1967ء کے المیے نے عربوں کی کمر توڑ ڈالی۔ اس المیے نے عربوں کے تفرقے، کمزوری، ٹوٹ پھوٹ، پسماندگی اور ذلت و خواری میں اضافہ کردیا۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ 1967ءکی جنگ نے عربوں کو قیامت کبریٰ سے بچالیا وہ غلطی پر ہیں۔ ہمارے عرب بھائی اب تک 1967ءکے المیوں کی تلخی جھیل رہے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی عقلمند انسان 1967ءکے حوالے سے کسی عظمت کا دعویٰ کرسکے گا۔ ویسے مغالطہ آمیزیوں اور مضحکہ خیز حرکتیں پیشہ ورانہ انداز میں کرنے والی بعض شخصیات نے اس حوالے سے ڈینگیں ماری ہیں۔ جہاں تک 1973ءمیں عربوں کے ہیرو بننے والی بات ہے تو اس جنگ میں عربوں نے برائے نام عظمت کا مظاہرہ بے شک کیا تھا۔ یہ کامیابی محدود بھی تھی ، تنگ بھی تھی، ناقص بھی تھی۔ آگے چل کر کیمپ ڈیوڈ معاہدہ اسی کی کوکھ سے برآمد ہوا تھا جس نے اسرائیل کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ طاقتو ر بنادیا۔ اسے بین الاقوامی سطح پر وسیع البنیاد قانونی حیثیت فراہم کردی۔ صہیونیوں کے مکروہ منصوبے کو جاری رکھنے کا موقع دیا۔ وہی منصوبہ جس کا ہدف تمام عرب بنے اور مصر سرفہرست رہا۔
کاش گزشتہ 7عشروں کے واقعات عربوں کو وہ سبق سکھا جاتے جنہیں اب تک عربوں نے ہضم ہی نہیں کیا۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اصلاح پسند عربوں کو وہ کہیں بھی ہوں اپنے اپنے ملک کو ترقی کے وہ وسائل اختیار کرنے پر آمادہ کرنا چاہئے تھا اور کرنا چاہئے جنہیں سمجھدار قوموں نے ا پنی ترقی کیلئے اپنایا۔ ہمیں حقیقی ، دینی و فطری اصلاحات اور سیاسی اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی فکر کرنی چاہئے تھی اور کرنی چاہئے۔ یہی تبدیلی زندگی کے تمام شعبوں میں مناسب تعمیر و ترقی کی راہ کھول سکتی ہے۔ یہی تبدیلی ہمیں بین الاقوامی طاقت بناسکتی ہے۔
اسی کو بنیاد بناکر آگے چل کر عرب اتحاد اور مضبوط طاقتور عرب محاذ کی تشکیل دی جاسکتی ہے۔ یہ اتحاد اور یہ عرب محاذ عربوں کی حقیقی معنوں میں طاقت و سربلندی کا ضامن بنے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ متوقع عرب محاذ کو ایسے مسلم ممالک کے ساتھ اسٹراٹیجک اتحاد میں جڑنا بھی ضروری ہے۔ جو اس کے آرزو مند ہوں۔ اس طرح عربو ںاور مسلمانوں کا اتحاد یا اتحاد نما محاذ علاقائی و بین الاقوامی میدانوں میں موثر بنائیگا۔ انکی آواز سنی جائیگی۔ یہی اتحاد عربوں اور مسلمانوں کے جائز حقوق کی قلیل ترین حد کے تحفظ کا ضامن بنے گا۔
یہ آرزوئیں ابھی تک خواب کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان خوابوں کی تعبیر ہنوز محال نظرآرہی ہے۔ بیشتر عرب ممالک کے حالات دگرگوں ہیں اور دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ فرقہ واریت اور مسلکی غلبہ بڑھتا جارہا ہے۔ امت کے دشمنوں کی شان و شوکت میں اضافہ ہورہا ہے۔ غاصب صہیونی ریاست کا بول بالا ہورہا ہے۔ عربوں کی امنگیں دن بدن کم سے کم تر ہوتی چلی جارہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب عربوں کی بقاءاور امن کا مسئلہ بھی مشکل لگ رہا ہے۔
افق پر صہیونی اوردہشتگردی و انتہا پسندی و جبر و تشدد و فرقہ واریت و مسلکیت کا حمایت یافتہ استعماری محاذ طاقتور شکل میں ابھرتا ہوا نظرآرہا ہے۔ یہ عربوں او راسلام کے خلاف عظیم منصوبے کی جہت میں پہلا قدم ہے۔ یہ محاذ اسرائیل کو عظیم علاقائی طاقت کے طور پر سامنے لارہا ہے۔ ایسی طاقت جو خطے کے ہر فیصلے کو کنٹرول کرتی ہو کیونکہ اکثر عرب ممالک کمزور لاچار ریاستوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ بیشتر عرب ممالک تل ابیب کی ہدایات اور احکام کی تعمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ تل ابیب اب آئندہ اسرائیلی دارالحکومت نہیں رہیگا بلکہ القدس اسکا دارالحکومت ہوگا جہاں سے عرب شہرو ںکو کنٹرول کرنے و الے صہیونی احکام اورسازشیں برآمد ہوا کرینگی۔ٹرمپ نے القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرکے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
میرے خیال میں فلسطین اور القدس کے مسئلے نے نیا علاقائی و بین الاقوامی دھارا اختیار کرلیا ہے۔ ایسا امریکہ کے موجودہ صدر کے احمقانہ فیصلے کے باعث ہوا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک نے ٹرمپ کے فیصلے کی مخالفت کی۔ 128ممالک نے اسے ببانگ دہل مسترد کردیا۔ 9ممالک نے تائید کی ، 35ممالک نے جن کا رجحان تائید کی جانب تھا ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ نیا دھارا ظاہر کرتا ہے کہ گیند اب عربوں کے کورٹ میں ہے۔ انہیں اس رجحان کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھانے کی جدوجہد اس وقت تک کرتے رہنا ہے تاوقتیکہ امریکہ اپنا فیصلہ واپس نہ لے لے اور دنیا کی بھاری اکثریت فلسطینی ریاست کے قیام اور مشرقی القدس کو اس کا دارالحکومت بنوانے کا اپنا ہدف نہ پورا کر لے۔ اس رجحان کے حوالے سے لاپروائی امت کو بھاری نقصان پہنچائے گی اور صہیونی ریاست کو پورے خطے کا تاجدار بنادے گی۔ غالب گمان یہی ہے کہ یہ المیہ امت کے مکمل سقوط کا وفات نامہ جاری کردیگا۔