا۔
4۔ جھوٹ اتنی بار بولا گیا کہ ذہنوں میں رچ بس گیا۔
5۔ سعودی خصوصیات کا دعویٰ گناہ سے بدتر عذر ہے۔
6۔ سعودی خصوصیات کے دعویدار سب سے زیادہ تضادات کا شکار ہیں۔
7۔ سعودی خصوصیات کا دعویٰ دنیا اور آخرت کی کشادگی کیخلاف دنیا کو تنگ تر کرنے کی ایک کوشش ہے۔ 
8۔ سعودی روایات اور تہذیبوں میں اختلاف کے باوجود پورے معاشرے کو ایک رنگ میں دکھانے کی کوشش ہے۔
9۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ہم تمام فطری معاشروں سے مختلف ہیں۔
10۔ یہ بند معاشروں اور روایتوں سے ملتی جلتی تعبیر ہے۔
11۔ یہ زبردست پابندیوں کا مجموعہ ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو ہم ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتے۔
12۔ یہ ہر شمع کی روشنی روکنے کی ایک کوشش ہے۔
13۔ ہماری خصوصیات اقدار اور عقائد سے ماخوذ ہونی چاہئے۔ خودساختہ سوچوں سے نہیں۔
14۔ یہ تجدید مخالف روایات اور عادات کا نام ہے۔
15۔ پسماندہ لوگوں نے معاشرے کو پسماندہ رکھنے کیلئے لفظی اصلاح گھڑ لی ہے۔
16۔ ہمارے معاشرے کی کوئی ایسی خصوصیت نہیں جو دوسروں میں ناپید ہو۔
17۔ ہر معاشرے کی ا پنی پہچان ہوتی ہے۔ ہم نے اس کی معنویت کھو دی ہے۔
18۔ یہ خود ساختہ بدعتوں میں سے ہے۔
19۔ دیگر مسلمانوں سے ہم مختلف نہیں ۔ بس ہمیں ضیوف الرحمن کے خدمات ہونے کا اعزازحاصل ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ ہماری اپنی پہچان ہے۔ ہماری ایک تاریخ ہے لیکن قومی خصوصیات کے حوالے سے ہم نے اپنے اطراف پابند یوں کا جودائرہ قائم کرلیا ہے وہ بلاشبہ غلط ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اکثر لوگوں نے سعودی خصوصیات کے حوالے سے شعور و آگہی کا مظاہرہ کیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: