Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مفروضوں اور خود ساختہ طریقوں سے اسلام کی نصرت

وائل مرزا ۔ المدینہ
ایک عرب ڈاکٹر نے ٹوٹی پھوٹی غیر مربوط عربی زبان میں مجھے ایک عجیب و غریب تحریر بھیجی۔ مفہوم یہ تھا”یونیسکو نے امریکہ میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دلانے کیلئے استصواب رائے کرانے کیلئے خصوصی اجلاس طلب کرلیا۔ اگر دین اسلام کو سرکاری مذہب تسلیم کرنے کے حق میں ووٹ زیادہ آئینگے تو اسلام امریکہ کا سرکاری مذہب ہوجائیگا۔ آپ اس ووٹنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ووٹنگ کا نتیجہ بیٹھے بیٹھے دیکھیں“۔ میرے دوست ڈاکٹر نے اس تحریر کے آخر میں مجھے ووٹنگ میں حصہ لینے کی زبردست ترغیب دی او راسے اسلام کی نصرت قرار دیا۔
میں یہ تحریر پڑھ کر حیرت و استعجاب کے عالم میں چلا گیا۔ یہ تحریر او راس میں مذکور مطالبہ انتہائی نامعقول ہے۔ ایسی بات وہی انسان کرسکتا ہے جو عالمی امورکی معمولی شدھ بدھ بھی نہ رکھتا ہو۔ قارئین کو یہ جان کر مزید حیرت ہوگی کہ مذکورہ تحریر روایتی معنوں میں دیندار عناصر کی نہیں بلکہ انتہائی تعلیم یافتہ اور جدید ذہن رکھنے والے لوگوں کی تخلیق ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ آخر مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے۔ کس دباﺅ کے تحت وہ دروغ بیانیوں کے دلدل میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔ خود فریبی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ جس انسان نے انٹرنیٹ پر مذکورہ تحریر جاری کی ہے اور جو اسلام کے پیرو کاروں کی رسوائی کا باعث بن رہی ہے اسے اسکا احساس ہوگا کہ اس سے خود کو مسلمان کہنے والوں کے حلقوں میں ہلچل پیدا ہوگی۔ مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس نے مذکورہ کہانی تصنیف کی وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ یہ دفاعی سوچ بھی نہیں۔ اس قسم کی اپیل او رتحریک مسلمانوں کے جوش سے فائدہ اٹھانے کا ایک حیلہ ہے۔
اسکا بڑا امکان ہے کہ مذکورہ چکر معلومات جمع کرنے یا اعدادوشمار حاصل کرنے کی غرض سے چلایا جارہا ہو۔ ممکن ہے کہ اس کے پیچھے تجارتی مقاصد ہوں ۔ غالب گمان یہی ہے کہ جس انسان نے بھی مذکورہ تحریک شروع کرائی اس نے ناقابل یقین حد تک اپنے اہداف پورے کرلئے ہونگے۔ اسلام کی نصرت کا جوش اور ولولہ اپنی جگہ پر اہم اور ضروری ہے مگر اس سلسلے میں بہت سارے مسلمانوں کاذہن نہ جانے کیوں اس جانب نہیں گیا کہ یونیسکو کسی بھی ملک کی بابت کوئی استصواب رائے نہیں کراتی۔ یہ اسکے دائرہ کار سے خارج ہے۔ یونیسکو عالمی تنظیم ہے اسے امریکہ سمیت کسی بھی ملک میں قانون سازی کا کوئی حق ہی نہیں۔امریکہ ایسا ملک ہے جہاں سرکاری مذاہب کا کوئی نظریہ ہی نہیں پایا جاتا۔ اس تحریر کے حوالے سے نہ جانے کتنے سوالات میرے ذہن میں گردش کررہے ہیں دوسرے بھی اس کی بابت نہ جانے کتنے سوال کرینگے۔ یہ بنیادی طور پر خود ساختہ مفروضوں اور تصورات کے بل پر اسلام کی نصرت کا بھونڈا طریقہ ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: