پاکستان کے بحران کب اور کیسے ختم ہوں گے؟یہ وہ اہم ترین سوال ہے جو ہر دردمند پاکستانی کے ذہن میں ہمہ وقت سوار رہتا ہے،اس اہم ترین سوال کا ایک سطری جواب تو صرف اتنا سا ہے کہ اگر اس درماندہ قوم اور ملک کو مخلص قیادت نصیب ہو جائے تو یہ ملک و قوم اپنی کھوئی ہوئی سمت پا لے گی مگر افسوس اس بات کا ہے کہ مخلص قیادت کی یہی وہ تلاش ہے جس کی جستجو میں یہ قوم بارہا لٹیروں کے ہاتھوں لٹتی رہی ہے۔ اس ملک پر ’’مسلط قیادت‘‘ کا یہ نفسیاتی مسئلہ ہے کہ وہ صرف اپنی ’’ذات‘‘ کو ہی ملک کے مسائل کا حل تصور کرتی ہے،یہ الگ بات ہے کہ بارہا حکمرانی سنبھالنے کے باوجود ملک کی ترقی معکوس ہی رہی۔ اقتدار میں آتے ہی فوجی آمریت کے خلاف علم بغاوت اور ڈکٹیشن نہ لینے کا عزم جبکہ اقتدار سے باہر ہوتے ہوئے حصول اقتدار کی خاطر شب و روز فوجی قیادت کے ترلے اور منتخب حکومتوں کو گرانے کی سازشیں،عوامی فلاح و بہبود کے نام پر ایسے میگا پراجیکٹس کی تعمیر جس میں بھاری کمیشن کا حصول ممکن ہو،اس کے نتیجے میں خواہ تاریخی مقامات برباد ہوں یا ماحولیاتی آلودگی بپا ہو،ان کی بلا سے۔ سابق گورنر سندھ عشرت العباد کے حالیہ انٹرویو نے ایک اور پول کھول کر دیا ہے کہ جنرل مشرف کو کس طرح ایسے عدالتی حکمنامے کی بنیاد پر ملک سے باہر بھیجا گیاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے؟اس میں شہنشاہ معظم کی خواہشات کا کس طرح احترام کیا گیا،کیسے عدلیہ سے من پسند فیصلہ حاصل کیا گیامگر عوام میں یہ واویلا کہ ہم تو چاہتے تھے کہ آمر کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلا کر سزا دیںلیکن ہمیں کرنے نہ دیا گیا۔ قانون کو گھر کی لونڈی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں مگر کندھے عدلیہ کے استعمال کرنا چاہتے ہیں،خود کو پو تر ثابت کرنا چاہتے ہیں مگر وقت آپ کے کارناموں کو طشت ازبام کر رہا ہے۔
حب الوطنی کے نام پر جو گھناؤنا کھیل اس وقت کھیلا جا رہا ہے،اللہ کی پناہ،کیسی عجیب بات ہے جب آپ کے کرتوت منظر عام پر آ رہے ہیں،آپ مسلسل ہاہاکار مچا رہے ہیں کہ آپ کے خلاف سازش ہو رہی ہے،اس میں آپ اس حد تک گر چکے ہیں کہ جن قومی معلومات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے آپ نے حلف لے رکھا ہے،ان معلومات کو افشا ء کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔کسی سٹیٹسمین کا یہ شیوہ نہیں اور نہ ہی اس کی حیثیت اس امر کی اجازت دیتی ہے کہ وہ قومی معاملات کو اس طرح افشا ء کرنے کی دھمکی دے،سٹیٹسمین تو بہت دور کی بات ہے ،کوئی حکمران بھی اس بات کا تصور نہیں کرسکتا کہ جس ریاست کی حکمرانی اسے نصیب ہوئی ہو،اس کے قومی مفادات کو ذاتی کردار آشکار ہونے پر افشا ء کرنے کی دھمکیاں دے۔ بات یہیں پر موقوف نہیں ہوتی بلکہ اس سے بھی کہیں آگے بڑھ چکی ہے،میثاق جمہوریت میں اقتدار کے عوض ان تاجر وںنے کیا کچھ یقین دہانیاں دشمنوں کو کروا رکھی ہیں، قسط وارمنظر عام پر آ رہی ہیں۔ پانامہ کے ہنگامہ پر جب بھی احتجاج میں تیزی آتی رہی، سرحد پار سے ان کے ہمدرد کم اور ان پر سرمایہ کاری کرنیوالوں نے سرحدوں پر آتش و آہن برسائے، اندرون ملک دہشت گردی کی کارروائیاں کروائیں،نہ جانے سفارت کاری کے کن مروجہ اصولوں کے تحت بڑے بڑے وفد بغیر کسی ویزے کے حکمرانوں کی ذاتی تقریبات کو رونقیں بخشتے رہے۔ وفد کے اراکین میں جانے پہچانے ازلی دشمن بھی شامل رہے، بلوچستان میں امن وامان اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں براہ راست ملوث کلبھوشن یادیوکے متعلق مستند دستاویزی ثبوتوں کو عین وقت پر عالمی اداروں کے حوالے کرنے میں ڈنڈی کیوں ماری گئی،سجن جندال شاہی مہمان کے طور پر آنا اور پھر کلبھوشن کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف میں پسپائی، کیا یہی حب الوطنی ہے؟اب تو بات اور بھی آگے بڑھتی نظر آ رہی ہے،امریکی صدر کے حالیہ بیانات اور پاکستان کے حوالے سے ہرزہ سرائی گو کہ کوئی نئی بات نہیں لیکن شواہد اور باخبر ذرائع اس امر کی تصدیق کرتے نظر آتے ہیں کہ اس کے پیچھے بھی ہماری ناکام ، مصیبت زدہ اور مسائل میں گھری یہی اشرافیہ ہے،جو اس وقت کسی بھی قیمت پر ایک اور این آر او کی طلبگارہے اور چاہتی ہے کہ اکلوتی عالمی طاقت انہیں ان کے مسائل سے نکالے۔ لنکا ڈھانے کے مترادف ،اس کے عوض ایک اور موقع کی طلبگار اشرافیہ اس ملک کے ساتھ کیا کچھ کرگزرے گی، اہل نظر سے مخفی نہیں اور وہ مسلسل اس کا انتباہ نہ صرف متعلقہ اداروں کو کر رہے ہیں بلکہ عوام الناس کو بھی باور کروار ہے ہیں کہ ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر کیسی گھناؤنی واردات اس ملک کے وجود کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ افسوس مگر اس بات کا ہے کہ ادارے ابھی تک انتہائی نرم رویہ رکھے ہوئے ہیں،اس نرم روئیے کے متعلق وضاحت بھی ادارے ہی دے سکتے ہیں کہ اسی طرح کے جرائم پر چھوٹے صوبوں سے متعلق افراد کے ساتھ اداروں کا رویہ قطعی مختلف ہے ۔
شہنشاہ معظم اور ان سے وابستہ افراد ایک طرف ، سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق مسلسل اداروں پر تنقید کرکے ان اداروں کو دباؤ میں لانے کی کوشش میں مصروف ہیں تو دوسری طرف بیرون ملک ’’اپنے ‘‘ہمدردوں مگر پاکستان کے دشمنوں کو ایسے اقدام کرنے میں مشغول ہیں،جس سے پاکستان کا نقصان ہوتا ہے تو ہوتا رہے لیکن وہ خود ،ان کی اولاد اور ان کے حواری ان مسائل سے مکھن سے بال کی طرح صاف نکال لئے جائیں۔ بظاہر ایسا ہوتادکھائی نہیں دیتا کہ ادارے سست روی سے ہی سہی،اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور کسی بھی طور شہنشاہ معظم اور ان کے حواریوں کو ’’سیاسی شہادت‘‘ سے ہمکنار کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے انتہائی اقدام کی دھمکی پر اولاً سویلین حکومت کا یہ کہنا کہ اس کا جواب فوج دے گی،انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ ایک طرف حکومت کے دلوں کے وزیر اعظم اسی فوج پر کھلے عام الزامات لگا رہے ہیں اور دوسری طرف ان کی اپنی حکومت امریکہ کو جواب دینے کیلئے فوج کی طرف آس بھری نظروں سے دیکھتی ہے، کیا یہ بیرونی طاقتوں کو ثبوت مہیا کرنے کے مترادف نہیں کہ ابھی بھی درپردہ فوج ہی حکومت چلا رہی ہے؟اور اسی جواز کا سہارا لیتے ہوئے بیرون ملک اپنے ہمدردوں سے ایک اور موقع کی درخواست کی جا رہی ہے کہ ہمارے خلاف جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ فوج کے ایماپر ہو رہا ہے؟کس قدر دوغلا اور دہرا معیار ہے ہماری سویلین حکوت کا؟ واضح ہے کہ کون اس ملک کی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے اور کون ہے جو اس ملک کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ ایک اور چورن جو سول انتظامیہ بڑی ڈھٹائی سے بیچتی چلی آ رہی ہے کہ اس ملک پر35 برس سے زیادہ آمریت رہی ہے،اس لئے ملک ترقی نہیں کر پایامگر تصویر کا دوسرا رخ اس سے کہیں شرمناک ہے کہ گزشتہ35 برس سے مسلم لیگ ن براہ راست یا بالواسطہ اقتدار سے وابستہ رہی ہے،اس دور میں لاہور جیسا شہر ماحولیاتی اعتبار سے رہنے کے قابل نہیں رہا،کیا اس قیادت کے بل بوتے پر پاکستان بحرانوں سے آزاد ہو گا؟