Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہشتگردوں کے آثار قدیمہ پر حملے

بدھ 29نومبر 2017ءکو سعودی اخبار ”عکاظ’“ میں شائع ہونے والے کالم کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
دہشتگردوں کے آثارِ قدیمہ پر حملے
سعید السریحی۔ عکاظ
دہشتگرد جماعتوں سے یہ توقع فضول ہے کہ وہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں واقع آثار قدیمہ کی سلامتی کا دھیان رکھیں گے۔ شام، عراق اور ان سے قبل افغانستان میں یہی سب کچھ ہم دیکھ چکے ہیں۔ دہشتگرد تنظیموںسے آثار قدیمہ کے تحفظ کی توقع اس لئے بھی بے معنی ہے کیونکہ یہ جماعتیں ان علاقوں کے لوگوں ، تاریخ ، ثقافت اور وسائل کی پروا نہیں کرتیں تو آثار قدیمہ کا خیال کیونکر رکھ سکیں گی۔ دہشتگرد تنظیموں کے یہاں ہر چیز بے معنی ہے۔ انکے یہاں ان کے اہدا ف اور مقاصد او رانکا ایجنڈا ہر شے سے بالا ہے۔ یہ جماعتیں اپنے نظریات لوگوں پر تھوپنے کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہیں۔
دہشتگرد تنظیموں نے آثار قدیمہ لوٹ کر برآمد کئے۔ بلیک مارکیٹ کے تاجروں کو فروخت کئے۔ غالباً دہشتگردی کی سرگرمیوں، فنڈنگ اور دہشتگردی کی اسکیموں کو مطلوب بجٹ فراہم کرنے کیلئے دہشتگرد تنظیمیں اسی دھندے پر انحصار کررہی ہیں۔ انہیںہتھیار، دھماکہ خیز اشیاءاور ضمیر خریدنے کیلئے اچھا خاصا بجٹ درکا ر ہوتا ہے جسے وہ آثار قدیمہ اور نوادر فروخت کرکے حاصل کررہی ہیں۔
جو ملک بھی دہشتگردی کا شکار ہورہا ہے، اسے نہ صرف یہ کہ انسانی اور مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ اسے قومی تشخص تشکیل دینے والے عناصر گنوانے کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ آثار قدیمہ جو سیکڑوں بلکہ ہزاروں برس کی یادیں محفوظ کئے ہوئے تھے اور مختلف ممالک کے لوگ نسل در نسل انکی حفاظت جی جان سے کررہے تھے، وہ ایسی دہشتگرد تنظیموں، جماعتوں اور گروپوں کے ہاتھوں تباہ وبرباد ہوگئے جنہیں نہ انکی قیمت معلوم اور نہ ہی یہ پتہ کہ وہ آثار قدیمہ ان سے کوڑیوں کے دام خریدے جارہے ہیں۔ بلاشبہ دہشتگرد تنظیمیں امت کی حقیقی تاریخ کو مٹا کر وہ تاریخ رقم کررہی ہیں جسے وہ اور صرف وہ ہی دیکھنا چاہتی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
مزید پڑھیں:۔ معزز شہزادے.... لی کوانگ یو کا قصہ

شیئر: