ڈاکٹر علی بن شویل القرنی۔ الجزیرہ
ایران برسہا برس سے یمن میں حزب اللہ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہا تھا ۔ اس دعوے کو سمجھانے کیلئے میں اپنے قارئین کی خدمت میں ایک واقعہ پیش کرنا چاہ رہا ہوں۔ یہ واقعہ مجھے ابہا میں مقیم میرے ایک دوست نے سنایا۔
میرے دوست نے بتایا کہ وہ ابہا کے ہوٹل میں قیام پذیر تھا ۔اس وقت اس ہوٹل میں ایران کی ایک اہم سیاسی شخصیت بھی ٹھہری ہوئی تھی۔ وہ شخصیت تھی ایران کے سابق صدر ہاشمی رفسنجانی۔ سب لو گ جانتے ہیں کہ ہاشمی رفسنجانی ایران کے بیشتر اہم عہدوں پر فائز رہے۔ وہ اُن دنوں ایرانی نظام کے ایک اعلیٰ مرکز کے سربراہ تھے ۔ ابہا کے میرے دوست نے بتایا کہ ہاشمی رفسنجانی عسیر کے دورے پر آئے ہوئے تھے ۔ اس موقع پر وہ ان سے متعدد امور پر بات چیت کررہے تھے۔ اچانک ہاشمی رفسنجانی نے ایک عجیب و غریب سوال کرڈالا اسوقت وہ سوال ناقابل فہم تھا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ صعدہ سے ابہا کتنی دور ہے۔ ؟
ابہا کے میرے دوست کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ ابہا اور صعدہ کا فاصلہ کیوں دریافت کررہے ہیں۔ اسے اس وقت صعدہ اور تہران کے تعلقات کی بابت کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔ اس وقت یمن کے حالات بھی مستحکم تھے۔
ابہا کے میرے دوست اور خود میں نے اپنے طور پر خود سے یہ سوال کیا کہ ہاشمی رفسنجانی نے عسیر میں ہوتے ہوئے یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ صنعاءابہا سے کتنے فاصلے پر ہے؟ ہاشمی رفسنجانی نے اب سے 10برس قبل ابہا سے صعدہ کی بابت سوال کیوں اٹھایا؟
ہاشمی رفسنجانی کے سوال نے اُس وقت عسیر ریجن کے حاضرِ مجلس تمام دانشوروں کو حیر ت و استعجاب میں ڈال دیا تھا ۔ اس کے باجود سعودی شہریوں نے اسے سطحی انداز میں لیا۔ وہ یہ سوچ کر بات کو ٹال گئے کہ ہاشمی رفسنجانی کا سوال ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص ابہا میں بیٹھ کر مملکت کے کسی اور شہر کی بابت دریافت کرلیتا ہے ۔
ہاشمی رفسنجانی کے اُس وقت کے مذکورہ سوال سے یہ بات اب خوب اچھی طرح سمجھ میں آرہی ہے کہ ایران دسیوں برس پہلے سے حوثیوں کو تیار کررہا تھا اور انہیں یمن کے امن و استحکام کو تہ وبالا کرنے کیلئے دہشتگرد تنظیم بنا رہا تھا۔ ایرانیوں کی روایت ہے، وہ بفر اسٹیٹ قائم کرنے میں جواب نہیں رکھتے۔ لبنان میں حزب اللہ قائم کرکے یہی کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔ لبنان کے بعد وہ برسہا برس سے یمن میں حزب اللہ جیسی تنظیم قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ خطے میں توسیع پسندانہ پروگراموں اور اسکیموں کے نفاذ کیلئے یمنی حزب اللہ کے کارندوں کی تربیت کررہے تھے۔ وہ سعودی عرب کے امن و استحکام کو خطرات لاحق کرنے والا گروپ بنا رہے تھے۔
میں نے خود کئی برس قبل تحریر کیا تھا کہ ایران بحر احمر میں ایک جزیرے کا مالک ہے۔ یہ جزیرہ فوجی اڈے جیسا ہے جہاں حوثیوں کو عسکری تربیت دی جارہی ہے۔ انہیں مستقبل کے کسی پروگرام کیلئے تیار کیا جارہا ہے۔ حوثیوں کو خطے کے امن و استحکام کو تہ وبالا کرنے کی تربیت دی جارہی ہے۔ اسلحہ بھی برسہا برس سے یمن لایا جارہا تھا۔تجارتی اشیاءمیں چھپا کر ہتھیار یمن پہنچائے جاتے اور پھر وہاں انہیں جوڑ کر حوثیوں کے حوالے کردیا جاتا ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ عرب دنیا کے امن و استحکام کی عظیم سازش کافی پہلے سے چل رہی تھی۔ ایران مملکت کے پڑوسی ممالک کے امن و استحکام کو تباہ و برباد کرنے کی بھی تیاریاں کررہا تھا۔ اس سے یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ایران نے مملکت کے امن و استحکام کو سبوتاژ کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے۔ ایران کا سیاسی عسکری، ابلاغی اور سلامتی کا ایجنڈا اسی کی چغلی کھا رہاہے۔
ایران اب بھی مشرق وسطیٰ کے امن و امان سے کھیل رہا ہے۔ ایران کا منصوبہ خطے میں ہر جگہ اپنے سیاسی مسلک کا پرچا ر اور اس کے جھنڈے گاڑنے کا ہے۔ وہ یہ سارا کام کسی خوف ، کسی سزا اور کسی ڈر کے بغیر کررہا ہے۔لبنان میں حزب اللہ ، یمن میں حوثی ، عراق میں الحشد الشعبی ، شام میں ری پبلکن گارڈز قائم کئے ہوئے ہے۔ بحرین کے امن و استحکام کو سبوتاژ کرنے کے جتن کررہا ہے ۔ متحدہ عرب امارات کے جزیروں کو ہڑپے ہوئے ہے۔ قطر کو خلیجیوںکی پشت میں خنجر گھونپنے کیلئے تیار کئے ہوئے ہے۔ قطر ایران کو تمام مطلوبہ خدمات فراہم کرنے میں لگا ہوا ہے۔ قطر کی حکومت ایرانی حکمرانوں کے ایجنڈے پر عملدرآمد میں تن من دھن سے لگے ہوئے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭