فرمان نبوی ؐ سے عالم کی فضلیت کا پتہ چلتا ہےاسے عابدپر ایسی ہی فضلیت ہے جیسے چاند کی جملہ ستاروں پر ہے
* * *عبد المنان معاویہ ۔مکہ مکرمہ* * *
علم ہر دین اورمذہب میں ضروری قرار پایا جاتا ہے۔ کوئی مذہب یا دین علم کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ علم کو انسان کی ضرورت کے ساتھ ساتھ مذہب کیلئے بھی ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ آج دنیا میں جس قدر مذاہب و ادیان ہماری معلومات میں ہیں، سب کے سب علم کوبقائے مذہب کیلئے اساسِ اول مانتے ہیں۔یہود کی توراۃ ہو یا عیسائیوں کی انجیل یا پھرموجودہ توراۃ ،انجیل ،زبورودیگر صحائف و مکاشفات کا مجموعہ یعنی بائبل یا پھر اہل ہند میں وید ،گیتایا رامائن کے داستانیں یا دیگرمذہبی کتب۔ کنفوشیش کی تعلیم ہو یا بدھ مت کی ،بابا گرونانک کا فلسفہ ہو یا زرتشت کا ،سب میں تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے اور کوئی دین یا مذہب علم کی اہمیت سے انکاری نہیں ۔ علم کے قدر دان سب ہیں، کوئی بھی علم دشمن نہیں ۔ ہاں کہیں حصول علم کیلئے کاوشیں زیادہ کی جاتیں ہیں اور کہیں کم لیکن یہ بات یقینی ہے کہ علم سے کلیتاً انکاری ہماری معلومات میں کوئی مذہب نہیں اور اگر کوئی ہے تو ہم اس سے لاعلم ہیں ۔
ہاں عیسائیت نے سائنس کی مخالفت ضرور کی ہے،دراصل پادریوں نے سائنس کے علم کو مذہب ِعیسائیت کیلئے نقصان دہ تصور کیا لیکن یہ بات بھی یقینی ہے کہ بالکل تعلیم کی مخالفت عیسائیت نے بھی نہیں کی تو یہ بات ثابت ہوئی کہ علم مذاہب میں اساس کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی مذہب ترقی کی راہ پر گامزن نہیں رہ سکتااور نہ ہی اقوام عالم بام ِعروج حاصل کرسکتی ہیں ۔ ان سب کے برعکس اسلام ایک آفاقی دین ہے جو قیامت تک آنے والی انسانیت کی فلاح وبہودی کا ضامن ہے تو یہ عالمگیر دین کیسے علم کی مخالفت کر سکتا ہے یا کیسے اعلیٰ درجہ کی تعلیم میں باعث رکاوٹ بن سکتا ہے ؟۔
علم کے اس موضوع کو آگے بڑھانے سے قبل یہ جان لیں کہ اسلام دین ہے ، مذہب نہیں کیونکہ مذہب عبادات اور اعمال کا نام ہے جبکہ دین انسانی حیات کے ہر شعبہ میں حضرت انسان کی رہنمائی کرتا ہے اسی لئے قرآن حکیم میں ہر مقام پر اسلام کو دین کہا گیا ہے، کہیں بھی مذہب نہیں کہا گیا۔ فقہی اصطلاح میں’’ مذہب ‘‘کی نسبت فقہا ئے عظام کی طرف ہوتی ہے جیسے مذہبِ امام ابوحنیفہ ؒ،مذہبِ امام شافعی ؒ،مذہبِ امام احمد بن حنبل ؒ،یا مذہبِ امام مالک ؒ۔اسی طرح دیگر فقہائے عظام ؒ کی جانب مذہب کی نسبت کی جاتی ہے جن میں مشہور ومعروف امام ابن تیمیہ ؒ ،امام ابن حزم اندلسی ؒاورامام بخاری ؒ کے بھی مذاہب تھے جو زیادہ دیر نہ چل سکے لیکن مقبولیت فقہا ئے اربعہ کے مذاہب کو حاصل ہوئی۔ اسی طرح یہ جان لیں کہ فقہا ئے عظام ؒ کسی بھی مسئلہ کے موجد نہیں ہوتے بلکہ وہ استنباط کرتے ہیں یعنی وہ مسئلہ ’’مستنبط‘‘ کرتے ہیں۔ آسان لفظوں میں یہ جان لیں کہ فقہائے عظام ؒ مسئلے کو ظاہر کرتے ہیں، خود ایجاد نہیں کرتے ۔ ان کے اپنے اقوال امت مسلمہ کے دیگر اہلیان ِ علم کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ اگر ان کا کوئی قول قرآن وسنت کے خلاف ہوتو اس مسئلہ میں ان کے قول کے بجائے قرآن وسنت کی طرف رجوع کیا جائے۔ جیسا کہ اہل علم سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ احناف کے ہاں کئی مسائل میں امام ابوحنیفہ ؒ کے قول کے بجائے فتویٰ امام ابویوسف ؒیاامام محمد بن حسن شیبانی ؒ کے قول پر دیا جاتا ہے اور ان کا قول امام ابوحنیفہ ؒ کے قول کے مخالف ہوتا ہے۔ خیر اس وقت ہمارا موضوع فقہا ئے عظام ؒ نہیں بلکہ ہم عرض یہ کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام ایک دین ہے اورلفظ دین کا صحیح مفہوم ہے ’’مکمل نظامِ ِحیات‘‘،قرآن حکیم میں قادرمطلق حق جل مجدہ فرماتا ہے:
’’اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بہتر نظام ِحیات اسلام ہے۔‘‘ ( آل عمران19)۔
جب دین اسلام قیام ِقیامت تک کے لوگوں کیلئے ہے تو دین اسلام نے بدلتے ہوئے ادوار کے انسانوں کی جملہ ضرورتوں کا حل بھی پیش کرنا ہے۔ اب سائنس نے ترقی کی اور دنیا ایک گاؤں کی ماند ہوکر رہ گئی ہے تو اس جدید دور میں انسانیت کو پیش آمدہ مسائل کا حل بھی دین اسلام پیش کرتا ہے۔نئے پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کیلئے ضرورت ہے وسعت ِعلم کی کیونکہ جب تک انسان کو علم نہیں ہوگا اس وقت تک وہ اپنے مسائل حل نہیں کرسکتا ۔ہم دیکھتے ہیں کہ دین ِاسلام میں علم کی متعلق کیا فرامین ہیں۔
قرآن حکیم مسلمانوں کیلئے دستور حیات ہے، اس میں علم کی اہمیت وافادیت سے متعلق آیات میں سے چند ملاحظہ فرمائیے:
نبی اکرم پر پہلی وحی جو غار حراء میں نازل ہوئی تھی وہ یہ تھی:
’’پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ،جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پید ا پیدا کیا،پڑھئے آپ کا رب بڑاکرم والا ہے ،جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا،جس نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ ‘‘ ( علق5-1)۔
صحیح بخاری کتاب بدء الوحی میں ہے کہ یہ پہلی وحی تھی جو نبی اکرم پر غار حراء میں نازل ہوئی ۔ پہلی وحی سے پتہ چلا کہ دین ِاسلام کی بنیادہی علم ہے۔ دین ِ اسلام کا آغازِ کار ہی علم سے ہوا تو یہ دین کیسے تعلم کی مخالفت کرسکتا ہے ؟۔
لائق ِتوجہ بات یہ ہے کہ جس دین کی بنیادی کتاب جس کے متعلق اہلیانِ اسلام کا عقیدہ ہے کہ قرآن حکیم اللہ عزوجل کا کلامِ مقدس ہے اور یہ آنحضور پر23 سال میں نازل ہوا اور قرآن حکیم کی ایک آیت کا منکر بھی کافر ہے تو اُسی کتاب میں ایک سورہ کانام’’القلم ‘‘ ہے جس سے علم کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کیونکہ علم کے حصول میں قلم کی افادیت سے کسی بھی ذی شعور کو انکار نہیں ،قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے :
’’ن، قسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ وہ (فرشتے ) لکھتے ہیں۔‘‘
اب ایک بار پھر ہم آپ کو غور وفکر کی دعوت دیں گے کہ دیکھئے کہ کلام باری تعالیٰ میں خود باری تعالیٰ عزوجل قسم کھارہا ہے قلم کی تو اللہ تعالیٰ جس شے کی قسم کھائے اہلیان ِاسلام سے کیسے ممکن ہے کہ وہ اس شے کی قدر نہ کریں اور اس شے کی اہمیت وافادیت سے منکر ہوں؟ قلم کا کردار علم کے معاملے میں سب سے زائد ہے اسلئے کہ حصول علم کے ذرائع میں سب سے معتبر ذریعہ قلم سے قلمبند کی ہوئی دستاویزات ہوتی ہیں ۔حافظۂ بشریت میں کمزوری ہوسکتی ہے لیکن تحریر کی ہوئی دستاویزمحفوظ رہتی ہیں اسلئے حق جل مجدہ نے قلم کی قسم کھائی ہے ۔
قرآن حکیم کی ایک اور آیت کریمہ بھی ملاحظہ فرمالیں:
’’وہی (اللہ )ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں آیات ربانیہ پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور بے شک اس سے قبل یہ کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ ( الجمعہ2) ۔
اس آیات ربانی سے جو علمی نکات ایک طالبِ قرآن اخذ کرسکتا ہے، ان سب کو اس مختصر مضمون میں ہم نہیں سمیٹ سکتے۔ بس اپنے موضوع پر رہتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ اس آیت ربانی سے بھی علم کے حصول کی واضح تعلیم ملتی ہے بلکہ اہل نظر سے یہ پوشیدہ نہیں کہ آیت الہٰی میں حکم الہٰی اپنے پیارے رسول نبی کریم کو ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو کتاب الہٰی کی تعلیم دے کیونکہ اب احیائے علم انہی سے ہوگا اور ان کے کردار کو ایسا اجلا کردے کہ دیکھنے والی آنکھیں صرف کردارِ صحابہ کرام ؓ کو دیکھ کردنگ رہ جائیں کہ اس مختصر سے عرصے میں پیغمبر اسلام نے انہیں کس طرح باکردار بنادے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ دنیا صحابہ کرام ؓ کے کرادر کو دیکھ کر دین اسلام میں داخل ہوگئی ۔
قرآن حکیم کی ان شہادات کے بعد ہم ارشادات نبوی پیش کرتے ہیں جس سے علم اور اہل علم کے مقام کا تعین ہوتا ہے ۔ آپ نے فرمایا :
’’خیر کی تعلیم دینے والے شخص کیلئے اللہ تعالیٰ،فرشتے ،اہل آسمان ،اہل زمین ،حتیٰ کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں دعائے خیر کرتی ہیں۔‘‘( ترمذی)۔
اس فرمان رسالت میں رسول اعظم نے کسی مخصوص تعلیم کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ سرورکائنات نے جملہ ’’خیر‘‘کا ذکر فرمادیا کہ جو بھی خیر کی تعلیم دے گا وہ اس بشارت ِعظمیٰ کا یقینا مستحق ہوگا ۔ہاں اگر تعلیم خیر کی نہ ہو بلکہ اس تعلیم سے انسانیت کو نقصان ہو اور دنیائے عالم کواس علم سے نفع ہونے کے بجائے نقصان سے دوچار ہونا پڑے تو ایسے علم کی اشاعت کرنے والا اس بشارت میں شامل نہیں ہوگا۔
دوسرے مقام پرسرور دوعالم نبی اکرم نے عالِم کو قمر سے تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’عالم کی فضلیت عابد پر ایسی ہے جیسے چاند کی تمام ستاروں پر ،علماء تو انبیائے کرام ؑ کے وارث ہیں۔ ‘‘ ( اصول کافی، کتاب العقل)۔
اس فرمان نبویسے عالِم کی فضلیت کا پتہ چلتا ہے کہ اسے عابدپر ایسی ہی فضلیت حاصل ہے جیسے کہ چاند کی فضلیت جملہ ستاروں پر ہے اور جیسے چاند تمام ستاروں میںنمایاں ہوتا ہے ایسے ہی عالِم تمام انسانوں میں نمایاں ہوتا ہے اور اسکی یہ فضلیت علم کی بدولت اسے حاصل ہوئی ۔
اس فرمان نبویسے جہاں عالم کی فضلیت ثابت ہوتی ہیں اسی طرح علم کی فضلیت خود بخود ثابت ہوتی ہے کیونکہ عالم کی ارفع شان اس کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ علم کی وجہ سے ہے ۔
ان فرامین رسالت کے بعد نہایت اختصار کے ساتھ تاریخ اسلام میں مختلف ادوار میں خلفائے اسلام کی علم دوستی درج کرتے ہیں تاکہ قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ خلفائے اسلام کا نہایت روشن کردار بھی آپ کے سامنے آجائے ۔
خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے دور مسعود میں جنگ یمامہ میں کثیر تعداد میں حضرات صحابہ کرام ؓ شہید ہوئے تو سیدنا عمر فاروق ؓ کو فکر لاحق ہوئی کہ اگر اصحاب نبی اسی طرح شہید ہوتے رہے تو قرآن کریم جو ان کے سینوں میں ہے وہ ضائع نہ ہوجائے۔ اس فکر کے لاحق ہوتے ہی انہوں نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر ؓ کو اپنی فکرمندی سے آگاہ کیا۔سیدنا ابوبکر ؓ نے پہلے تردد کیا لیکن بعد میں اصحاب رسول کے مشورے سے آپؓ نے قرآن کریم کو جمع کرنے کا سیدنا زید بن ثابت ؓ کوحکم دیا تو پہلی علمی کاوش اورترقیٔ علم کی جانب مسلمانوں کا سفر یہاں سے شروع ہوا۔پھر جب تلفظات ِ قرآنی کے بدلنے سے معانیٔ قرآن بدلنے کا اندیشہ ہوا تو خلیفہ سوم سیدنا عثمان ذوالنورین ؓ نے قرآن حکیم کو لغتِ قریش پر مرتب کرواکر تمام بلاد اسلامیہ میں اس کے نسخہ ٔجات ارسال کردیئے۔ اسی طرح خلیفہ رابع سیدنا علی المرتضیٰؓ نے خوارج سے تنزیل القرآن پر جہاد کیا ۔یہ عمل جہاں محفوظیت قرآن کریم کیلئے خداوندی تائید ونصرت سے تھا، اسی طرح مسلمانوں کے علمی سفر کاآغاز بھی تھا ۔پھر خلیفۃالمسلمین سیدناامیر معاویہؓ نے پہلا بحری بیڑا تیار کرواکر قسطنطنیہ کی جانب بھیجا تو گویا علمی ارتقا میں مسلمانوں کا سائنس کی طرف پہلا قدم تھا۔ محکمہ ڈاک اور جمع تاریخ کا آغاز بھی سیدنا امیرمعاویہ ؓ کے دورِمسعود میں ہوا ، پھر یزید بن معاویہ ؒکے فرزند خالد بن یزید ؒپہلا کیمیا دان تھے،یہ سائنسی علوم کی جانب مسلمانوں کا دوسرا قدم تھا ،پھر عمر بن عبدالعزیز ؒ آئے تو انہوں نے تدوینِ حدیث کی جانب محدثین کو راغب کیا اور محدث شہاب زہری نے تدوین حدیث کا بیڑا اٹھایا۔ اس طرح علم کی جانب یہ قدم بھی کارآمد ثابت ہوا کہ اس ایک کاوش سے کئی محدثین نے حدیث نبوی کے ذخیرے مرتب کئے اورپھر اسماء ُ الرجال کا فن اسی جمع حدیث کی وجہ سے مسلمانوں نے ایجاد کیاجس کی وجہ سے تقریباً 5 لاکھ انسانوں کی زندگی کے حالات قلمبند ہوگئے ۔ ہارون الرشید کے نام سے تو آپ ضرور واقف ہی ہونگے۔ ان کے متعلق تاریخ میں درج ہے کہ قاضی فاضل کہتے ہیں کہ2بادشاہوں کے سوا کوئی نہ ہوا جنہوں نے طلب ِعلم میں سفر اختیار کئے ہوں۔ ایک ہارون الرشید جس نے اپنے بیٹوں کے ہمراہ موطا امام مالک کی سماعت کیلئے سفر اختیار کیا اور دوسرا صلاح الدین ایوبی ؒ تھے۔ وہ بھی موطا امام مالک ؒہی کی سماعت کے واسطے اسکندریہ گئے۔ ‘‘
یہ شوق بادشاہوں کا طلب ِعلم کیلئے تھا اور ان مختصر واقعات سے جہاں علم کے ساتھ مسلمانوں کا قلبی لگاؤ معلوم ہوتا ہے، وہیں عروجِ مسلم کا راز بھی عیاں ہوتا ہے۔ آج اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ مسلمان علم کے فروغ میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ خرچ کریں ا ور علم کی ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں کیونکہ یورپ کی ترقی کا راز بھی علم ہی ہے۔ علم الادیان جتنا ضروری ہے اتنا ہی ضروری علم الابدان بھی ہے اور آج کے اس ترقی یافتہ دور میں سائنس کا علم ہویا دیگر جدید علوم سب ہی اہمیت کے حامل ہیں اور کسی کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا توہمیں چاہئے کہ ہم اپنی تہذیب وثقافت کو تھام کر علمی منازل طے کریں ۔