Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شیخ ابن باز ؒیمنی طالب علم کی ضیافت میں

کاش شیخ ابن باز بادشاہ سلامت کو بتا دیتے کہ جس کے ہاں دعوت ہے وہ یہ رہا، اس سے پوچھ لیتے ہیں اور میں بڑی خوشی سے کہتا کہ یہاں کھانا کھاتے ہیں
* * * عبد المالک مجاہد۔ ریاض* * *
 شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز گزشتہ صدی کی عظیم الشان شخصیات میں سے تھے۔ وہ 1910میں ریاض میں پیدا ہوئے۔ ان کی وفات1999میں طائف میں ہوئی۔ بیت اللہ شریف میں ان کا تاریخی جنازہ ہوا۔ مکہ مکرمہ میں ہی دفن ہوئے۔ ان کی وفات پر ایک زمانہ رویا۔ انہیں ان کے معاصرین نے جی بھر کر خراج تحسین پیش کیا گیا۔ علامہ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں : ھو مجدد ھذ القرن کہ وہ اس زمانے کے مجدد ہیں۔
    اس بات کو علامہ شیخ صفی الرحمن مبارک پوری نے راقم الحروف کے ساتھ گفتگو میں دہرایا تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ ایک صدی میں صرف ایک ہی مجدد ہو۔ ان کے مطابق ایک سے زیادہ مجدد بھی ہو سکتے ہیں۔ فرمانے لگے: گزشتہ صدی کے 2مجدد تھے۔ ایک علامہ ناصر الدین البانی اور دوسرے شیخ ابن باز تھے۔ بلاشبہ وہ عالم ربانی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس دنیا میں اس قدر عزت اور احترام سے نوازا تھا کہ شاید ہی کسی اور عالم دین کو اس قدر محبت اور احترام ملا ہو۔
    راقم الحروف کی  شیخ ابن بازسے متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ مجھے ان کے دروس میں شامل ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کے بھی متعدد مواقع ملے۔
    جہاں تک ان کے اخلاق کا تعلق ہے تو وہ عصر حاضر کے حاتم طائی تھے۔ میں نے آج تک کوئی شخص نہیں دیکھا جو وزیر کے رتبے پر فائز ہو اور اتنا متواضع ہو۔ ان کے دروازے دن میں 2مرتبہ دوپہر اور رات کو ہر خاص و عام کے لیے کھلتے۔ اگر وہ ریاض میں ہوتے تو ان کے گھر میں کھانے کے وقت ہر خاص و عام ان کے دسترخوان سے کھانا کھا سکتا تھا۔ ان کا کھانا بڑا سادہ اور نہایت مزیدار ہوتا تھا۔ ان کا طباخ پاکستانی تھا ۔وہ اتنا مزیدار کھانا بناتا کہ انسان انگلیاں چاٹنا رہ جاتا۔ شیخ ابن باز سے جب بھی ملاقات ہوئی ان کو تعارف کروایا تو انہوں نے ساتھ ہی کھانے کی دعوت دی۔ پورے اصرار کے ساتھ کہتے تھے کہ تم نے لازماً دوپہر یا رات کو کھانے پر آنا ہے۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے اوقات اور یادوں کو بیا ن کرنے لگوں تو بات لمبی ہو جائے گی۔
    میں نے یہ تو بہت مرتبہ پڑھا اور سنا کہ شیخ ابن باز کے ہاں لوگوں نے کھانا کھایا یا ان سے ملاقات کی کیونکہ ان کے ہاں حکومت کے ذمہ داران،امراء،فقراء،تاجر، شہزادے اور سب آتے تھے۔
    وہ مفتی عام سعودی عرب تھے۔ دفتر میں ہوتے تو فون ہاتھوں میں رہتا۔ لوگ ان سے اپنے مسائل کے حلول کے فتاویٰ پوچھتے اور وہ کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ دیتے۔ بلاشبہ وہ نہایت مشغول شخصیت تھی ،جنہوں نے بیماری کے سوا کبھی دفتر سے چھٹی نہیں کی۔
    یمن سعودی عرب کا ہمسایہ ملک ہے۔ اس کا ایک صوبہ الجوف ہے۔ جو صنعاء سے شمال مشرق کی جانب 143کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یمن کی ہزاروں سال پرانی تاریخ ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ کے نبی سیدنا سلیمان ؑنے اگر ملکہ بلقیس سے شادی کی تو یہ ملکہ یمن کی رہنے والی تھی۔ سیدنا اسماعیل ؑ کی شادی بنو جرہم کے قبیلے سے تعلق رکھنے والی خاتون سے ہوئی تھی۔ بنو جرہم یمنی قبیلہ تھا ۔ الجوف یمن کا رہنے والا علی سعودی عرب میں دین کا علم حاصل کرنے کے لئے آتا ہے۔ دوران تعلیم وہ شیخ ابن باز کے حلقہ درس میں بھی شرکت کرتا ہے۔ علی کہتے ہیں کہ میری خواہش تھی کہ شیخ ابن باز میرے گھر تشریف لائیں۔ ایک دن جب شیخ مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا:
    شیخ میں آپ کی خدمت میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ شیخ ایک طرف ہوگئے۔ عرض کیا کہ میری خواہش ہے کہ آج رات آپ میرے گھر پر عشاء کا کھانا تناول فرمائیں۔ شیخ ابن باز نے یمن کے لوگو ں کے لہجے میں فرمایا : تَمَ   کہ بات پکی ہو گئی۔ میں آج رات تمہارے ہاں رات کا کھانا کھاؤں گالیکن میرے بیٹے ایک شرط کے ساتھ۔
    میں نے عرض کیا: ابشر یا شیخ۔جو آپ کا حکم ہو۔ میں خوشی سے نہال ہو گیا تھا۔
    شیخ نے فرمایا : تم ہمیں کھانا ضرور کھلاؤ گے مگر بغیر کسی تکلف کے۔صرف وہ کھانا کھاؤں گا جو تم اپنے گھر میں کھاتے ہو اور تم خوب جانتے ہو کہ مسلمان اپنی شروط کو پورا کرتے ہیں۔
    اس طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے مجھے پابند کر دیا کہ میں نے کوئی اہتمام نہیں کرنا، بس جو گھر میں سادہ کھانا کھاتا ہوں وہی ہو گا۔
    میں نے عرض کیا کہ شیخ جیسے آپ کا حکم۔اپنے وعدہ کے مطابق کوئی غیر ضروری اہتمام نہیں کروں گا۔
    فرمانے لگے کہ عشاء کی نماز کے بعد تمہارے گھر قدرے تاخیر سے جا سکیں گے کیونکہ نماز عشاء کے بعد میرا ایک جگہ موعد ہے۔ وہاں سے فارغ ہو کر تمہارے ساتھ چلیں گے۔ میں عرض کیا کہ شیخ حاضر!جب آپ چاہیں۔
    ادھر میری کیفیت یہ کہ میں خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ شیخ ابن باز میرے گھر میں تشریف لائیں گے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
    گھر والوں کو اطلاع دے دی گئی اور یہ بھی کہ کوئی تکلف نہیں ہو گا۔
    قارئین کرام! آگے بڑھنے سے پہلے میں عرض کروں گا کہ میرے ماں باپ قربان ہوں، اللہ کے رسولبھی نہایت متواضع تھے۔ آپ نے یہودی کی دعوت کو قبول کر لیا تھا۔ آپ اپنے غریب اور فقراء صحابہ کے ساتھ بیٹھ جاتے۔ ان کے ساتھ ناشتہ کرتے۔ فجر کی نماز کے بعد ذکر اذکار میں مشغول رہتے ،جب سورج نکل آتاتو اشراق کے نوافل ادا فرماتے۔ پھر رات کا جو کچھ بچا کچھا کھانا‘ کھجوریں‘ روٹی‘ ستو ‘ شہد‘ دودھ وغیرہ جو بھی میسر ہوتا دستر خوان پر رکھ دیا جاتا۔ اللہ کے رسولاصحاب صفہ کے ساتھ بھی ناشتہ کر لیتے تھے‘ کتنی ہی مرتبہ ان کے ساتھ کھانا کھاتے۔ اگر کوئی بیمار ہوتا تو اس کی تیمار داری کرتے۔ اگر کوئی دعوت دیتا تو اس کی دعوت کو قبول کر لیتے۔ آپاُن لوگوں میں سے نہ تھے جو تکبر یا فخر کی وجہ سے کسی کو اہمیت نہ دیتے ہوں۔
    اگر ایسا ہوتا کہ صحابہ کرام کو کھانے میں کچھ نہ ملتا تو اللہ کے رسول کے گھر میں بھی کچھ کھانے کے لئے نہ ہوتا۔
    غزوہ خندق کے موقع پر اللہ کے رسولکو ایک صحابی نے فاقہ کی شکایت کی اور اپنے پیٹ پر باندھا ہوا پتھر دکھایا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے ایک نہیں دو پتھر باندھے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر اللہ کے رسولکی بھوک کی حالت کو دیکھ کر سیدنا جابر بن عبداللہ برداشت نہ کر سکے ۔ اجازت لے کر اپنے گھر جاتے ہیں۔
    اِدھر میں نے شیخ صاحب کو دعوت تو دے دی، اب مجھے یہ فکر کہ شیخ صاحب اکیلے تھوڑے میرے گھر آئیں گے نجانے ان کے ساتھ کتنے شاگرد یا چاہنے والے ہوں۔ بہر حال وقت گزرتا چلا گیا۔ عشاء کی نماز ادا کی گئی۔ شیخ نے حسب عادت مسجد میں مختصر سا درس دیا۔
    درس ختم ہوا تو شیخ صاحب نے مجھے آواز دی کہ علی چلو میری گاڑی میں سوار ہو جاؤ۔ میں گاڑی میں بیٹھا تو صرف ڈرائیور ہی ساتھ تھا۔ میں نے گاڑی کی پچھلی طرف دیکھا کوئی اور گاڑی نہیں تھی جس میں ان کے شاگرد ہوں۔ مجھے یہ اطمینان ہو گیا کہ چلو ہم صرف3 ہی ہیں۔
    ڈرائیور گاڑی کو اُس طرف لے جا رہا تھا جہاں ان کا موعد تھا اور لوگ ان کے انتظار میں تھے۔ میں نے دیکھا کہ شیخ کی گاڑی ایک بہت بڑے محل میں داخل ہو رہی ہے۔ گاڑی کو دیکھتے ہی محل کے دروازے کھل گئے اور بغیر کسی تفتیش کے گاڑی اندر داخل ہو گئی۔
    میں نے دیکھا کہ بہت ہی بڑا کھلا صحن‘ ہر طرف قیمتی ماڈل کی گاڑیاں کھڑی ہیں۔سیکیورٹی گارڈ چاک و چوبند کھڑے ہیں۔ سوچا کہ شاید شیخ کی کسی وزیر یا امیر یا بڑے تاجر کے ساتھ ملاقات ہے مگر میری حیرت کی اس وقت انتہا نہیں رہی جب گاڑی رکی تو دربان نے شیخ کی گاڑی کا دروازہ کھولا۔ آگے بڑھ کر شیخ کو سلام کیا۔ شیخ نے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔
    چند قدم چلے تو ہم ایک بڑے ہال کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ شاہ فہد بن عبدالعزیز ، اس وقت کے ولی عہد شاہ عبداللہ‘ شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز وزیر دفاع والطیران شہزادہ نایف بن عبدالعزیز وزیر داخلہ‘ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور دیگر بہت سے شہزادے ‘ حکومت کے افسران‘ شیخ صاحب کے ساتھ مصافحہ کرنے ان کا استقبال کرنے کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ شیخ صاحب کا ان کی شان شایان استقبال ہو رہا ہے۔ ان سے ہاتھ ملا کر ان کا ما تھا چوما جا رہا ہے۔
    ادھر میں نے جن چہروں کو ٹیلی ویژن پر یا جن کی تصاویر اخبارات میں دیکھی تھیں، آج میں ان کو پہلی مرتبہ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ شیخ صاحب کو شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود کی کرسی کے ساتھ بٹھایا گیا۔ ان کے ساتھ حسب مراتب ولی عہد ‘ وزیر داخلہ ‘ شہزادے بیٹھ جاتے ہیں۔ فورا ًہی قہوہ پیش کیا جاتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ شاہ فہد شیخ صاحب کی صحت‘ ان کے حال احوال دریافت کر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد عود لائی جاتی ہے۔ عود کی خوشبو پورے ہال میں پھیل جاتی ہے،جس نے ماحول کو معطر بنا دیا ہے۔ میں ایک کونے میں بیٹھ کر سارے مناظر دیکھ رہا ہوں ۔
     کیا میں یہ خواب دیکھ رہا ہوں یا جاگتے ہوئے مناظر دیکھ رہا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ ہال میں بیٹھے ہوئے تمام امراء اور عہدے داران بڑے عمدہ لباس پہنے ہوئے ہیں ۔ میں کبھی شاہ فہد کی طرف دیکھتا ہوں۔ کبھی شیخ ابن باز‘ کبھی دوسرے مسؤلین کی طرف نظر دوڑاتا ہوں۔ میں نے اپنے لباس کو دیکھا ۔میں متوسط سے بھی کم درجے کے لباس میں ملبوس تھا۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں نے آج شاہ فہد کو دیکھنا ہے، ان کے محل میں جانا ہے تو میں بھی اچھے اور بہتر کپڑے پہن کر آتا۔
    شیخ ابن باز نے الحمدللہ پڑھی۔ خطبہ مسنونہ اور پھر آپ نے کم و بیش 20,15 منٹ درس دیا۔درس کے بعد تھوڑی دیر بیٹھے اور فرمایا کہ اب ہمیں اجازت دیں۔ شاہ فہد نے شیخ ابن باز سے عرض کیا کہ شیخ کھانا تیار ہے۔ چلئے کھانا کھاتے ہیں۔ شیخ ابن باز نے معذرت کی مگر شاہ فہد بار بار اصرار کر رہے ہیں کہ آپ کھانا کھا کر جائیں۔
    شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں ایک شخص کے ہاں مدعو ہوں، میں نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ میں کھانا ان کے ہاں کھاؤں گا۔ شریعت میں ہے کہ اگر ایک سے زیادہ شخص سے کھانے کی دعوت ملے تو سنت یہ ہے کہ پہلے جس کے ساتھ وعدہ کیا ہے یا جس نے پہلے دعوت دی ہے اس کے ہاں کھانا کھایا جائے۔ اس لئے معذرت قبول فرمائیں۔
    قارئین کرام: یہاں پر شیخ ابن باز کا حسن اخلاق ملاحظہ کیجیے کہ انہوں نے شاہ فہد رحمہ اللہ کو یہ نہیں بتایا کہ جس کے ہاں کھانے کی دعوت ہے وہ تو میرے ساتھ ہی ہے۔ اس سے ابھی پوچھ لیتے ہیں یا اجازت لے لیتے ہیں۔
    واقعہ کے راوی علی یمنی کہتے ہیں: کاش شیخ ابن باز بادشاہ سلامت کو بتا دیتے کہ جس کے ہاں دعوت ہے وہ یہ رہا۔ اس سے پوچھ لیتے ہیں اور میںنے بڑی خوشی سے کہنا تھا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ یہاں کھانا کھاتے ہیں۔
     شاہ فہد بڑی خوشی سے کہتے: آپ دونوں میرے ہاں رات کا کھانا تناول فرمائیں‘‘۔ ادھر میرے لئے بھی شرف ہوتا کہ میں بادشاہ ‘ ولی عہد ‘ وزیر دفاع‘ وزیر داخلہ اور حکومت کے بڑے بڑے ذمہ داران کے ساتھ کھانا کھانے کا شرف حاصل کرتا۔میں تو ایک عام طالبعلم تھا، آج مجھے بھی بادشاہوں کا کھانا نصب ہو جاتا۔  جس طرح ہمارا استقبال ہوا تھا، اسی گرم جوشی سے ہمیں رخصت کیا گیا ۔ہم شیخ صاحب کی گاڑی میں بیٹھے اب ہمارا رخ میرے گھر کی طرف تھا۔
    ادھر میری اہلیہ نے بڑا ہی مزیدار کھانا تیار کر کے رکھا ہوا تھا۔ سبحان اللہ! شیخ ایک محل سے نکل کر ایک طالب علم کے متوسط درجہ کے فلیٹ میں آتے ہیں۔ انہوں نے کھانا تناول فرمایا۔ میں اپنی اہلیہ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے گھر کا عام سا کھانا بڑے اچھے انداز میں پیش کیا۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے کھانا کھانے کے بعد میرے لئے ،میرے گھر والوں کیلئے برکت کی دعائیں کیں اور میں نے انہیں الوداع کیا۔
    میں اس دوران کبھی اپنے آپ کو دیکھتا کبھی شیخ ابن باز کی طرف۔اپنی قسمت پر فرحان تھا کہ آج میرے گھرمیں اِس دور کا سب سے بڑا عالم آیا ہے… ایک معمولی سے طالبعلم کے گھر …ہاں علی یمنی الجوفی کے گھر پر وہ تشریف لائے ہیں جن سے لوگ والہانہ محبت کرتے ہیں۔
 

شیئر: