پاکستان اور ہم، دونوں میں چند برس کی ہی ’’چھوٹ بڑائی‘‘ ہے ۔ ہمارے اس ہمجولی میں ایک بات تو روز اول سے ہے کہ یہ اپنے اطوار نہیں بدلتا ۔ صاحبانِ خرد وطن عزیز کی اس طینت کو ’’مستقل مزاجی ‘‘ اور’’استقامت ‘‘سے موسوم کرتے ہیں۔ ہم نے بھی اپنے ہمجولی، وطن عزیز کی عادت کو اپنایا تو لوگوں نے اسے مستقل مزاجی وغیرہ قرارنہیں دیا بلکہ ہمیں ہی ’’لکیر کا فقیر ‘‘ کہہ دیا اور شرمندہ کرنے کی کوشش کی ۔یہ سلسلہ گزشتہ صدی سے چلا آ رہا ہے ۔ ہمارا ہمجولی آج 70سال کا ہو چکا اور آج بھی یہ ویسا ہی ہے، جیسااپنے قیام کے وقت تھا۔ اس کو کہتے ہیں ’’استقامت ‘‘۔ہم نے سرزمینِ پاک پر آنکھ کھولی تو وطن عزیز کی مستقل مزاجی دیکھی اور اس کی تقلید شروع کر دی ۔وقت گزرتا گیا، وطن بھی ویساہی رہا جیسا تھا اور ہم بھی ویسے ہی رہے ، جیسے تھے مگر پھر یوں ہوا کہ پاکستان کے قیام کو 70سال اور 70دن گزر چکے تھے، 71واں دن تھا ، ہم اپنے خانوادے کے ساتھ ایک نئی نویلی منی بس کی نشستوں پر براجمان تھے۔اس بس کو ’’پائلٹانہ صلاحیتوں‘‘ کا مالک ہمارا ہم وطن ایک ’’عام پاکستانی‘‘ چلا رہا تھا۔اس سے لاہور سے نتھیا گلی ، براستہ ہری پور، ہزارہ، ایبٹ آباد ، ٹھنڈیانی اور واپس لاہور آنے جانے کا کرایہ طے کر لیاگیا تھا۔ ہم سب بولتے چالتے ، ہنستے مسکراتے کوہسار کی بلندی پر موجود تفریحی مقام کی جانب رواں دواں تھے۔ لاہور سے رات کے 1.30بجے روانہ ہوئے۔
اسموک اور فوگ کے باہم انفعال سے منصۂ شہود پر نمودار ہونے والی ’’مرئی دھندلاہٹ‘‘یعنی ’’اسموگ‘‘ کے باعث حدنگاہ ’’صفر‘‘ تھی۔ ہماری منی بس جلتی بجھتی بتیوں کے ساتھ2کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے شہر لاہور کی حدود سے ’’فرار‘‘ ہونے کیلئے آزادی چوک کی جانب رواں دواں تھی، اسی دوران ایک کار نے ہماری منی بس کو دائیں جانب سے رگڑ ڈالا۔ ہمارا ’’پائلٹ‘‘ کافی برہم ہوا مگر کچھ نہ کر سکا کیونکہ وہ کار کسی ’’عام پاکستانی ‘‘ کی نہیں بلکہ معاشرے کے کرتا دھرتا، اخلاقیات کے پاسدار ، اصلاح احوال کے ٹھیکیدار اور قیام امن کے ذمہ دار پولیس افسران و اہلکاران کی تھی ۔ ہماری منی بس اسی دھند ، دھندلاہٹ اور دھاندلی کے ماحول میں کچھوے کی رفتار رینگتے ہوئے پہلے لاہور اور پھر گوجرانوالہ کی انتہائوں سے جیسے ہی باہر نکلی اس نے 120میل فی گھنٹے کی رفتار سے بھاگنا شروع کر دیا کیونکہ ایسا لگ رہا تھا کہ اسموک، فوگ یا اسموگ کی دہائی محض واویلا تھا۔ ہم خوشگوار خنک فضائوں میں گہرے سانس لیتے ، فجر کے دھندلکوںسے برآمد ہوتے، فرائض ادا کرتے ہری پور پہنچ گئے۔ اس سادہ لوح شہر کی شاہراہ سے گزرتے ہوئے اچانک پولیس والا سامنے آگیا۔ اس نے تاڑ لیا تھا کہ یہ منی بس لاہور کی ہے چنانچہ اس نے ہمارے ’’پائلٹ‘‘ کو رکنے کا اشارہ کیا۔
اس ’’عام پاکستانی‘‘ نے گاڑی ایک جانب لگانے کی بجائے سڑک کے مرکز میں ہی روکی اور کہا کہ مہمان نوازی کے بھی کچھ اطوار ہوتے ہیں۔ لاہور سے آئے ہیں، بچوں کو سیر کرانے کیلئے ٹھنڈیانی لے جا رہے ہیں،جانے دیں۔ اس نے کہا ’’گلاں بہتیاں نہ بنا،کاغذات تے پرمٹ وکھا۔‘‘اس نے کہا کہ نہ کاغذات ہیں، نہ لائسنس اور نہ ہی پرمٹ، یہ سن کر پولیس محترم نے فرمایا کہ ’’فیر تے ذرا باہر آ جا۔‘‘ہمارا پائلٹ ہنستا ہوا بس سے باہر گیا۔سڑک عبور کی اور دوسرے کنارے پہنچ کر پولیس محترم سے مصافحہ کیا اور ہنستا ہوا واپس آگیا۔ ہم نے کہا کہ کیا ہوا؟ لاپروائی سے بولا، 500مانگتا تھا، 200میں کام بن گیا۔ہم نے کہا کہ جب آپ کے پاس کاغذات نہیں، لائسنس نہیں، روٹ پرمٹ نہیں اور پھر بھی آپ کو یقین ہے کہ چالان سے بچ جائیں گے۔ انہوں نے انتہائی نامناسب اور نامساعد قسم کا جواب دیا کہ ’’سر جی! آپ خواہ مخواہ میں ٹینشن نہ لیں۔ یہ پاکستان ہے ، ’’پی کے‘‘، پی کے کرنسی میں بڑی طاقت ہے۔ کوئی چالان شالان نہیں ہوتا۔ہم نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر کسی دیگر چوکی یا ناکے پر پولیس بھیا نے ہمیں پھر روک لیا تو؟ پائلٹ بھائی بولے کہ پھر دو لال نوٹ اور نکال دیں گے ۔
ہم یوں خوفزدہ تھے کہ محترم پائلٹ نے ہم سے طے کروا لیا تھا کہ چالان جتنے ہوں گے وہ ہمیں ہی ادا کرنے ہوں گے۔ ہم نے کہا کہ ایسا کیوں؟ اس نے کہا کہ ’’سر جی! یہ پاکستان ہے ، ’’پی کے‘‘میں بہت طاقت ہے اور پی کے کرنسی ہرمشکل کا حل ہے ۔ خیر ! ہم چالان کے ڈر سے کانپتے ہوئے سفر کئے جا رہے تھے۔پہاڑوں نے ہمیں خوش آمدید کہنا شروع کر دیا۔ ہوائیں خنک سے سرد ہو چکی تھیں۔ فضا اتنی صاف کہ آسمان صاف دکھائی دے رہا تھا، دھوپ کیا تھی، چہار سو بکھرا ہوا سونا محسوس ہو رہی تھی۔ہم قدرت کی صناعی اور موسم کے حُسن میں مدغم تھے کہ اچانک ہمارے کانوں میں زور دار سیٹی کی آواز آئی اور اس کے ساتھ ہی یوں لگا جیسے ہماری منی بس کی بریکس جام ہوگئیں۔ہم نے اُچٹ کر دیکھا تو منی بس کے سامنے ایک باوردی پولیس اہلکار کھڑا تھاجس نے اپنا بازو بس کے سامنے یوں دراز کر رکھا تھا جیسے اس سے آگے نکلنا قابل تعزیر جرم ہے ۔ہمیں ا حساس ہو رہا تھا کہ وہ اہلکار ، سرکار کی نہیں،کسی سنگلاخ چٹان کی نمائندگی کررہا ہے ۔اس نے ہمارے پائلٹ سے کہا کہ روٹ پرمٹ لائیے، اس نے کہا نہیں ہے ۔ پولیس صاحب نے کہا لائسنس لائیے، اس نے کہا نہیںہے ۔ پولیس صاحب بولے کہ کاغذات لائیے ۔ اس نے کہا وہ بھی نہیںہیں۔ پولیس صاحب نے کہا گاڑی سے باہر آئیے۔ ڈرائیور نے فرمایا کہ ہم پاکستانی ہیں، کوئی دشمن ملک سے نہیں آئے۔ آپ کو بتلا دیا ہے کہ ہم ہری پورچوکی پر بھی پولیس کو سلامی دے کر آئے ہیں، پی کے کرنسی میں بڑی طاقت ہے ۔اس نے کہا یہ ’’کے پی ‘‘ہے، یہاں’’ پی کے‘‘ کی طاقت چلتی ہے ، کرنسی کی نہیں۔ہمارے پائلٹ صاحب تمام چوکڑیاں بھول چکے تھے۔اُس سنگلاخ پولیس والے نے اسے لے جا کر موبائل میں تشریف فرما افسران کے سامنے پیش کر دیا۔پائلٹ نے یہ کہتے ہوئے ہمیں بھی بلالیا کہ یہ تو کسی کی بات ہی نہیں سن رہے، آپ ہی سمجھا دیں۔ پولیس افسر نے 10ہزارروپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیاتو پائلٹ پینترہ بدلاکہ چھوڑیں جی، ہم آپ کے مہمان ہیں۔ آپ حکم کریں’’ پی کے روپیز‘‘کتنے پیش کئے جائیں۔ اس نے کہا نہ حرام کھاتے ہیں، نہ کھلاتے ہیں۔ ان 10 ہزارروپے میںسے ایک پیسہ بھی میرے لئے حرام ہے ۔ یہ سب قومی خزانے میں جمع ہوگا۔رہی مہمان نوازی تو منی بس میں تمام مسافروں کیلئے کھانا اور چائے میری طرف سے ہے۔ہم نے اس کے ہاتھ پیر پکڑے اور کہا کہ جناب! یہ چالان ہمارے سر تھوپے جانے والے معاہدے کے تحت ہمیں ہی ادا کرنا ہے۔ یہ سن کر اس نے کہا کہ میں اپنے تمام صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے جرمانہ 2225روپے کر دیتا ہوں، یہ بھی ادا نہ کئے تو گاڑی بند ہو جائیگی۔ ہم نے جرمانہ ادا کیا۔پائلٹ نے کہا کہ آگے پھر کسی نے پکڑ لیا تو؟ اُس پولیس افسر نے جواب دیا، یہ چالان کہیں بھی دکھانا، اس نے کوئی دوسری بات کی تو ذمہ دار میں ہوں گا۔ یہ کے پی ہے جہاں پی کے کا قانون اور اسکی طاقت ہے۔ ہم نے اسے سلیو ٹ کیا اور چل پڑے۔ سیاہ خوبصورت، شفاف، سجی سجائی ، دھلی دہلائی سڑکوں پر ہماری گاڑی کو ٹھنڈیانی کے راستے میں پھر روکا گیا، ڈرائیور نے سبز رنگ کا چالان والا کاغذ ڈیش بورڈ سے اٹھایا ہی تھا کہ پولیس والے نے معذرت کرتے ہوئے ہمیں جانے کی اجازت دی، پھر واپسی پر لاہور کی دھند میں داخلے تک کسی نے اس چالان پر چالان کی جرأت نہیں کی۔