Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جھڑوس البلاد‘‘

شہزاد اعظم  
اس میںکسی شک و شبے کی گنجائش نہ کبھی تھی، نہ ہے اور نہ ہی شاید ہو سکے گی کہ شہر کراچی پاکستان کا پہلا دارالحکومت اورسب سے بڑا شہر ہے۔ اس کو ’’شہرانِ پاکستان‘‘کی ’’دلہن‘‘ قرار دیا جاتا ہے ۔ ادبی زبان میں اس اعزاز کو ’’عروس البلاد‘‘ کا نام دیا جاتا ہے مگر انتہائی دلی افسوس، قلق اور دکھ کے ساتھ اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے ہمارا دل ’’4،4‘‘ آنسو روتا ہے کہ گزشتہ 2ڈھائی دہائیوں سے اس ’’دلہن‘‘ کی نہ تو مانگ سنواری گئی، نہ اس کی زلفوں کوحناسے آشنا کیا گیا،نہ اس کی چوٹی میں پھولوں کے گجرے گوندھے گئے، نہ اس کا فیشیئل کیاگیا، نہ اس کی ویکسنگ کی گئی، نہ پلکنگ ہوئی ، نہ تھریڈنگ پر توجہ دی گئی، نہ اس کے مینی کیور کو در خور اعتناء جانا گیا ، نہ اس کے پیڈی کیور پر توجہ دی گئی،یہاںتک کہ اس کا منہ ہاتھ بھی نہیں دھلایاگیا۔انجام کاراس دلہن کا جمال رو بہ زوال ہوا، اس کا چہرہ اپنوں کی بے اعتنائی کے غم سے نڈھال ہوا،اس کی عظمت کا ہر پرتَو پامال ہوا،اس کا ہر نغمۂ جاں فزا بے تال ہوا، ا س کے ہر ہر گوشے میں امن کا کال ہوا،پھر یوں ہوا کہ شہر نے ایک کروٹ لی، کچرے کی حکمرانی ہوئی، کیچڑ کی جاودانی ہوئی ، کھڈوں کی فراوانی ہوئی، اس شہر کے باسیوں کی بے سرو سامانی ہوئی اور وہ دن بھی چشم فلک نے بالآخر دیکھ لیا کہ زبانِ ادب میں عروس البلادکااعزاز پانے والا یہ شہر’’ زبان ِ بے ادبی‘‘ میں اپنے ماتھے پر’’جھڑوس البلاد‘‘ کاکلنک لگوا بیٹھا ہے۔
کل ہی کی بات ہے ، ہمیں چند ناگزیر اشیائے فرحت درکار تھیں چنانچہ ہم اپنی انتہائی قریبی اورمعتمد شخصیت کی ’’ڈرائیوری‘‘ میں موٹرسائیکل پر چڑھ کر شہر میں گھومنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے۔ہم نے’’شوفر ڈریون‘‘ موٹرسائیکل کا بندوبست اس لئے کیا تھا کیونکہ ہماری ایک ٹانگ میں درد تھا، موٹرسائیکل کو کک لگانا، بریک کے لئے پنجے کا استعمال کرنا، موٹرسائیکل کو سہارا دینے کیلئے اپنا پائوں سڑک پر رکھنا ہمارے لئے امکانی حدود سے باہر تھا ۔ہم نے پاپوش نگر سے حیدری جانے کا قصد کیا۔علاقے کے معروف قبرستان کے ایک کونے سے ہم جیسے ہی سڑک پر مڑے ، اَن گنت کھڈوں نے ہمارافقید المثال استقبال شروع کر دیا ۔ان کھڈوں میں بھی ہمیں اپنی شبیہ دکھائی دی کیونکہ جس طرح ہم22کروڑ پاکستانی ایک وطن، ایک زبان اور ایک حکمران ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں، اسی طرح یہ کھڈے بھی ایک سڑک ، ایک جیسا نقصان اور ایک ہی نگران رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے بالکل مختلف۔کوئی کم گہرا ہے تو کوئی زیادہ، کوئی خشک ہے تو کوئی آبِ غلیظ سے لبالب بھرا ہوا،کوئی گڑھے کی حدود سے نکل کرخود کو کھائی کہلوانے کے زعم میں مبتلا محسوس ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شہر کراچی کی سڑکوں پرپائے جانے والے 22کروڑکھڈوں میں ہم آہنگی، یک رنگی اور اتفاق کا فقدان ہے۔ان اوصاف کے باعث یہ کھڈے ،یقین جانئے ،ہمیں اپنے وجود کا استعارہ لگ رہے تھے۔ ہماری موٹر سائیکل کے دونوں پہئے یکے بعد دیگرے ان کھڈوں سے گلے مل کر آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ ان جھٹکوں کے باعث ہمیں عجب قسم کی ’’گڑھگڑاہٹ‘‘ کا سامنا کرنا پڑا۔ جب یہ پہئے کھڈوں سے معانقہ کرتے تو ہمارا سارا وجود اس طرح جھنجوڑا جاتا جیسے کوئی افتاد کسی قوم کے مردہ ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے ۔ہم نے اپنے ’’شوفر‘‘ سے کہا کہ بائیک کو اس انداز میں چلائیے کہ ہمیں ناقابل فراموش جھٹکوں سے نبردآزما ہونے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔ یہ سن کر ’’شوفر‘‘ نے جواب دیا کہ بڑے صاحب!کوئی سے دو مسلسل کھڈوں کے درمیان فاصلہ موجود ہی نہیں ۔پچھلا پہیا ایک گڑھے سے اسی وقت نکلتا ہے جب اگلا پہیا دوسرے گڑھے میں داخل ہو چکا ہوتا ہے ۔اسی دوران دو رویہ سڑک پر سامنے سے آنے والی چنقچی کا ایک پہیا آبِ غلیظ سے معمور کھائی نما کھڈے میں غوطہ زن ہوا توارشمیدس کے اصول کے مطابق آبِ غلیظ میں اچال کی قوت پیدا ہوئی اور اس پہئے کے حجم کے برابر بدبودار مائع ہماری جانب یوں مترشح ہوا جیسے کسی آبی توپ سے ہم پر’’حملۂ آب‘‘ کیا گیا ہو۔ قبل اس کے کہ ہم اس چنقچی والے کو اخلاقیات کی دہائی دیتے ، ہمارے شوفر نے ہمیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ’’بڑے بھیا! ابھی ہوا سے یہ پانی خشک ہو جائے گا ، اسے جھاڑ لیجئے گا، ٹینشن لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہاں سے نکل کر ہم عبداللہ کالج والی ’’چورنگی‘‘ پر پہنچے تو ہمارے ’’ای این ٹی ‘‘ یعنی ’’ایئر، نوز اینڈ تھروٹ‘‘ یعنی ’’کان ، ناک ، گلا‘‘کا سارا نظام زیر عتاب آگیا۔ گرد اتنی کہ جیسے لاہور میں ’’اسموگ‘‘ کے دوران ہم نے حد نگاہ ’’صفر‘‘ ہونے کا مشاہدہ کیا تھا، بالکل ایسے ہی کراچی کے اس علاقے میں ہم نے گرد کے باعث حد نگاہ صفر ہوتے دیکھی۔سڑک ناپختہ تھی جس پر اس انداز کی ناہمواری موجود تھی گویا سڑک پر بے شمار، قطار در قطار ’’چشمِ گربہ‘‘ یعنی ’’کیٹ آئیز‘‘نصب ہوں، انجام کار ہماری موٹرسائیکل دھردھراہٹ کا شکار ہوگئی۔ کچھ فاصلہ گزرا تو ہمارے شوفر نے بریک لگائی، دھردھراہٹ ناپید ہوئی تو فوراً ہی ہماری ریڑھ کی ہڈی کے آخری3مہروں میںاذیت ناک ٹھوکا لگا ۔ ہمارے منہ سے کرب انگیز چیخ برآمد ہوئی ۔ ہم نے شکوہ کرنے کیلئے الفاظ یکجا کئے ہی تھے کہ ہمارا شوفر گویا ہوا کہ بھیا جی!یہ غیر معیاری اسپیڈ بریکر تھا ۔ ساتھ ہی اس نے مژدہ یہ سنایا کہ ایسے ہی 8’’بریکرز‘‘ مزید ہیں۔ یوں کچھ فاصلے تک ہم اورہماری بائیک ’’ٹھک ٹھکاہٹ ‘‘ کا سامنا کرتی رہی۔بائیک نے مرکزی شاہراہ پر پہیا رکھتے ہی فراٹے بھرنے شروع کر دیئے۔ ہم نے سکھ کا سانس لینے کی سوچی تو اچانک فضا میں کھڑاک کی آواز بلند ہوئی اور اس کے اختتام سے قبل ہی ہمارے منہ سے ’’اوئے ہوئے‘‘ جیسے شکایتی الفاظ نمودار ہوئے اور اگلے ہی لمحے اس صدارے کھڑاک میں عارضی تسلسل بھی آیا ، ہم چیختے رہے اور بائیک ’’کھڑکھڑاہٹ ‘‘ کا سامنا کرتی آگے بڑھتی گئی۔ ہم نے احتجاج کیا تو شوفر نے کہا کہ بارش کے پانی کی نکاسی کیلئے شاہراہوں پر چورنگیوں کے قریب بڑے خربوزے کی جسامت کے سوراخ کئے گئے تھے، ان پر سے جب کوئی ایسی موٹر سائیکل گزرتی ہے جس کا اسٹینڈ لٹکا ہوا ہو، کیریئر بھی ناکارہ سا ہواور پچھلے پہئے کے شاک ابزاربربھی ڈھیلے ہوں تو فضا میں کھڑاک کی صدا بلند ہوتی ہے۔یوں ’’اَپ اینڈ ڈائون جرنی ‘‘ میں سبق آموز’’گڑھگڑاہٹ، دھردھراہٹ،ٹھک ٹھکاہٹ اور کھڑکھڑاہٹ ‘‘کاسامنا کرنے کے بعد بالآخر ہم گھر پہنچ گئے۔ موٹر سائیکل پر عروس البلاد کی سیر کرنے سے قبل اور بعد کی کیفیات میں صرف اتنا فرق تھا کہ پہلے جب ہم گھر سے نکلے تو جسم کی 206 ہڈیوں میں سے صرف ایک میں دکھن تھی، وہ رو دھو رہی تھی، باقی 205شاداں و فرحاں تھیں اور جب سیر کر کے واپس پہنچے تو جسم کی 205ہڈیاں رو دھو رہی تھیںاور صرف ایک شاداں وہ فرحاں تھی۔
  یقین جانئے، ہم ان خوش قسمتوں میں شامل ہیں جنہوں نے کراچی سے اس وقت محبت کی پینگیں بڑھائی تھیں جب یہ دلہن بھی نہیں بنا تھا۔ آج شہروں کی اس دلہن کودیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس کی عمارتیں، اس کے درخت، اس کے درودیوار ، اس کے نقش و نگار سب گردآلود ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ شہرصفائی ستھرائی سے ناآشنا ہے۔ کل ہی کی بات ہے ، ایک فطین کمسن ، جو دور دراز کے رشتے میں ہمارا ’’پوتا‘‘ ہوتا ہے، اس نے ہمیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ ’’دادا! آپ کاکراچی اب شہرو ں کی دلہن نہیں بلکہ’’ شہروں کی مطلقہ‘‘ہو کر رہ گیا ہے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں