Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سقوط اسرائیل ، نوشتہ دیوار

 
 60 سے زائدیہودی تنظیمیں امریکہ کیخلاف کام کررہی ہیں جنہوں نے ساڑھے7ہزار عہدیداران کی خدمات خرید رکھی ہیں

* * * ڈاکٹر ساجد خاکوانی۔اسلام آباد* * *

    ایک مستند امریکی جریدے فارن پالیسی کے مطابق امریکہ کے 16 خفیہ اداروں نے 82 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ حکومت کو پیش کی ہے جس کاعنوان’’بعدازاسرائیل ، مشرق وسطیٰ کی تیاری ہے۔ان خفیہ اداروںمیں بدنام زمانہ سی آئی اے،ڈی ای اے،این ایس اے اور ایف بی آئی بھی شامل ہیں۔اس رپورٹ کا لب لباب یہ ہے کہ اسرائیل کی صہیونی ریاست اب امریکی سلامتی اور امریکی معیشت کے لئے دنیامیں سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔اس رپورٹ پر امریکہ کے اعلیٰ ترین جمہوری و انتظامی و دفاعی ادارے غوروخوض کررہے ہیں۔رپورٹ میں مشرق وسطیٰ کی علاقائی ،سیاسی اور معاشی حالات کا تفصیلی تجزیہ کرچکنے کے بعد مذکورہ نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔
    اسرائیل سے بڑھ کراس تاریخی حقیقت کو اورکون جانتا ہوگا کہ ہر فرعون اپنے موسیٰ کی پرورش خود کرتاہے۔رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ اسرائیل کی طرف سے مسلسل امریکی سلامتی کیخلاف ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجاسکتا۔رپورٹ مرتب کرنیوالے خفیہ اداروں نے پوری کرۂ ارض پر موجود کل اقوا م عالم کے حوالے سے لکھاہے کہ پوری دنیااسرائیل کی ریاست کودہشت گرداور خونی وقاتل ریاست سمجھتی ہے۔خفیہ اداروں کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ تمام ممالک کے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز اور غاصبانہ قبضہ جما رکھاہے اوراسرائیل کواسکا کوئی اخلاقی و قانونی جواز حاصل نہیں ۔رپورٹ میں امریکی قیادت کو متنبہ کیاگیاہے کہ ان حالات میں اسرائیل کے لئے امریکی فوجی و معاشی وسیاسی امداداور اسکے مقابلے میں اسرائیلی جنگیں اوراسرائیلی ناجائزتصرفاتی اقدامات ،امریکی مفادات سے شدید ٹکراؤرکھتے ہیں۔رپورٹ میںمثال کے طورپر اسرائیل کی روزبروز بڑھتے ہوئے ایٹمی اسلحے کی تعداداورفلسطینی شہری آبادی پر بے پناہ بمباری کے ذریعے انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کو بھی پیش کیاگیاہے۔المختصریہ کہ 16 امریکی خفیہ اداروں کی متفقہ رپورٹ میں اسرائیل کو’’بدمعاش اور مجرم ریاست ثابت کردیاگیاہے۔ 
    امریکہ میں اسرائیلی اورصہیونی گروہ کس قدر منظم،متحرک اورموثرہے،اس کا اندازہ توکیاجاسکتاہے لیکن اس کاادراک کرنا قطعاً بھی ناممکن ہے۔امریکہ کا جوچہرہ دنیاکے سامنے ہے وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے جبکہ یہ دکھانے کے دانت ہیں اور اصل چبانے کے دانت ’’کارپوریٹ امریکہ ‘‘ہے،اور یہ امریکہ کی اصل حقیقت  ہے جو دنیاپر حکمران ہے۔    ’’کارپوریٹ امریکہ‘‘دنیاکے سامنے ’’یونائٹڈاسٹیٹس آف امریکہ‘‘کو تگنی کاناچ نچاتاہے ۔اس ’’کارپوریٹ امریکہ ‘‘کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے۔اس حقیقت کو مذکورہ رپورٹ میں بھی جگہ دی گئی ہے کہ 60 سے زائد تنظیمیں ہیں جو امریکہ جیسی سرزمین پر خود امریکہ کے خلاف اسرائیل کیلئے کام کررہی ہیں اور ان تنظیموں نے ساڑھے7ہزار امریکی اعلیٰ عہدیداران اورافسران کی خدمات کو خرید رکھاہے چنانچہ اس خفیہ رپورٹ کی نقول فوراًسے پیشتر اسرائیل پہنچا دی گئیں اور اس کام میں امریکہ کے اندر صہیونی لابی کے متحرک ترین افرادامریکی سینیٹرزچارلس اسکومراورجان ایم سی کین سرفہرست ہیں۔ان کے بعدامریکی کانگریس کے ارکان ایرک کانٹراورخاتون رکن علینا روزلیتھنن بھی اس ملک دشمن سازش میں ملوث ہیں۔اسرائیل میں اس رپورٹ کے پہنچنے پر متوقع ردعمل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں  ۔ ظاہر ہے سچ تو کڑواہی ہوتاہے چنانچہ اسرائیلی وزیراعظم اس رپورٹ پر بہت سیخ پاہوئے اور انہوں نے کہاکہ امریکہ میں صہیونی ایجنٹ اس رپورٹ کے مرتب کرنیوالوں سے شدید انتقام لیں گے۔انہوںنے خاص طورپر امریکی افواج کے سربراہ اورامریکی صدرکوبھی اپنی شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا۔اس پراسرائیلی پارلیمان کے سربراہ نے کہاکہ آخرامریکی صدر ہماری مخالفت کیسے کر سکتاہے جبکہ ہم یہودیوں نے اس کے لئے سب کچھ کیاتھا۔    یہودیوں کی 2ہزارسالہ تاریخ ہجرت سے ہولوکاسٹ تک اورسیکولرازم کی ریت سے چنی گئی ناتمام بنیادوں پر قیا م ِ اسرائیل سے مستقبلِ قریب میں سقوطِ اسرائیل تک کے حالات کتاب زندہ میں اس آیت کی اظہرمن الشمس تفسیر ہیں کہ:
      ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ أَیْنَ مَا ثُقِفُوْا اِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَاؤُبِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الْمَسْکَنَۃُ ذٰلِکَ بِأَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ ذٰلِکَ بَمَا عَصَوْا وَّ کَانَوا یَعْتَدُوْنَ ۔
    ’’یہ(یہود)جہاں کہیں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار پڑی ،کہیں اﷲتعالیٰ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمے پناہ مل گئی تویہ اور بات ہے،یہ اﷲ تعالیٰ کے غضب میں گھر چکے ہیں،ان پر محتاجی و مغلوبی مسلط کر دی گئی ہے،اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا کہ یہ اﷲ تعالیٰ کی آیات سے کفرکرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کوناحق قتل کیا،یہ انکی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے‘‘(آل عمران212)۔
    آج یہ نوشتۂ دیوار ہے کہ سلطنت  اسرائیل کی عمارت منہدم ہونے کو ہے۔’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘کے مصداق جہاں اہل نظر امریکہ کی کشتی سے چھلانگیں لگاتے ہوئے چوہوں کو دیکھ رہے ہیں، وہاں اسرائیل کا قائم رہنا چہ معنی دارد؟؟امریکہ کی کئی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور امریکی معیشت اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے ۔ان حالات میں وہ اسرائیل کو کیونکرسہارادے سکتاہے؟۔
    مشرق وسطیٰ کے نقشے میں اسرائیل کی ریاست کھجورکی ایک گٹھلی کی مانندہے جس کی چوڑائی بعض مقامات پراکیلے ہندسوں جتنے کلومیٹرکے برابر رہ جاتی ہے۔قیام اسرائیل کے بعد سے سیکولرازم نے فلسطین کے یہاں ڈیرے ڈالے رکھے اور سیکولراورکمیونسٹ نظریات رکھنے والی قیادت نے فلسطینی مسلمانوں کے بندبھاؤلگائے اور انہیں اپنی ذاتی مفادات کی خاطر عالمی منڈیوں میں ساہوکاروں کے ہاتھ فروخت کیااوردولت اورشہرت کی بلندیوں کو چھوتے رہے لیکن آفرین اس قوم پر جس نے بہت جلد اپنے رب کو اورخود اپنی حقیقت کو پہچان لیااور دیندار،جرأت منداور صالح قیادت کاانتخاب کیا۔اس انتخاب کے بعد سے اسرائیل کے دن گنے جانے لگے اوراب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اسرائیل کے علاقے نفوسِ انسانی سے خالی ہوتے جارہے ہیں ۔وہ اسرائیل جو ایک مدت پہلے تک اپنے شہریوں کیلئے نئی بستیاں بسانے کیلئے فلسطینیوں کی زمینوں پر غاصبانہ فکر میں تھاآج قانون سازی کے ذریعے اپنے شہریوں کو نقل مکانی سے روکنے پر مجبور ہے۔اسرائیل اپنے قیام کے بعد سے مسلسل سکڑتاچلا جارہا ہے۔تاریخ کے تھپیڑے فلسطینی مسلمانوں کے جذبۂ قتال کی شکل میں اسرائیل کی ریاست کو ہر طرف سے کاٹ کاٹ کر فلسطین میں دریابرد کرتے رہے اور آج کا اسرائیل 1948ء کے اسرائیل کے سامنے کٹا پھٹااور5،6 گناچھوٹااسرائیل ہے۔کہانی کایہ تسلسل بہت جلد اسرائیل کو نابود کر دے گا،ان شاء اﷲ تعالیٰ۔
    اسرائیل کا قیام دورِغلامی کا نقطہ عروج(کلائیمکس)تھا۔خلافت عثمانیہ کے خاتمے سے شرپسندوں کے حوصلے اس حدتک بڑھے کہ امت مسلمہ کے سینے پریہ ناسور مسلط ہوا۔دورغلامی اگر چہ بیت چکااور امت مسلمہ نے آزادی کا سانس لیالیکن امت کاحکمران طبقہ ابھی بھی اپنی بادشاہتوں اورجرنیلیوں کیلئے سامراجی طاغوت کا مرہون منت ہے۔مغربی استعماراور ظالمانہ وسرمایہ دارانہ نظام کی بدترین گرفت نے ابھی بھی امت کے ہاتھ ان جرنیلوںکی ہتھکڑیوں سے باندھ رکھے ہیں،لیکن آخر کب تک؟۔اسرائیل جن ممالک کے حکمرانوں کی آشیرباد سے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑتاہے ،آج ان ممالک کے حکمران اپناعرصۂ اقتدارتنگ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ترکی نے ایک طویل جدوجہد کے بعد سیکولرجرنیلوں سے نجات حاصل کر لی ہے۔اسرائیل کے بالکل جوار میں تیزآگ کی بھٹی بھڑک چکی ہے ۔مشرق وسطیٰ سے ملحق افریقی علاقوں کا مسلمان بھی جاگ چکاہے ،گویا ایک عرصے تک مایوسیوں کی فضاؤں کواب باد ِصبا کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکوں نے معطر کر دیاہے۔مشرق و مغرب میں امریکہ اور نیٹو کے پاؤں اکھڑتے ہی اسرائیل ہوامیں بھک سے اڑ جائے گا اور یہ وقت کوئی بہت زیادہ دور نہیں ۔امت مسلمہ ایک بارپھر متحد ہوگی ۔فلسطینی مسلمانوں کاخون بہت جلد رنگ لائے گااور انبیاء علیہم السلام کی شاندارتاریخ کاحامل یہ علاقہ ایک شانداراسلامی مستقبل کاحامل ہوگا،ان شاء اﷲتعالیٰ۔
 

شیئر: