جدہ - - - - - - - شاہ فیصل عالمی ایوارڈ یافتہ ہند نژاد سعودی محدث مولانا مصطفیٰ اعظمی کا بدھ کو ریاض میں نماز فجر بعد 87برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ نماز جنازہ ریاض کی مشہور مسجد الراجحی میں ادا کی گئی۔ انتقال کی خبر علمی حلقوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ خصوصاً حدیث اور علوم حدیث کے علماء و طلباء اور عموماً علم نوازوں میں رنج و ملال کی لہر دوڑ گئی۔ وہ 3حوالوں سے اول مانے جاتے رہے۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں حدیث کے پہلے استاد تھے۔ وہ کمپیوٹر کو حدیث کا خادم بنانے والے پہلے تھے۔ وہ صحیح ابن خزیمہ دریافت کر کے اس کی تحقیق کرنے والے پہلے تھے۔ علاوہ ازیں انہو ںنے حدیث کی تدوین و تاریخ پر بڑا مدلل و مستند علمی کام کیا تھا۔ انہوں نے 1955ء میں جامع ازہر سے ایم اے کیاتھاپھر 1966ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تھی جبکہ اسلامی و عرب علوم کی پہلی سند 1952ء میں دارالعلوم دیوبند سے حاصل کی تھی۔ وہ سعودی عرب کی اہم جامعات ام القریٰ ، کنگ سعود یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ فیصل ایوارڈ 1980ء (1400ھ ) میں حدیث کی گراں قدر خدمات پر دیا گیا۔ دارالعلم دیو بند کے مہتمم مولانا مفتی ابوقاسم نعمانی نے ڈاکٹر مصطفیٰ اعظمی کی وفات کو امت مسلمہ کے بڑے علمی خسارے سے تعبیر کیا۔ دارالعلوم وقف کے مولانا سفیان قاسمی نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر اعظمی کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بہت بڑا خسارہ ہے۔ ریاض میں مقیم قاسمی برادری نے خاص طو رپر ڈاکٹر اعظمی کی وفات کو ایک طرف تو حدیث و علوم حدیث سے تعلق رکھنے والی برادری اور دوسری جانب قاسمی برادری کا ناقابل تلافی نقصان بتایا۔ مولانا فخر الدین اعظمی، مولانا عبدالباری قاسمی اور مولانا ڈاکٹر نجیب قاسمی سنبھلی نے کہا کہ ڈاکٹر اعظمی نے قرآن و حدیث کے خلاف مستشرقین کے اعتراضات کے مدلل جوابات پر مشتمل انگریزی و عربی میں یادگار کتابیں چھوڑی ہیں۔جدہ میں مولانا طاہر اسلام قاسمی اور دارالعلوم دیوبند کے سابق استاذ مولانا جنید قاسمی نے بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے دعاکی کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر اعظمی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے اورلواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔