Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکیزگیٔ کردار کا دہرا معیار ، معاشرتی منافقت

موافق مزاج کے ساتھ  بہترین گزارا کرنا کمال نہیں، کمال یہ ہے کہ ناموافق مزاج کے ساتھ حسن سلوک روا رکھا جائے
* * *ڈاکٹر بشریٰ تسنیم ۔ شارجہ* * *
بحیثیت  مرد  کے معاشرے میں  اس کا   عورت کے ساتھ ظالمانہ سلوک  وہی ہے جس کا تعلق اُس  نام نہاد احساس غیرت  سے ہے  جس میں  انصاف اور ایمان کی دھجیاں اڑائی گئی ہوتی ہیں۔  قوام ہونے کی حیثیت سے اپنی کماحقہ ذمہ داری  نہ نبھانے کی سزا بھی عورت کو دیتا ہے اس خیال سے کہ اسے عورت پہ ایک درجہ فضیلت حاصل ہے۔
    غیرت    دراصل وہ  احساس ہے جس  سے ہرکسی  انسان کاایمان عزت نفس ، اور  اعتماد و بھروسہ وابستہ ہوتا ہے۔ اس میں عورت کے حوالے سے عمو ما ًمردوں کی غیرت  بہت  حساس ہوتی ہے حالانکہ یہ صرف مرد  کا جذبہ نہیں،  غیرت  تو عورت اور بچے میں بھی ہوتی ہے۔ مرد اور عورت کے درمیاں   رشتوں میں غیرت کے حوالے سے  احساسات میں عدم توازن معاشرے میں ابتری  ، نفرت  اور فساد  کا موجب ہوتا ہے ۔بعض قبیلوں یا علاقوں میں غیرت کے نام پر خواتین کا قتل قانون سے ماورانہ صرف جائز بلکہ  مردانگی کی شان سمجھا جاتاہے۔کیا وہ  مرد جس کی وجہ سے عورت  غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتاری جاتی ہے ،بے گناہ ہوتا ہے؟  یہ چلن سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔اسی طرح پاکیزگی کے2 الگ معیار پائے جاتے ہیں     اور یہ  دہرے معیار معاشرے کے ہر طبقہ میں اپنے حالات  و اختیارات کے مطا بق مل جاتے ہیں ۔ دین دار  لوگ   بھی اس دہرے معیار سے مستثنیٰ نہیں ۔
    جب مرد  اپنے گھر کی خواتین  خصوصاً بیوی کے چال چلن  میں جھول  پاتا ہے تو غیرت کھاتا ہے۔ اس پہ کوئی عیب کی نگا ہ  ڈالے  ،اس کو برداشت نہیں ہوتا،رشتے کے بھائی  اس سے بے تکلف ہوں تو اسے برا لگتا ہے ۔غرض ا سطرح کے سارے اعمال اسکی غیرت بردا شت نہیں کرتی مگر وہ خود اپنے لئے غیر عورتوں  غیر محرم رشتوں کے ساتھ ہنسنا بولنا پسند کرتا ہے ، بزنس ڈنر کے نام پہ  ہوٹلنگ کرتا ہے ، کاروباری مجبوری کے نام پہ ہاتھ ملاتا ہے ان سے  جس حد تک ممکن ہو بے تکلفی اپنا حق سمجھتا ہے۔  وہ عورتیں  جو اُن سے خوش گپیاں کریں وہ خوش اخلاق ہیں  مگر اپنے گھر کی خواتین  سے کچھ  کوتاہی ہوجائے تو وہ بری ہیں   ،  غیر عورتوں سے حسن اخلاق   سے پیش آنا  اور گھر کی خواتین سے  بد اخلاقی کا مظاہرہ کرنا   کس کی تعلیم ہے؟اور اگر بیوی اس ناروا طرز عمل پہ احتجاج کرے تو تنگ نظر اور شکی مزاج ہے، کیا گھر کی عورت وہ بہن ہو  ماں ہو بیٹی یا بیوی   اللہ کی  اس نافرمانی ،اپنی عزت نفس مجروح ہونے اور اعتماد ٹوٹنے  پہ غیرت نہیں کھا سکتی؟ کیا  گھر کے مرد اگر کسی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوں تو خواتین  کی غیرت  اور عزت نفس پہ کوئی آنچ نہیں آسکتی؟
    شریف اور دیندار  مرد جب کسی ایسی دعوت طعام میں جاتے ہیں جہاں مخلوط انتظام ہو تو اپنے گھر کی خواتین کو  پردے کے خیال سے ساتھ لے کر نہیں جاتے   یا ان کے لئے الگ جگہ کا انتظام کراتے ہیں ،  اور سمجھتے ہیں کہ قوام ہونے، ایک درجہ فضیلت ہونے اور عزت دار ہونے کا حق ادا ہوگیا،لیکن  خود اس مخلوط محفل میں پوری دلجمعی سے شریک ہوتے ہیں ، یہ سوچ کر کہ  خواتین خود سامنے آتی ہیں  ان  کا کیا قصور ہے ،کیا  ان مردوں نے کبھی کسی ایسی محفل میں یہ کہہ کر جانے سے پہلو تہی کی ہے کہ  ہم  غیر محرم خواتین  کے ساتھ  محفل میں شریک نہیں ہوسکتے یا یہ مطالبہ کیا ہو کہ  ہمارے لئے الگ انتظام کر دیا جائے، کیا مرد اور عورت کی عزت آبرو    میں کوئی فرق شریعت میں بتایا گیا ہے؟ بلکہ مرد کو احتیاطی تدابیر کا حکم پہلے ہے اور زیادہ ہے کہ عورت اس کے لئے فتنہ ہے   اور فتنے کے خطرات جتنے زیادہ ہوں اسی قدر  احتیاطی تدابیر لازم ہو جاتی ہیں۔
    پاکیزگی ٔ کردار کے حوالے سے بھی    ہمارے معاشرے میں منافقت اور دہرا معیار پایا جاتا ہے جب تک اس کی اصلاح نہیں ہوتی گھروں میں سکون ناپید رہے گا،جب رشتے کے لئے لڑکی تلاش کی جاتی ہے تو لڑکے کی سوچ یہ ہے کہ مطلقہ یا بیوہ  ناقابل قبول ہے کہ   وہ سیکنڈ ہینڈ ہے  اور ذہنی پستی کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی لڑکی کی نسبت بھی ٹوٹ جائے تو ہزار سوال تنگ کرتے ہیں اور  یہ بھی تنگ ذہنی پائی جاتی ہے کہ  جہاں کہیں رشتے کی بات چیت چل رہی تھی اس فرد سے ناگواری  ہے اور مزید نام نہاد غیرت کا مظاہرہ بھی  ملتا ہے کہ  خود طلاق  دیدی مگر وہ جس دوسرے مرد سے نکاح کریگی  تو سابقہ شوہر کی غیرت پہ تازیانہ ہے،اور اپنے گریبان میں جھانکنا گوارا نہیں ہوتا ،گھر کے بڑے بھی یہ کہہ کر کہ مرد  کا کچھ نہیں بگڑتا   اور یہ کہ مرد ایسے کرتے ہی ہیں ۔اس   ہر غیر شرعی طرز عمل کو معمول کی کارروائی سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں۔
    غرض اس طرح کے مضحکہ خیز  خیالات کے نمونے کم  یا زیادہ شدت  کے ساتھ   شریعت کے ساتھ مذاق  کرتے پائے جاتے ہیں۔ اللہ رب العالمین نے  سورہ البقرہ میں فرمایا     : عورتوں کے لئے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں ، اس  طرح بحیثیت ایک  انسان کے دونوں برابر ہیں مگر انتظامی  بدنظمی سے بچنے اور مال کمانے اور گھر والوں پر خرچ کرنے کی اضافی ذمہ داری کے عوض   اسے ایک درجہ فضیلت  عطا  کرنے کا حکیمانہ فیصلہ اس الخالق کا ہے ، اور وہ  لطیف  اور الخبیر ہے۔
    ایک درجہ فضیلت ذمہ داریوں کی ادائیگی کے صلہ میں مل رہی ہے۔کوئی خاص قابلیت مردانہ صنف میں رکھ دی گئی ہے  اور اس قابلیت وصلاحیت کے عملی اظہار کا تقاضا بھی  اس فضیلت میں مضمر ہے۔ استاد کے لئے سب طالبعلم  برابر ہیں لیکن قابلیت و صلاحیت دیکھ کر وہ ایک مانیٹر  اسی کلاس سے منتخب کر لیتا ہے  تو یقینا  استاد اس  سے  اس فضیلت  کے عملی مظاہرہ کا بھی تقاضا کرے گا  اور اس کی بازپرس بھی  ایک درجہ زیادہ فضیلت کے مطابق ہوگی۔ وللہ المثل الاعلٰی۔
    ایک مرد کو جو فضیلت اللہ رب العالمین  نے  بحیثیت شوہر کے عطا کی ہے وہ بہت اہم ذمہ داریاں نبھانے  کا تقاضا کرتی ہے ۔ گریڈ اور رینک  اور عہدے بڑھتے ہیں تو اسکے ساتھ   محاسبہ سخت اور ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ اسوہ رسول زندگی کے ہر معاملے میں  ہمارے لئے راہ نجات ہے۔  دنیا کے مسائل میں بھی اور آخرت کی مشکل منازل طے کرنے کے لئے بھی۔ بیویوں کے ساتھ نبی اکرم کا سلوک ، طرز عمل  مشعل راہ  ہوگا تو زندگی آسان ہوجائیگی۔دنیا کی سب سے مکرم  ومعظم  شخصیت امام الانبیا  کا اپنی ازواج سے جو حسن سلوک تھا وہ  ہی قابل تقلید ہے۔ نبی اکرم کی متعدد شادیوں کی اور بے شمار حکمتیں تھیں۔ ان میں سے ایک امت مسلمہ کے مردوں کو تعلیم وتربیت کرنا بھی تھا۔بیوی  کی عمر چھوٹی ہو یا بڑی ، خود بڑی عمر میں شادی کریں یا جوانی میں  ،بیوی کا مزاج دھیما ہو یا تیز،رشتہ دار ہو یا غیر، حسب نسب  میں سردار کی بیٹی ہو، دوست کی لخت جگر ہو یا  اسیرِ جنگ ،خوبصورت ہو یا معمولی شکل کی، صحتمند ہو یا بیمار  غرض یہ کہ ہر صورت میں ایک ہی اسوہ قابل تقلید ہے۔
       نبی اکرم نے مردوں کو نصیحت کی کہ اپنی بیویوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہیں  اور یہ کہ تم میں سے بہترین مسلمان وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر ہے۔ عورت کی فطرت اور جبلت کو سمجھ  جانے والے مرد حکمت سے اس کی ناروا باتوں ، تلخیوں کا حل نکال لیتے ہیں۔ عورت کی فطرت گھاس کی مانند ہوتی ہے۔
     بادصبااسے جس رخ پہ چاہے موڑ لے مگر تند وتیز طوفان اسے جڑ سے نہیں اکھاڑ سکتے۔ عورت کی  طبعی کجی  ،ٹیڑھی پسلی کی طرح ہے  اور یہ بناوٹ ہی اس کو موزوں ہے۔آپ غور کریں  پسلیوں کی ٹیڑھی بناوٹ    ہونے کے باوجود ان میں لچک ہے اور یہی  ان کی مضبوطی   کا راز ہے  اور دل  جو  بدن کا بادشاہ ہے اس کی حفاظت کے لئے بہترذریعہ ہیں۔      شوہر اپنی بیوی کے دل میں اپنے حسن اخلاق سے جگہ بنا لیتا ہے تو وہ  بیوی کے دل کا بادشاہ  اور سر کا تاج ہے۔ اسی لچکدار مگر کمان کی مانند  مضبوط پسلیوں جیسی جبلت رکھنے والی عورت زمانے کے سرد گرم نشیب وفراز  ، نئے ماحول  میں اپنا آپ منوانا یا بیوگی کے پُرآشوب زمانے میں چٹان کی طرح مضبوط رہنا اور اولاد کے لئے باپ  کا کردار بھی نبھانا   اسی جبلت کا کمال ہے۔ بیوی کی وفا  مہر ومحبت  میں استقامت  اس کے مزاج میں طبعی مضبوطی بھی اسی جبلت کے باعث ہے۔
     کچھ چیزوں کے استعمال سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کے لئے   ایسی بناوٹ دینی پڑتی ہے کہ جودیکھنے میں   ٹیڑھی لگتی ہیں ۔جو اس نکتے کو سمجھ جاتے ہیں وہ اس سے فیض اٹھاتے ہیں ،جو اس باریک نکتے کو نہیں سمجھتے وہ اس کو سیدھا کرنا چاہتے ہیں، نتیجتاً اسے توڑ دیتے ہیں    ۔
    حدیث مبارکہ میں عورت کی مثال بھی  پسلی سے دی گئی ہے کہ  اس کو اسی بناوٹ کے ساتھ قبول کرو اور اسے سیدھا  کرنے کی کوشش میں اسے  توڑ دو گے   اور اس کا توڑنا طلاق دینا ہے۔   نبی الخاتم نے وسیع الاخلاقی   کی تلقین کی تاکہ بیوی کی طبعی  بناوٹ سے مثبت   اور خیر کے پہلو نمایاں ہو سکیں۔عورتوں میں اگر کچھ کمی کوتاہی ہے تو اللہ تعالیٰ نے  :عاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسی ان تکرھو شئیا و یجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا  کی تلقین کی ہے۔
    موافق مزاج کے ساتھ  بہترین گزارا کرنا تو کمال نہیں، کمال یہ ہے کہ ناموافق مزاج کے ساتھ حسن سلوک روا رکھا جائے،اور تقویٰ ،خدا ترسی کی روش کو فراموش نہ کیا جائے ۔یہ طریقہ  صبر آزما ہے مگر صابرانہ رویہ پہ بے حساب اجر کا وعدہ اس رب کائنات کی طرف سے ہے جو لا یخلف المیعاد…
 

شیئر: