ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا،آ ہ! مشکور حسین یاد
جمعرات 23 نومبر 2017 3:00
فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔دیر سے فون اٹھانے پر دوسری جانب سے آواز آئی،فون قریب ہی رکھا کر یںاور جلدی اٹھا لیا کریں ۔یہ شہرِ ریا ض کی جا نی پہچانی شخصیت علمی اور ادبی حلقوں کی جان وقار نسیم وا مق تھے ۔انہو ں نے ہمیں سید مشکور حسین یاد کی وفات کی خبر سنا ئی اور بو لے ،
اردو کے گلستا ں پہ چھا ئی ہے پھر خزا ں
پھر دیدہ ء نر گس سے ہوا خو ن رواں ہے
ہمیں یقین ہی نہ آیا ۔پھر وا ٹس ایپ گروپ کھولے تو سبھی پر یہی لکھا پا یا ، انا للہ و انا علیہ راجعون ۔۔۔ ما یہ نا ز ادیب اور شا عر پرو فیسر مشکور حسین یاد ر ضا ئے الہی سے لا ہو ر میں وفات پا گئے ،سبھی اداس ہیں اور ہر آنکھ اشک بارہے ،بے ا ختیار منہ سے یہ شعر نکلا ،
سب کہا ں کچھ لا لہ ء و گل میں نما یا ں ہو گئیں
خاک میں کیا صور تیں ہو نگی کہ پنہا ں ہو گئیں
اس علم و فکر کی شخصیت سے ہماری ملا قات سب سے پہلے حلقہء فکر و فن کے پلیٹ فا رم پر ہو ئی ۔نا ظمِ اعلی حلقہء فکر و فن جا وید ا ختر جا وید جو اِن دنوں پا کستان میں ہیں ، ان کے اعزاز میں کئی محافل کا اہتمام کیا ۔جا وید ا ختر جا وید علم دوست انسان ہیں۔شہرِ ریا ض میں جب بھی کسی شا عر یا ادیب کی آ مد ہو تی یہ جھٹ سے محفل سجا کر دوست ا حباب مد عو کر لیتے ۔ان کے گرد ادب نوازجھمجھماتے رہتے ۔ ایک اور شخصیت ابو غالب نے بھی ان کے ا عزاز میں محفلیں سجا ئیں ۔مر زا اسد اللہ خان غالب کی محبت میں ڈوب کر ان کی پہچان ہی اب یہی بن چکی ہے ۔انہو ں نے مشکور حسین یاد کی خبر سن کر بے ا ختیار کہا ،
آہ وہ علم و ادب کے منا رے ۔
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لیکر
یاد صا حب سے ہماری ایک طویل بیٹھک فکر و فن کے پرو گرا م کے بعد ہو ئی۔ہمارے ساتھ علم و ادب سے بے پنا ہ شغف رکھنے والی شخصیت شا عرہ ،ادیبہ محترمہ عذ را نقوی بھی تھیں ۔کہنے لگے ، میرا تعلق مشر قی پنجاب کے ضلع حصار سے ہے جو اب ہر یا نہ میں شامل ہے ۔’یاد ، میرا قلمی نام ہے جو میں نے شا عر بننے کے بعد رکھا ۔ میرا خا ندان جب مظفر نگر آیا تو میرے والد صا حب نے پو لیس میں ملا ز مت ا ختیار کی ، کیونکہ وہا ں ہمارے ایک رشتہ دار ڈی ایس پی تھے ۔میری والدہ بہت مذ ہبی تھیں وہ ہمیں دوسرے مذا ہب کی کسی بھی تقریب میں جا نے سے رو کتی تھیں ۔ جب میں نے میٹرک کیا تو ایک ا خبار پکار کے نام سے حکو مت نے شرو ع کیا تا کہ جنگِ عظیم دوم کی خبریں ہند کے عوام تک پہنچیں ۔میری قا بلیت سے متا ثر ہو کر مجھے اس اخبار کا ایڈیٹر مقرر کر دیا گیا ۔اسطر ح مجھے مسلما نو ں کے حالات اور تقسیم کے منصوبہ
کو قریب سے دیکھنے کا مو قع ملا اور محمد علی جنا ح سے بھی را بطہ ہوا ۔جوا ہر لال نہرو سے بھی بات چیت ہو ئی ۔میں خوش تھا کہ کم عمر ی میں ہی میں ان بڑے بڑے لیڈ رو ں سے مل رہا ہو ں ۔انہی دنوں ایڈیٹر ما ہنا مہ ز عفران بھی بنا دیا گیا۔اس دور میں شا د یا ں کم عمری میں ہی ہو تی تھیں۔ 1943 ء میری بھی شادی ہو گئی جو کہ بہت ہی سادہ تھی خا ندان کے چند افراد بارات میں تھے ۔ اس دوران تعلیم بھی جا ری رکھی ۔یاد صا حب یہا ں بات کرتے ہو ئے کچھ دیر کے لئے رک گئے ۔پھر گہری سا نس لیتے ہو ئے بو لے تقسیم کا سا نحہ میں کبھی نہیں بھول سکتا جب اس کے دو ہفتے بعد ہمارے گھر پر حملہ ہوا ۔بمعہ میری 3 سالہ بیٹی اور بیوی کے ہمارے خا ندان کے 35افراد کو شہید کر دیاگیا ۔مجھے یہی سمجھا گیا کہ شاید میں مر چکا ہو ںاس لئے چھو ڑ گئے ۔میں زخمو ں سے چو ر کیمپ پہنچا تو مجھے طبی امداد دی گئی ۔
پا کستان پہنچ کر میں نے اپنی زندگی نئے سرے سے شرو ع کی ۔تعلیم کے مرا حل سے بھی گزرا ۔1955ء میں اردو میں ما سٹرز کیا اور گو ر نمٹ کا لج لا ہو ر میں اردو کے پرو فیسر کی حیثیت سے تقر ری ہو ئی ۔ان دنوں میں نے ’ آ زادی کے چرا غ ، لکھ کر شہرت حا صل کی۔ شادی بھی دوبارہ کی لیکن ہر سال یو مِ آذادی مجھے میرے فیملی کی یاد دلا تا ہے ۔میری بیٹی میٹھی میٹھی با تیں کر نے لگی تھی۔بہت یا د آ تی ہیں۔وہ یہ سب با تیں کر تے ہو ئے کبھی جذ با تی بھی ہو جا تے ۔آج جب ان کی وفا ت کی خبر سنی تو ہمیںیہ یا دیں تا زہ ہو گئیں ۔
وقت نے کروٹ لی ،عذ را نقوی انڈیا چلی گئیں۔وہا ں سے کچھ ہی ما ہ بعد ہمیں ان کے شو ہر ڈاکٹر پر ویز کے انتقال کی خبر ملی ۔اہلِ ریا ض اس صد مے کو ابھی تک نہیں بھلاپا ئے ۔مشکور حسین یاد کی کمی مملکت میں ہمیشہ محسوس ہو تی رہے گی ۔وہ ادبی حلقو ں کے رو حِ روا ں تھے ۔ان کی تصا نیف میں جو ہر اندیشہ ،دشنام کے آئینے میں ،اپنی صورت آپ ،بات کی او نچی ذات ، لا حو ل ولا قوۃ ،ستا رے چہچہا تے ہیں ،مطا لعہ انیس کے نا زک مرا حل ، میںاردو ہو ں ، غا لب نکتہ جو ، وقت کا استخا رہ ،ستم ظریف اور ممکنا تِ انشا ئیہ شامل ہیں ۔
شعری مجمو عو ں میں پر ستش ،پر دا خت ،بر دا شت ،عر ضدا شت اور نگہداشت شا مل ہیں ۔ان کی ان ادبی کا و شو ںکے علاوہ بھی مز یدجا ری رہیں ۔انہو ں نے وا قعہ کر بلا پر بھی شا عری کی ۔مملکت کے ادبی حلقو ں میں ان کی شا عری کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا تا رہے گا ،یہا ں کچھ
اقتباس حا ضر ہے ،
یو نہی فریبِ نظر کی طناب ٹو ٹتی ہے
قدم بڑ ھا ئیے مو جِ سراب ٹو ٹتی ہے
جہا ں چٹکتا ہے غنچہ ز مینِ عا لم پر
وہیں پہ تشنگیء آ فتاب ٹو ٹتی ہے
نقاب اٹھا ئو تو ہر شے کو پا ئو گے سا لم
یہ کا ئنات بطورِ حجاب ٹو ٹتی ہے
درونِ آب سنورتے ہیںصد حریم گہر
کنار بحر جو محراب آب ٹو ٹتی ہے
مکا شفا ت کے ٹکڑے ہیںذہن کے اوراق
کتاب اتر تی نہیں ہے کتاب ٹو ٹتی ہے
بس ایک آن میں کھلتا ہے قفل دریا کا
بس ایک آن میں قیدِ حباب ٹو ٹتی ہے
ہیں اس شکست میں خلق جدید کے اسرار
حقیقت آج بھی ہمراہ خواب ٹو ٹتی ہے
کما ل شے ہے کمر بھی حسینہ ء غم کی
جلو میں لے کے کئی انقلاب ٹو ٹتی ہے
مشکور حسین یاد کو حکو متِ پا کستان نے ’ صدار تی تمغہ برا ئے حسنِ کار کر د گی سے نوا ز۔ان کی تصنیف آ ذادی کے چراغ کے بے شمار ایڈیشن
شا ئع ہو چکے ہیں ۔آخر میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ ،
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص ،سارے شہر کو ویران کر گیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭