Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میڈیا کا کردار

***محمد مبشر انوار***
کسی بھی فلاحی ریاست کا بنیادی کام عوام کو بہترین ضروریات زندگی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ پر امن زندگی کی ضمانت دینا بھی ہے ۔ بنیادی ضروریات کے حوالے سے صحت ،تعلیم کے بعد سب سے اہم بنیادی ضرورت باعزت روزگار کی فراہمی ہے جبکہ لمحہ موجود میں یہی وہ ضرورت پاکستان میں بہت  حد تک ناپید ہے  اور ہر  دوسرا نوجوان اس کوشش میں ہے کہ  وہ بہتر روزگار کیلئے بیرون ملک سفر کرے۔ سخت محنت کے بغیر بالعموم عوام کی اکثریت تنگدستی کا  رونا ہی روتی نظر آتی ہے یا پھر شدید حسد کا شکار ہوکراپنے تئیں بہترین نقاد بنی  نظر آتی ہے۔ پاکستا ن میں بننے والی حکومتیں سونے پر سہاگہ ہیں کہ ان کی اکثریت کو  عوام کی  چنداں کوئی فکر نہیں کہ اشرافیہ کا نہ  صرف کاروبار، جائیدادیں اور اولاد بیرون ملک  رہائش پذیر ہے بلکہ  دہری شہریت کی مالک ہیں،ان کی بلا سے پاکستانی عوام کس حال میں ہے؟انہیں فکر ہے  تو صرف اپنے  بیرونی آقاؤں کی جو انہیں اقتدار دلانے کے ضامن ہیں  اور اپنے  مفادات کی خاطر ان حکمرانوں کو کٹھ پتلیوں کی  طرح نچاتے ہیں جبکہ پاکستانی حکمران برضا   و رغبت ان کے  اشاروں پر فخریہ ناچتے ہیں ۔ آج کے  دور میں معیشت کسی بھی ریاست کے استحکام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے مگر پاکستانی معیشت  دن بدن دگرگوں  ہوتی جا رہی ہے۔ سابق تا حیات نا اہل وزیراعظم کا واویلا بھی عجیب ہے کہ اپنی پارٹی کی حکومت ہوتے ہوئے بھی  وہ مسلسل ایک ہی رونا رو  رہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی  ترقی صرف اس لئے زوال پذیر ہے کہ ’’5لوگوں‘‘ کو یہ حق حاصل نہیں کہ انہیںاقتدار سے نکال باہر کریں اور وہ مسلسل گریہ کناں ہیں کہ انہیں جواب دیا جائے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘؟ان کے ساتھی قانون کی من پسند تشریح کرتے ہوئے ناقدین سے  الجھتے ہیں،ان کی کردار کشی کرتے ہیں  مگر اتنی جرأت نہیں رکھتے کہ اپنے قائد سے  ان غیر قانونی اقدامات کے حوالے سے باز پرس کریںجو  انہوں نے اپنے دور اقتدار میں کئے،اپنے  اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے اثاثہ جات میں اضافہ کیا،آج بھی پنجاب میں یہ عالم ہے کہ اشیائے  روزمرہ پر اجارہ داری قائم کرنے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیںاور ایک  خاندان بنیادی ضروریات زندگی سے متعلق تقریباً ہرکاروبار پرقبضہ جمائے ہوئے ہے۔  عام آدمی کے لئے روزگار کے مواقع نا پید ہورہے ہیں  صرف وہی لوگ کاروبار میں اپنے قدم جما سکتے ہیں جو اس خاندان کے سامنے سرنگوں ہو کر ،ان کے اشارہ ابرو پر سر تسلیم خم کریں وگرنہ کساد بازاری کے حربے سے کسی کا کاروبار محفوظ نہیں۔ 
قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا اس قوم پر یہ احسان ہے کہ انہوں نے انتہائی نا مساعد اندرونی حالات کے باوجود  اپنی خداداد صلاحیتیوں کی  بدولت وطن عزیز کے بے روزگاروں کیلئے بیرون ملک روزگار کا انتظام احسن طریقے سے کیاگو کہ اس کی بنیادی وجہ مشرق وسطیٰ میں اس وقت تیل کی دریافت  اور افرادی قوت کی شدید ضرورت تھی،جسے کسی بھی دوسری شہریت کی افرادی  قوت سے پر کیا جا سکتا  تھا لیکن یہاں قائد عوام کی معاملہ فہمی اور پاکستانیوں کی حالت زار کو  بہتر بنانے کی  مخلصانہ کوشش کا عمل دخل  زیادہ ہے۔ 70کی دہائی میں مشرق وسطیٰ پیٹرو ڈالر کی کمائی سے  جہاں اپنا  بنیادی ا سٹرکچر ترتیب  دے رہا تھا  وہیں اس کی تعمیر و  ترقی میں پاکستانی افرادی قوت اپنا کردار بخوبی نبھا رہی تھی،بلا امتیاز ایک  مزدور  یا بہترین  بنکراپنی  خدمات سے مشرق وسطیٰ کی  تزئین و آرائش میں مشغول تھے۔ مشرق وسطیٰ سے کمائی گئی دولت کا  اظہار پاکستان کے قریہ قریہ اور نگر نگر میں  واضح ہے کہ پاکستانیوں کا  معیار  زندگی کہیں بلند ہوااور آسائشوں نے پاکستانیوں کے  دن بدلے۔ علاوہ ازیںمشرق وسطیٰ سے بھیجا گیا کثیر زر مبادلہ پاکستانی معیشت میں رگوں میں خون بن کر  دوڑتارہا ہے  اور آج بھی دوڑ  رہا ہے۔ یہاں ایک اور بات کی  وضاحت  انتہائی تکلیف دہ ہے کہ پاکستانیوں کی  وجہ شہرت  لائق تحسین قطعی نہیں کہ یہ  دوسری  قوموں کی نسبت ایک  دوسرے کی ٹانگیں  زیادہ کھینچتے ہیںاور  وہ بااختیار پاکستانی غیر ملکی تارکین جو  مشرق وسطیٰ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں نے اپنی قومی ذمہ داری کا احساس کما حقہ نہیں کیا۔مشرق وسطیٰ کی مستقبل قریب یا بعید میں پیدا ہونے  والی افرادی قوت کی  ضرورت کو  بغور دیکھنے سے گریز کیاکہ اس کی روشنی میں پاکستانیوں کو آنے  والے وقت کیلئے تیار کرنے میں ناکام رہے۔خیر  وہ  وقت تو گزر گیااور اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت  والا معاملہ ہے۔
ثبات اک تغیر کو ہے  زمانے میں کے مصداق مشرق وسطیٰ کے حالات بھی تبدیل ہو رہے ہیں  اور یہاں کے  معاملات میں پہلے والا دم خم نہیں رہا کہ  عالمی مارکیٹ میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں نے  یہاں کی معیشت کو  بھی متاثر کیا ہے  اور  سعودی حکومت اس سے نپٹنے کے مثبت اقدامات کر رہی ہے۔ کسی بھی مخلص حکومت کی  طرح یہاں بھی مقامیوں کو  روزگار میں  ترجیحی بنیادوں  پر ملازمتیں  دینے کے منصوبوں پر عمل درآمد جاری ہے،جو  ان کا  بنیادی حق ہے  تو دوسری طرف میگا پروجیکٹس کو  فی الوقت مصلحتاً روک رکھا ہے۔ گزشتہ سے  پیوستہ برس کچھ تعمیراتی کمپنیاں اپنی اندرونی  غلط مینجمنٹ کے باعث اس حد تک  متاثر ہوئی کہ  اپنے  ملازمین کی کئی  ماہ تک کی تنخواہیں ادا کرنے سے قاصر ہو گئی جس پر ملازمین کے  احتجاج پر(جس کی سعودی عرب میں قطعاً اجازت نہیں) سعودی حکومت نے ان کمپنیوں کے   معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے،ان کمپنیوں پر مقدمے  قائم ہوئے(جو سعودی عدالتوں میں اپنے آخری مراحل میں ہیں) ملازمین کے  بقایا جات کا تخمینہ لگایا جا چکا، ان کی  فہرستیں سعودی حکام اور متعلقہ سفارتخانوں کے پاس محفوظ ہیں اور فیصلہ ہوتے ہی ا ن کے بقایا جات انہیں ادا کر دئیے جائیں گے۔  افسوس ! کہ  ان متاثرہ  ملازمین میں  فقط پاکستانی محنت کش ہی نہ تھے بلکہ ساری دنیا سے تارکین وطن اس کی زد میں آئے تھے لیکن جو  واویلا اورہا ہا کار  پاکستانی تارکین وطن نے واپس جا کر مچائی،کسی اور ملک میں سعودی عرب کی ایسی  بدنامی نہیں ہوئی۔ متاثرہ ممالک کے سفارتخانوں بشمول پاکستان  اور ان کی حکومتوں کے اعلیٰ حکام سے  ملاقاتوں میں  اس مسئلے کو  احسن  انداز میں حل کر لیا گیااور ماسوائے پاکستان کسی دوسرے ملک میں  میڈیا سعودی عرب کیلئے باعث شرمندگی نہیں بنا، اس سب کے باوجود  ابھی بھی پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد  سعودی عرب میں  اپنے روزگار سے  وابستہ ہے۔ وقت پھر تبدیل ہو رہا ہے  اور سعودی عرب کو ایک  بار مختلف شعبہ جات (جیسے آئی ٹی،پراجیکٹس مینٹیننس، میڈیکل اور  پیرا میڈیکل اسٹاف سے متعلقہ)افرادی  قوت کی کثیر تعداد میں ضرورت ہو گی جبکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ  وہ تارکین  وطن جو  واپس جا کر سینہ گزٹ کے  راستے پاکستانیوں کو  بد ظن کر رہے ہیں اور میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ  رویے کے باعث، کیسے اس ڈیمانڈ کو پورا کرنے میں  مددگار ثابت ہو سکتے ہیں؟
 

شیئر:

متعلقہ خبریں