حسین شبکشی۔ عکاظ
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ سعودی عرب عصر حاضر سے ہم آہنگ ثقافتی اور ابلاغی نظام کی تنظیم نو کررہا ہے۔ سعودی عرب اس امر کیلئے کوشاں ہے کہ ابلاغی تشخص اور نیا ابلاغی تصور اس کے کردار سے ہم آہنگ ہو۔ برسہا برس سے سعودی عرب کا ابلاغی و ثقافتی عمل عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھا۔ نیا رجحان یہ ہے کہ سعودی عرب بند خول سے باہر آئے۔نئی دنیا کا سامنا کرے۔ میانہ روی ، اعتدال پسندی ، روا داری اور اغیار کو قبول کرنے جیسی اصطلاحات ابلاغی سرگرمیوں میں استعمال کرے۔ اس مقصد کیلئے مطلوبہ وسائل سے کام لے۔ تفریحات ، سینما ، سیاحت ، کانفرنسوں، نمائشوں، سیمیناروں ، کھلی ملاقاتوں، پیشہ ورانہ مہارتوں اور کھیل تقریبات جیسے وسائل سے استفادہ کرے۔
وزارت ثقافت و اطلاعات نے ٹی وی چینلز کی تنظیم نو کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کرلئے ہیں۔ یہ بہت اہم ہیں کافی عرصے سے اسکا انتظار تھا۔ انتہا درجہ حقیقت پسندی سے کام لیا گیا ہے۔ آرزو یہ ہے کہ نشریاتی ادارے اور اخبارات بھی اسی درجے کی لگن اور توجہ پائیں۔ ان مسائل کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ سعودی عرب کا نیا ثقافتی پیغام اسکا ابلاغی رخ اندرون و بیرو ن مملکت دونوں کی طرف ہو۔ خارجی دنیا کیلئے ہمارا پیغام اس وقت تک موثر ثابت نہیں ہوگا تاوقتیکہ اس سے پہلے داخلی سطح پر کامیابی حاصل نہ کرلیں
سعودی میڈیا سعودی معاشرے کے ہر طبقے ہر علاقے کے لوگوں اورسماج کے مختلف زمروں کو مخاطب کرے۔سعودی میڈیا میں پیش کیا جانے والا مادہ سماجی، فکری اور ثقافتی ماحول کا ترجمان ہو۔
سب لوگ سعودی عرب سے منفرد ثقافتی پیغام اور ابلاغ کے منتظر ہیں۔ چاہتے ہیں کہ سعودی عرب کا ثقافتی پیغام اور اسکا ابلاغی رجحان حالیہ برسوں کے دوران سعودی عرب کے منفرد اقتصادی نظام سے کسی درجے کم نہ ہو۔ گزشتہ برسوں کے دوران سعودی اپنے میڈیا کے تجربے سے بیزار ہوچکے ہیںا سی وجہ سے وہ متبادل ذرائع ابلاغ کا رخ کررہے ہیں۔ نتیجتاً وزارت ثقافت و اطلاعات پر اس صورتحال نے زبردست دباﺅبنایا ہوا ہے۔ اسے زمینی حقائق کا ترجمان میڈیا تخلیق کرنا ہوگا۔ چیلنج بڑا ہے ممکنہ الوقوع ہے اگر کامیابی کی شرائط پوری کی گئیں تو مستقبل اسکا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭