کیا سعودی عرب کی بھی ملیشیائیں ہیں؟
جمعرات 28 دسمبر 2017 3:00
خالد السلیمان ۔ عکاظ
امریکی ذرائع ابلاغ پر نظررکھنے اور امریکہ کی ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے درمیان سیاسی کشمکش سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ امریکہ میں بیشتر سیاستدانوں اور ارباب ابلاغ کے یہاں سیاسی اعتبار اور پیشہ ابلاغ سے وفاداری کا کوئی اعتبار نہیں۔ بیشتر مسائل پر امریکی سیاستدانوں اور صحافیوں کا موقف دائیں اور بائیں نظریات کا غلام ہوتا ہے۔ ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے درمیان رسہ کشی حق اور ناحق کا فیصلہ کرتی ہے۔
اس تناظر میں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ امریکہ کے بعض ذرائع ابلاغ سعودی عرب سے دشمنی برت رہے ہیں یا مملکت سے متعلق منفی خبریں ، رپورٹیں جاری کررہے ہیں۔ مغالطہ آمیز یا ناقص معلومات کی بنیاد پر خبریں اور رپورٹیں دے رہے ہیں تو ہمیں اس پر کوئی اچنبھا نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ امریکہ کے ابلاغی و سیاسی نظام کے اندر د باﺅ کا ایک وسیلہ ہے۔
اس پیش منظر کی بنیاد پر ہی کہا جاسکتا ہے کہ نیویارک ٹائمز نے لبنانی حزب اللہ سے مقابلے کےلئے لبنان میں سعودی مسلح ملیشیا تشکیل دینے کی رپورٹ جاری کی ہے۔سعودی عرب نے یہ کام کبھی نہیں کیا۔ اُس وقت بھی نہیں کیا جبکہ لبنان ہر فریق کا میدانِ کارِ زار بنا ہوا تھا۔آج بھی نہیں کررہا ، کل بھی نہیں کریگا۔ سعودی عرب خطے میں دہشتگرد تنظیموں اور مسلح ملیشیاﺅ ں کی تخلیق کردہ ہر انارکی کا مقالبہ تن تنہا کررہا ہے۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ خطے میں ایران کی معاندانہ پالیسی مسلح ملیشیاﺅں کی تشکیل اور مسلح گروپوں کی مدد پر منحصر ہے۔ ایرانی حمایت یافتہ ملیشیائیں عراق، شام، لبنان اور یمن میں جرائم اور انارکی کا طوفان برپا کئے ہوئے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایران کی ان ساری سرگرمیوں پر امریکی ذرائع ابلاغ کی تنقید کا لہجہ وہ نہیں ہوتا جو سعودی عرب جیسے مثبت پالیسی کے علمبردار ممالک کے خلاف ہوتا ہے۔ مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ سعودی عرب کی دشمنی پر عرب نعروں کی دکانیں چلانے والے وظیفہ خوار اور مغربی ذرائع ابلاغ دونوں متفق ہوگئے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭