Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

10سال کی عمر میں ملاسبق پوری زندگی کیلئے کافی ہے

اب ہمارے سناٹے میں آنے کا وقت تھا کیونکہ کھانے کے وقت ان کا ذناٹے دار تھپڑ کھا کر ہم ذناٹے سے سناٹے میں آگئے،سبق نے زندگی کا سب سے بڑا سبق ذہن نشین کروادی، ہمیں اسکول میں داخلے کی چنداں ضرورت نہ تھی
اردونیوزڈیسک
اگر سب لوگ مل کر غلطیاں یا گناہ کریں گے تو نہ تو وہ غلطی صحیح ہوتی ہے اور نہ ہی گناہ، میرے بچے! یہ سوچ کہ سب ایسا کرتے ہیں تو اگر میں بھی کروں تو کیا فرق پڑے گا؟؟ یہ سوچ ہی قوموں کو تباہ کرتی ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پوری پوری قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ان کے اجتماعی گناہوں کی پاداش میں ۔ وہ بچے نہیں کہ سب ہی تو غلط راہ پر چل رہے تھے اس لئے ان کی غلطیاں قدرت کی نظروں میں غلطی یا گناہ نہیں رہتیں۔ اپنے حصے کی نیکی ضرور کرو ، کیونکہ تم سے تمھارے اعمال کی پوچھ گچھ ہو گی، تم وہ بنو جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ نیک لوگوں کے دم سے دنیا قائم ہے۔ یہ سبق ہم نے10 سال کی عمر میں اپنی امی سے سُنا جب ہم نے اسکول کی چھوٹی سے کینٹین سے چیز لے کر رش کا فائدہ اُٹھایا تھا اور کینٹین کی آنٹی کو پیسے نہیں دیئے تھے۔ یہ کام تقریباً ہماری سب جاننے والی لڑکیوں نے مختلف اوقات میں انجام دیا تھا اور ہم خوشی خوشی چُھٹی ٹائم دوستوں کے ہجوم میں کھڑے ہو کر اپنی پہلی کامیاب کارروائی کے بارے میں فخر یہ سنا رہے تھے اور تمام دوستوں (اس زمانے میں سب جاننے والے دوست ہی ہوتے ہیں۔ ہائے بچپن اور بائے بائے بچپن) سے داد وصول کررہے تھے یہ دیکھے بغیر کہ ہمارے بالکل پیچھے اماں کھڑی تھیں اور حسب معمول ہمیں لینے آئی تھیں مگر خلاف معمول سناٹے کی کیفیت میں کھڑی تھیں۔ یہ سناٹا اُس وقت ٹوٹا جب وہ ہمیں گھر لے کر پُہنچیں۔ اب ہمارے سناٹے میں آنے کا وقت تھا کیونکہ کھانے کے وقت ان کا زناٹے دار تھپڑ کھا کر ہم ذناٹے سے سناٹے میں آگئے۔ اور پھر پیار سے سمجھائے گئے سبق نے زندگی کا سب سے بڑا سبق اور نصیحت ذہن نشین کروادی۔ آج یہی سبق جب میں اپنے بچوں حُذیفہ اور حُنین کو سمجھاتی ہوں تو سر فخر سے بلند ہوتا ہے کہ میرے بچوں کو یہ سبق مجھے تھپڑ مار کر نہیں سمجھانا پڑا ۔ ان کی آنکھوں میں نیکی کی روشنی اور چمک ان کے مستقبل اور ہماری آخرت کی روشنی نظر آتی ہے۔ واقعی والدین کی نیکی اولاد ہی نہیں بلکہ اولاد کی اولاد کے راستے بھی جگمگا دیتی ہے ۔ ارے۔ ٹھریئے!! آپ سوچیں گے کہ ہم نے اپنا بچپن 10 سال کی عمر سے شروع کیا اور اتنی جلدی اپنے بچوں تک پہنچ گئے۔ یہ تو فلمی کہانی لگتی ہے کہ ہیروبچپن میں گھر سے نکلا، وقت کا پہیہ چلا اور ہیرو پچپن (55) کی عمر میں گھر میں داخل ہوا ۔ موٹے سے پیٹ پر تاریخ کی کتاب اور عمرانیات کا رجسٹر ٹکاہوا اور لبوں پر یہ تاریخی کلمات کہ’’ماں! میں ڈاکٹر بن گیا ہوں ‘‘ اور ایک 21 سالہ دوشیزہ سر پر سفیدہ لگی ہوئی نمودار ہوئی اور 55 سالہ ہیرو کے سر پر ہاتھ پھیر کر خوشی کا اظہار کرتی ہے ۔ تو جناب!! ہم شروع سے شروعات کرتے ہیں کہ ہم کب کہاں اور کیوں پیدا ہوئے۔ ہم کراچی کے ایک پیارے اور سرسبز علاقے ناظم آباد میں اپنی پیدائش کے دن پیدا ہوئے۔ تاریخ تو یاد ہے مگر سن؟؟؟ دراصل سَن کا سوچ سوچ کر دماغ ہی سُن ہو جاتا ہے۔ آج بھی تاریخ کے مضمون میں ہمیں سنۂ ہی سب سے بُرے لگتے ہیں تو صاحبو!!گھر میں ہمارا چھٹا نمبر تھا مگر ہم بالکل بھی ’’چھٹے‘‘ہوئے نہیں تھے ہمیں دیکھ کر ہماری اماں خوش اور ابا انتہائی خوش تھے ۔ ہماری شکل ابا جیسی اور عقل ہمارے جیسی تھی ۔ جس کا علم ہمارے والدین کو بہت جلد ہو گیا۔ اور جیسا کہ قارئین آپکو معلوم ہی ہو گا کہ عِلم بڑے دُکھ دیتا ہے تو اس بات نے ہمارے والدین کو بڑا دُکھی کیا کہ ہم اپنی عقلمندی کے باعث بڑے بڑوں کے کان کاٹ رہے ہیں۔ دُکھ سے زیادہ انہیں یہ فکر لاحق تھی کہ کہیں کان کاٹتے کاٹتے ہم ان کی ناک تک نہ پہنچ جائیں مگر ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا خیر ہماری عقل کے باعث گھر کے لوگ بھی ہمارے بڑے بہن بھائی اپنے کانوں کو چھپائے کھپائے پھرتے ۔ ایک اور خوبی یہ تھی کہ ہم بچپن میں کسی سرکاری افسر کی طرح موٹے تھے اور ہمیں دیکھ کر لوگ خواہ مخواہ ہمارے والد کی ’’اوپر کی آمدنی کے بارے میں مشکوک ہو جاتے۔ ہمارے والد ایک شریف النفس اور معصوم و سادہ دل انسان تھے۔ وکالت ان کا آبائی پیشہ تھا وہ اس طرح کہ دادا اور پردادا بھی وکیل تھے۔ والد کی طرح والدہ بھی بے حد نیک اور متقی تھیں۔ اور خُدا ترس تو اسقدر تھیں کہ ہر کسی کی دامے درمے سخنے مدد کرنے کو ہر وقت آمادہ رہتیں۔ مہمان نوازی ان پر ختم تھی۔ کم گو اور عبادت گُزار اتنی کہ ہماری دادی کے بقول تمھاری ماںتو زندہ ولی ہے۔ ہائے !! یہ پیاری اور مشفق ہستیاں اور ہمارے معصوم اور سادہ بزرگ !!! قارئین ! آپ ہماری بات سے اتفاق ضرور کریں گے کہ ہمارے بزرگ روحانی شخصیات تھے،ان کے دم قدم سے برکتیں ہی برکتیں تھیں، ریا کاری، نفرت، نمودنمائش ، حسد اور کینہ جیسی آلائشوں سے ان کے دل پاک تھے ، ارے! آج کل کے تو بچے بھی اتنے معصوم نہیں ہوتے جتنے یہ بزرگ معصوم اور سادہ تھے، کیا ہم ان کے جیسے بزرگ بن سکتے ہیں؟؟ وہ متانت اور بُردباری ہم میں پیدا ہوسکتی ہے؟؟ کیا ہم میں ان جیسی قوت برداشت اور بُردباری ہے؟ ہم ایسی وسعت قلبی اور کشادہ پیشانی کے رویئے کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟؟ نہیں، نہیں اور بالکل نہیں، ہم تو اپنے بزرگوں کے قدموں کی دھول بھی نہیں ہیں۔ہم مادہ پرست دور کے انا پرست لوگ ہیں، ہماری ’’میں‘‘ نہ تو دوسروں کو خوش رہنے دیتی ہے اور نہ خود ہم کو ۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے (آمین)۔ جی!! تو بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ہم تھوڑے سے اور بڑے ہوئے تو گھر والوں کو ہماری تعلیم کی فکر لاحق ہوئی اور ایک اچھے سے اسکول کی تلاش شروع کر دی گئی ، حالانکہ ہماری رائے میں ہمیں اسکول میں داخلے کی چنداں ضرورت نہ تھی ۔ ہم گھر میں پڑے پڑے بھی پڑھ سکتے تھے۔ہم اسکول کا نام سُنتے ہی غُصے میں آجاتے تھے اور ہماری بھوک پیاس اُڑ جاتی تھی ۔ ابھی تک تو ہم نے اپنے بڑے بھائی بہنوں کو تنگ کیا تھا۔ اب ان کی باری تھی ، جونہی ہم کچھ کھانے پینے بیٹھتے کوئی بھی بھائی بہن آواز لگاتا’’اسکول‘‘ اور ہم ہانپتے کانپتے کسی کونے کھدرے میں جا کر چُھپ جاتے تھے۔ بعد میں اپنی حالت کا سوچ کر غُصے سے لال پیلے ہو جاتے اور اپنی کمین گاہ سے ( کمین گاہ مورچے کو کہتے ہیں ہم اسے اپنی مناسبت سے کمین گاہ نہیں کہ رہے کیونکہ ہم زرا بھی کمینے نہیں ہیں) تو ہم منہ باہر نکال کر غُصے کا اظہار کیا کرتے حالانکہ سوچا جائے تو اسکول کے نام سے تو بندے کو ’’کول‘‘ ہونا چاہئے؟؟ آخر کار گھر والوں کی کو شش رنگ لائی اور ایک اچھے سے اسکول میں ہمارا داخلہ ہو گیا۔ ہمارا اسکول میںپہلا دن بڑا یادگار اور حسین تھا۔ گھر میں ہمیں ایک شہزادی کی طرح تیار کیا گیا۔ سب بھاگ بھاگ کر ہمارے کام کر رہے تھے ،بڑی باجی بیگ تیار کر رہی تھیں، اماں ناشتہ بنا رہی تھیں ، بڑے بھائی بال بنا کر اس میں ربن لگا رہے تھے اور چھوٹے بھائی جان موزے جوتے پہنارہے تھے ۔اماں نے ناشتہ بنایا اور لنچ باکس تیار کیا اور ہمیں چلنے کا اشارہ کیا تو اس چھوٹی سی عمر میں بھی ہمیں یوں لگ رہا تھا گویا کہ ہمیں قربانی کے لئے تیار کر کے لے جایا جا رہا ہے، ہم دُکھی دل سے امی کی انگلی پکڑ کر اسکول میں داخل ہوئے تو لگا ہم پر جنت کا دروازہ وا ہو گیا ہے ارے!! ہم پہلے کیوں نہیں آگئے یہاں پر؟؟۔۔۔ ہم اسکول جاتے ہی ایسے بدل گئے جیسے ووٹ لینے کے بعد اُمیدواروں کے رویئے ۔۔۔۔ اسکول میں ہمارا دل بڑی جلدی لگ گیا۔ بہت سی دوستیں بن گئیں بلکہ پوری کلاس ہی دوست تھی۔ ہم نے بھی جی جان سے پڑھائی شروع کر دی اور ہم نے تمام نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیناشروع کر دیا بہت جلد ہم اسکول کی ذمہ دار شخصیت کے طور پر جانے گئے یعنی اسکول میں ہونے والی ہر سرگرمی کا ذمہ دار ہمیں گردانا جاتا اور ہر شرارت میں ہمارا ہاتھ ڈھونڈ لیا جاتا جو اتفاق سے مِل بھی جاتا ۔ مثلاً ایک بار ہم بائیو لیب میں گئے تو ایک ڈھانچے پر نظر پڑی ہمیں بڑا ترس آیا کہ بچارہ !! کتنی مُدت سے ایک ہی جگہ پڑا ہے، اسے بھی تو اسکول میں گھومنے پھرنے کا حق ہے اور اس کا دل بھی تو چاہتا ہو گا کے اسکول کی سیر کرے تو ہم نے ازراہ ہمدردی اسے سائیکولوجی لیب میں رکھ دیا۔ بس اتنا سا قصور تھا ساری باجیاں ہمارے پیچھے پڑ گئیں اور پرنسپل سے شکایت لگا دی حالانکہ ان میں سائیکو قسم کی باجیوں کو ہم بریک میں درخت پر چڑھ کر کھٹی کھٹی کیریاں توڑ کر دیتے تھے۔ ان کے اس رویئے نے ہمارا دل باجیوں سے کھٹا کر دیا۔ ادھر ہم نے اسکول کی مختلف کمیٹیوں میں اپنے پائوں جمانے کی کوشش شروع کر دی جیسے تقریری کمیٹی ، ٹیبلو کمیٹی، سنگنگ کمیٹی ، اسپورٹس کمیٹی وغیرہ اُدھر کسی بھی کمیٹی میںشرکت کے لئے پانچویں جماعت کی طالبہ ہونے کی شرط لگا دی گئی۔
( باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: