اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب پر فضل و کرم اس درجہ ہے اور آپ کے اخلاق عظیمہ اس پائے کے ہیں کہ عقل اس کا احاطہ نہیں کر سکتی
* * * *حافظ محمد ہاشم صدیقی۔جمشید پور،ہند* * *
مالکِ کائنات اللہ رب العزت کے بعد سب سے بزرگ و برتر ، سب سے اولیٰ و اعلیٰ ،حبیب کبریا،امام الانبیا ، فخر رسل ، باعثِ تخلیق ہر جز و کل ، خیر البشر، محسنِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ جانِ رحمت کی بے مثال شخصیت پر بے شمارکتابیں لکھی گئیں، مقالات اور مضامین سپردِ قلم کئے گئے اور کئے جارہے ہیں۔آنے والی صبحِ قیامت تک لکھے جاتے رہیں گے۔ شعرا نے قصائد اور نعتوں کے ذریعہ آپ سے محبت کے اظہار کو باعثِ سعادت و سرفرازی سمجھا ہے مگر سچ اور حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا اور حق ادا بھی کیسے ہو؟ محمد الرسول اللہ کی عظمت و رفعت خدا وند کریم کا ایسا عطیہ ہے جو انسان کے تصور سے ماورا ہے ۔ عاجز ہوکر انسان کو یہی کہنا پڑتاہے
لا یمکن الثناء کماکان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
آپ کے اوصافِ جمیلہ ، آپ کے خلقِ عظیم ، حسنِ کردار اور مبارک تعلیمات کا تذکرہ قرآن کریم نے بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے اور آپ کے اخلاق کو عظیم فرمایا،اور فرمایا: حضور کا خلق قرآن ہے۔وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم ’’اور بے شک تمہاری خُو بڑی شان کی ہے۔‘‘( القلم4)۔
معلوم ہوا کہ کوئی بھی حضور کے اخلاق اور اوصاف کو کما حقہ بیان نہیں کر سکتا ۔
آپ عظیم ہیں۔خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور دنیا کی تمام نعمتوں کو قلیل فرمایا ہے۔ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْل’’دنیا کا مال و متاع قلیل ہے۔‘‘
اس کے باوجود کوئی شخص دنیا کی نعمتیں شمار نہیں کر سکتا۔ فرمانِ الٰہی ہے: وَاِنْ تَعُدُّ وْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُو ہَا’’تم ہماری دی ہوئی نعمتوں کو شمار نہیںکر سکتے۔‘‘
جب قلیل کو شمار کرنا غیر ممکن ہے تو جسے رب تعالیٰ عظیم کہے اس کے اوصاف کریمانہ شمار کرنے کی کس کو طاقت ہے۔
تیرے خُلق کو حق نے عظیم کہا ،تیری خَلق کوحق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ،تیرے خالق حسن و اداکی قسم
وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا، نہ کسی کو ملے ،نہ کسی کو ملا
کہ کلام مجید نے کھائی شہا تیرے شہروکلام و بقا کی قسم
آپ کے اخلاقِ کریمانہ:
خلقِ عظیم وہ نعمت اعلیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تعلیم اپنے حبیب پاک کو اس آیتِ مبارکہ میں فرمائی ہے:خُذِالعَفْوَ وَأمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنْ ’’درگزر کی عادت اپناؤ،نیکی کا حکم دو اور جاہلوں کو منھ نہ لگاؤ۔‘‘( الاعراف199)۔
حدیثِ پاک میںہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی نبی اکرم نے حضرت جبرئیل امین علیہ السلام سے اس بات کی وضاحت چاہی ۔ انھوں نے فرمایا : اُوْتِیْتُ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ اَنْ تُصَلِّی مَنْ قَطَعَکَ وَ تُعْطِیَ مَنْ حَرَمَکَ وَتَعْفُوْ عَمَّنْ ظَلَمَکَ’’آپ کو بہترین اخلاق عطاکئے گئے ہیں ،جوآپ سے قطع تعلق کرے اسے اپنے ساتھ بلائیں، جو آپ کو نہ دے آپ اسے عطا کریں،جو آپ پر ظلم کرے اسے آپ معاف کردیں۔‘‘
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب پر فضل و کرم اس درجہ ہے اور آپ کے اخلاق عظیمہ اس پائے کے ہیں کہ کوئی بھی عقل اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔
سیرت طیبہ کے مطالعہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکاراہوتی ہے کہ نبی اکرم نے ا ن مراتب عالی کو آخری حد تک پہنچا دیا جس کے آگے بڑھنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔ اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُ تَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقْ’’مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے۔‘‘( سنن ابی داؤد)۔
حضرت حسنین نور قدسرہ فرماتے ہیں: نبی اکرم کا خُلقِ عظیم کیوں نہ ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دلِ اقدس پر اخلاقِ عظیم و اخلاقِ کریمہ کے انوار کی تجلی فرمائی ہے۔
علامہ اسمٰعیل حقی قد سرہ فرماتے ہیں: آپ کا خلق عظیم ہے، کیونکہ آپ عظیم ذات کے مظہر ہیں اس لئے عظیم کا خلق بھی عظیم ہے۔
سب سے بہتر اور جامع تفسیر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بیان فرمائی ہے۔حضرت سعد بن ہشام فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا ، اے ام المؤنین!مجھے نبی اکرم کے خلق کے بارے میں بتائیں۔انھوں نے فرمایا :کیاتم قرآن پاک نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا :میں پڑھتا ہوں۔انھوں نے فرمایا :فَاِنَّ خُلِقَ نَبِیِّ اللّٰہِ کَانَ القُرْآن’’نبی کا خلق قرآن ہے۔‘‘(صحیح مسلم ، کتاب صلاۃ مسافرین، باب صلاۃ الیل)۔
ایک اورروایت میں ہے ۔کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنْ۔یعنی سورہ مؤمنون کی ابتدائی آیتیں پڑھو،یہ آپ کا خلق ہے(مسلم بن الحجاج قشیری، مسلم شریف)۔
نبی کریم کا عفو وصبر کی تعلیم:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیں ۔ آپ تشریف فرما تھے(رسول اللہ اس شخص کے مسلسل گالیاں دینے پر اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے صبر کرنے اور چپ رہنے پر) تعجب اور تبسم فرمارہے تھے، پھر جب اس آدمی نے بہت ہی زیادہ گالیاں دیں(اور زبان کو روکا ہی نہیں ) تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس کی بعض باتوں کو اس پر الٹ دیا اورکچھ جواب دیا تو رسول اللہ ناراضگی کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر چل دیئے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس بات کی فکر لاحق ہوئی اور وہ جلدی سے معذرت کیلئے اور حضور کی ناراضگی کا سبب معلوم کرنے کیلئے آپ کے پیچھے چلے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ حضور کے پاس پہنچے اور عرض کیا :یا رسول اللہ (یہ کیابات ہوگئی کہ) وہ شخص مجھے گالیاں دیتارہا اورآپ وہاں تشریف فرمارہے، پھر جب میں نے کچھ جواب دیا تو آپ ناراض ہوکر چلے آئے؟ حضور نے ارشاد فرمایا:جب تک تم خاموش تھے اس وقت تک تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو تمہاری طرف سے جوابدہی کر رہاتھا، پھر جب تم نے خود جواب دینا شروع کردیا تو وہ فرشتہ تو چلا گیا اور شیطان بیچ میں آگیا(کیونکہ اسے امید ہوگئی کہ وہ لڑائی کو اور آگے بڑھا سکے گا)طاس کے بعد آپ نے فرمایا: اے ابو بکر! 3 باتیں ہیںجوسب کی سب بالکل حق ہیں:٭پہلی بات یہ کہ جس بندہ پرکوئی ظلم و زیادتی کی جائے اور وہ محض اللہ عز و جل کے لئے اس کودرگزر کرے(اور انتقام نہ لے) تو اللہ تعالیٰ اسکے بدلے میں اس کی بھرپور مدد فرمائے گا(دنیااورآخرت میں اس کو عزت دے گا)٭دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص صلہ رحمی کے لئے دوسروں کودینے کا دروازہ کھولے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض اس کو اور بہت زیادہ دے گا اور ٭ تیسری بات یہ ہے کہ جو آدمی (ضرورت سے مجبور ہوکر نہیں) اپنی دولت بڑھانے کیلئے سوال اور گداگری (بھیک مانگے گا) کا دروازہ کھولے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی دولت کو کم کر دیگا(مسند احمد،مشکوٰۃ باب الرفق)۔
انصاف کے ساتھ ظلم کا بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے لیکن فضیلت و عزیمت کی بات یہی ہے کہ بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود محض اللہ کیلئے معاف کردے تو یہ ثواب و اجر کی بات ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے : اللہ کی قسم!رسول اللہ نے اپنے ذاتی معاملہ میں کبھی کسی کو سزا نہیں دی، لیکن جب اللہ کی حدود کو کوئی توڑتا تو آپ اس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے سزادیتے تھے(بخاری شریف)۔
رسول اللہ کا عالمی پیغام:
حضرت عبداللہ ا بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا :یا رسول اللہ !میں اپنے خادم (غلام یانوکر) کا قصور کتنی بار معاف کروں؟ آپ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش رہے ۔ اس نے پھر وہی عرض کیا:یا رسول اللہ !میں اپنے خادم کا قصور کتنی بار معاف کروں؟ آپ نے ارشاد فرمایا :ہر روز 70 بار(جامع ترمذی) ۔
سوال کرنے والے کا مقصد یہ تھا کہ حضرت!اگر میرا خادم باربار قصور (غلطی) کرے تو کہاں تک اسے معاف کروں اور کتنی بار معاف کرنے کے بعد اس کوسزا دوں۔ آپ نے جواب دیاکہ اگر بالفرض روزانہ 70 بار بھی قصور کرے تو تم اس کو معاف ہی کرتے رہو۔
آپ کامطلب یہ تھا کہ قصور کا معاف کرنا کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کی حد مقرر کی جائے بلکہ حسنِ اخلاق، عفو ودرگزر اور رحم کا تقاضا یہ ہے کہ اگر بالفرض وہ روزانہ70بار سے بھی زیادہ غلطی کرے تو اس کو معاف ہی کر دیا جائے۔ 70کا عدد تحدید کے لئے نہیں بلکہ تکثیر کے لئے ہے۔ جتنی باربھی ہو قصورمعاف کر دیا جائے۔
آپ کی سیرت و طریقۂ زندگی(Way of life) ہم تمام مسلمانوں کیلئے آخری اور قطعی نمونہ (Last and Final Model) کی حیثیت ہے اور تا قیامت آپ کا اسوہ ہمارے لئے قابلِ عمل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سبھی نہ صرف سیرت رسول پڑھیں بلکہ عمل بھی کریں تاکہ دنیا و آخرت کامیاب ہو۔ آمین ثم آمین۔
لاکھوں کروڑوں درود مصطفی جان رحمت پر۔