Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بابری مسجد کی 25ویں یاد

معصوم مرادآبادی
یاد عام طورپر انسانوں کی منائی جاتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں گزشتہ 25 سال سے ایک ایسی عبادت گاہ کی یادمنائی جارہی ہے جسے ہندو انتہا پسندوں نے طاقت کے غرور میں شہید کردیا تھا۔ یہ عبادت گاہ بابری مسجد تھی جسے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے سپہ سالار میر باقی نے اترپردیش کے ایودھیا ٹاؤن میں 1528 میں تعمیر کرایا تھا۔ تقریباً500 سالہ قدیم یہ عبادت گاہ 6دسمبر 1992کو ایک منصوبہ بند سازش کے تحت زمیں بوس کردی گئی اور اس طرح آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کے سب سے سنگین اور شرمناک جرم کا اندراج ہوا۔
اس سے قبل سنگھ پریوار کی طرف سے بابری مسجد اور مسلمانوں کیخلاف منافرت کی ایک انتہائی خطرناک تحریک چلائی گئی تھی جس کا مقصد بابری مسجد کو ’غلامی کی علامت‘ قرار دیکر صفحہ ہستی سے مٹانا اور اس کی جگہ ایک عظیم الشان رام مندر تعمیر کرنا تھا۔ اسی منافرانہ اور خونی تحریک کی کوکھ سے بھارتیہ جنتاپارٹی کا سیاسی سورج طلوع ہوا اور وہ پارٹی جس کی پارلیمنٹ میں محض 2سیٹیں ہوا کرتی تھیں، 282تک جاپہنچیں ۔ 
آج بھارتیہ جنتاپارٹی نہ صرف مرکز میں برسراقتدار ہے بلکہ ملک کے 18صوبوںمیں اس کی سرکار ہے۔ اقتدار کے اسی نشے میں چور ہو کر حکمراں جماعت کے لوگ ایودھیا میں بابری مسجد کے تمام حقوق غصب کرکے وہاں ایک عظیم الشان رام مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ مستقبل میں ان کی سیاسی پوزیشن مزید مستحکم ہوسکے۔ بابری مسجد کی ملکیت کا معاملہ فی الحال ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیر سماعت ہے اور عدالتی فیصلے کے بغیربابری مسجد کے مقام پر کسی قسم کی تعمیر نہیں ہوسکتی، لیکن فسطائی طاقتیں مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر یا پھر پارلیمنٹ سے قانون سازی کراکے رام مندر کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہیں۔ 
بابری مسجد کی شہادت کے25برس مکمل ہونے پر پورے ملک میں ایک بار پھر احتجاج کی صدائیں بلند ہوئی ہیں۔ مسلمانوں نے جہاں ہمیشہ کی طرح 6دسمبر ’یوم سیاہ‘ کے طورپر منایا تو وہیں فسطائی عناصر نے اسے ’یوم فخر‘ کے طورپر برپا کیا۔ بابری مسجد کی 25و یں برسی مناتے وقت غم واندوہ میں ڈوبے ہوئے مسلمانوں نے ہر جگہ یہی سوال کیاکہ آخر اتنا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود آج تک ان لوگوں کو سزا کیوں نہیں ملی جنہوں نے دن کے اجالے میں ہندوستان کو پوری دنیا میں شرمسار کردینے والے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بابری مسجد کی حفاظت کا حلف نامہ داخل کرنے کے باوجود وہاں قانون ،د ستور اور عدلیہ کی دھجیاں اڑائی تھیں۔ ملک کے سیکولر تانے بانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور ہزاروں بے گناہ انسانوں کی موت کا سبب بنے۔ ظاہر ہے کسی جرم کے قصور واروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے25 برس کا عرصہ کوئی کم نہیں ہوتا لیکن جب انصاف کی مشینری خود انہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہوں جنہوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا تو پھر انہیں سزا کون دے گا۔ جب اس جرم کے قصوروار اقتدار کی مسندوں پر بیٹھے ہوں تو پھر قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی ذمہ داری کون لے گا۔ ملک کی سب سے بڑی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی کو یہ طے کرنے میں 25برس بیت گئے کہ آخر بابری مسجد انہدام میں شامل ملزمان کیخلاف کن دفعات کے تحت مقدمات چلائے جائیں۔ 30مئی 2017کو سی بی آئی نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے روبرو یہ تسلیم کیا کہ بابری مسجد انہدام کیس کے ملزمان کیخلاف سازش رچنے کے الزامات طے کرنے کیلئے اس کے پاس وافر ثبوت موجود ہیں۔ یہ وہی سی بی آئی ہے جس نے 2001میں اڈوانی اور دیگر ملزمان کیخلاف سازش کے الزامات خارج کردیئے تھے اور الٰہ آباد ہائی کورٹ نے بھی اس پر مہر لگادی تھی لیکن اپریل 2017میں سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو سازش کی دفعہ 120Bکے تحت مقدمہ چلانے کا حکم دیا تھامگر تشویشناک بات یہ ہے کہ بابری مسجد کے خلاف سازش رچنے کا یہ مقدمہ ایک ایسے مرحلے میں شروع ہوا ہے جب اس میںملزم بنائے گئے بال ٹھاکرے ، مہنت اویدھ ناتھ ، گری راج کشور اور اشوک سنگھل جیسے کلیدی ملزمان فوت ہوچکے ہیں۔ دوسری تشویشناک بات یہ ہے کہ اس مقدمے کے تمام ثبوت یا گواہ بھی یا تو غائب ہوچکے ہیں یا کمزور پڑچکے ہیں۔ اسکے باوجود ملزمان کیخلاف ثبوت پیش کرکے انہیں قصوروار ثابت کرنے کاسی بی آئی دعویٰ حیرت انگیز ہے۔ 
بابری مسجد کے حق ملکیت کا مقدمہ فی الحال سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جہاں 5دسمبر کو ابتدائی سماعت کے بعد اس کی تاریخ 8فروری 2018مقرر کی گئی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ سپریم کورٹ حتمی سماعت کے دوران بابری مسجد کی ملکیت پر کیا فیصلہ سنائے گا لیکن یہاں اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان مجرموں کو آخر کب سزا ملے گی جنہوں نے بابری مسجد کی شہادت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ بابری مسجد انہدام سازش کیس کی سماعت کرنے والے لبراہن کمیشن کے سربراہ جسٹس منموہن سنگھ لبراہن کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو حق ملکیت کا مقدمہ فیصل کرنے سے پہلے بابری مسجد انہدام کے مقدمے کی سماعت کرنی چاہئے۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ لبراہن کمیشن نے اپنی طویل رپورٹ میں بابری مسجد کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کی سفارش کی ہے۔ بابری مسجد کے حق ملکیت کا مقدمہ 22دسمبر 1949کو وہاں زبردستی مورتیاں رکھے جانے اور مسجد میں تالا ڈالنے کے کئی سال بعد شروع ہوا تھا۔ اس مقدمے کو نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن بابری مسجد کی شہادت کا مقدمہ ابھی اتناپرانا نہیں ہوا اور اس کے کئی کلیدی ملزم مثلاً لال کرشن اڈوانی ، مرلی منوہرجوشی، اومابھارتی ، کلیان سنگھ اور سادھوی رتھمبراوغیرہ ابھی زندہ ہیں۔ اگر ان کی زندگی میں بابری مسجد انہدام کا مقدمہ فیصل ہوجاتا ہے اور انہیں اپنے کئے کی سزا ملتی ہے تو یقینا ان لوگوں کو تھوڑی راحت ملے گی جن کی آنکھیں انصاف کے انتظار میں اب پتھرانے لگی ہیں۔ کیا ملک کی سب سے بڑی عدالت اس طرف متوجہ ہوگی؟ کیونکہ یہ مقدمہ صرف بی جے پی کے کچھ بڑے لیڈروں کو قصوروار ثابت کرنے کا نہیں بلکہ یہ لڑائی سیکولر قوم پرستی اور فرقہ وارانہ قوم پرستی کے درمیان ہے۔ 
 

شیئر: