اولڈ ہاوس میں پڑی ’’انمول زندگیاں‘‘ پیاروں کی منتظر
جمعرات 25 جنوری 2018 3:00
پرویز امانت نے مادیت کو شکست دے کر انسانیت کو اپنالیا،دنیا بھر کیلئے پورا خاندان مثال بن گیا،جگہ کی تنگی کے باوجود بزرگوں کی خدمت کو مقصد زندگی بنالیا
کراچی ہی نہیں پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی تیزی سے اولڈ ہاؤسز کے کلچر میں اضافہ ہورہا ہے، بچوں کو ترقی اور تیزی سے امیر بننے کی دھن نے جنت کمانے کی لگن سے دور کردیا، کاش ہم سمجھ سکیں کے بزرگ کس قدر قیمتی ہیں
نماز پڑھ کر دعا کرتی ہوں کوئی لینے آجائے، رقیہ،بہن کیلئے سب کو چھوڑا بہن نے مجھے یہاں چھڑوادیا،رحیمہ خاتون،بچے والدین اور بزرگوں کو بوجھ نہ سمجھیں،محسن
مصطفی حبیب صدیقی ۔۔ کراچی
کسی نے مادیت کی زندگی کی بے سکونی کو قرار دینے کیلئے سب کچھ چھوڑدیا اور بزرگوں کی خدمت کومقصد زندگی بناکر سکون حاصل کرلیا تو کسی نے اپنے پیاروں کو مادیت کیلئے چھوڑ کر دنیا اور آخرت دونوں ہی برباد کرلی۔لفظ ساتھ نہیں دے رہے جب پرویز امانت اور ان کے خاندان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہ رہا ہوں تو دوسری جانب ایسے خود غرض بچوں اور بھائی بہنوں کو شرم وغیرت دلانے کیلئے بھی الفاظ کا مجمع کم پڑ رہا ہے۔یقینا ایسے بھی ہیں جنہوں نے نہایت مجبوری میں اپنے والدین یا بزرگوں کو اولڈ ہاوس چھوڑا تاہم ان کی تعداد کم ہی ہے۔ پرویز امانت کے’’انمول زندگی‘‘اولڈ ہاوس میں اب جگہ تنگ ہوتی جارہی ہے،ضرورتیں بڑھ رہی ہیں اور انہیں انتظار ہے کسی ایسے بڑے دل کا جو انہیں ان بزرگوں کو رکھنے کیلئے جگہ دے سکے۔بزرگوں کی کہانی کیا سنائوں کسی کو4سال سے تو کسی کو2سال سے یہی انتظار ہے کہ دروازہ کھلے گا اور بیٹا یا بیٹی لینے آجائیں گے۔پرویزامانت نے بتایا کہ ایک بزرگ چاند رات اپنے بچوں کو یاد کرکے روتے رہے،انہیں بہلاپھسلاکر سلایا کہ صبح سب سے ملیں گے اور عید کے دن جب انہیں جگانے گئے تو وہ اس دارفانی سے ملک عدم روانہ ہوچکے تھے۔بس ان کی آنکھیں دروازے کی جانب ٹکٹکی باندھے تک رہی تھی کہ شائد اب انہیں کندھا ہی دینے کوئی آجائے مگر افسوس کوئی نہ آسکااور۔بس آنسو تھم نہیں رہے۔ پرویز امانت نے ایک ملاقات میں بتایا کہ زندگی مادیت کے چکروں میں گھری تھی ، صرف پیسہ کمانا چاہتاتھا یہی مقصد زندگی تھا کہ ایک دن ایک بزرگ خاتون کی فزیو تھراپی کرانے کے بعد ان کے بھانجوں نے کہا کہ انہیں اولڈ ہاوس میں داخل کرانا ہے۔ میں انہیں اپنے گھر لے آیا ۔یہیں سے اولڈ ہائوس کی بنیاد رکھی۔ خاتون نے ڈبل ایم اے کیا تھا اوراکثر یہ گانا گاتی رہتی تھیں’’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں۔جس نے بھلا دیا تجھے اس کاہے انتظارکیوں‘‘۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بھانجوں نے اپنی خالہ کا گھر اپنے نام کرکے انہیں دوبارہ یہاں چھوڑ دیا ،اس دن وہ بہت روئیں،اب وہ انتقال کرچکی ہیں۔میری اہلیہ شمیم اور بیٹا بیٹی سب ان بزرگوں کی خدمت کرکے دلی سکون حاصل کرتے ہیں تاہم بزرگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور اب جگہ تنگ ہورہی ہے۔پرویز امانت نے بتایاکہ روزانہ 5،6لوگ ہمارے اولڈ ہاوس میں رہنے کیلئے آتے ہیں لیکن جگہ کی کمی کیوجہ سے نہیں رکھ سکتے مجبوری میں انکار کرنا پڑتاہے۔7سال سے اولڈ ہاؤس چلا رہے ہیں ۔مکان کا کرایہ 50ہزارروپے جبکہ یوٹیلیٹی بلز کی مد میں 30سے 35ہزار روپے لگ جاتے ہیں۔کوئی ماہانہ فیس نہیں، صر ف مخیرحضرات کے تعاون سے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔اولڈہاؤس میں کوئی ملازم نہیں گھروالے ہی سب بزرگوں کی خدمت کرتے ہیں ۔گھروالوں میں بیوی ،2بیٹے اور ایک بیٹی ہے ۔ اس سوال پر کہ لوگ تو مذاق اڑاتے ہوں گے کہ یہ کیا بلاوجہ کی ذمہ داری سر لے لی تو پرویز امانت نے نہایت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جی بالکل معاشرے میں مذاق اڑانے والے زیادہ اور حوصلہ دینے والے کم ہیں ۔دوست رشتے دا ر بھی کہتے ہیں بوڑھوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہو۔ تمہارے بچوں کو رشتوں میں پریشانی ہوگی ۔کل بچے بھی کہیں گے ہمارے باپ نے ہمارے اچھے مستقبل کیلئے کیاکیا ؟ساری زندگی بوڑھوں کی گندگی صاف کرتے گزار دی ۔لوگ ہمارا بھی مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں اس کام کی ذمہ داری سونپ دی ہے جس پر میں اور میرا خاندان فخر محسوس کرتاہے ۔اس کام میں اگر لوگ بے عزت کرتے ہیں تو کیا ہوا اللہ تو خوش ہے۔ جب ہی تو میرا پورا خاندان یہ کام خوشی سے کرتا ہے۔ ہمیں لوگوں کے مذاق کی پروا نہیں ۔ انہوںنے بتایا کہ اولڈ ہاوس کے اخراجات پورے کرنے کیلئے کچھ دوست احباب مدد کرتے ہیں۔ہم چندہ جمع نہیں کرتے۔ایسا وقت بھی آیا کہ گھر میں تمام پیسے ختم ہوگئے ۔بیگم ناراض ہوگئیں۔کہنے لگیں ان بزرگوں کو کھانا کہاں سے کھلائیں گے۔میں کسی دوست سے ادھار مانگنے نکلا تو فائیواسٹارچورنگی پر بائیک کا پٹرول ختم ہوگیا ۔میں نے کہا کہ اللہ اب تو ہی انہیں کھلا،میں اب ان بزرگوں کونہیں رکھ سکتااور سوچنے لگا کہ اب یہ سینٹر ختم کردونگا مگر بائیک کھڑی کرکے رکا ہی تھا کہ اچانک پاوں کے نیچے پھڑپھڑاہٹ ہوئی دیکھا تو ایک ہزار کا نوٹ تھا ،میں نے اٹھالیا۔200کا پٹرول ڈالا ،600کے پوری چھولے لیے اور ان کو تگڑا ناشتہ کرادیا،۔بیگم پھر ناراض ہوگئیں کہ اب انہیں دوپہر کے کھانے میں کیا دینگے ،ان پیسوں کو بچالیتے تو دوپہر میں کھانا آجاتا ،میں نے کہا جس اللہ نے ناشتہ دیا ہے وہی کھانا دے گا ۔میں سمجھتا تھا کہ میں انہیں کھلارہا ہوں مگر آج معلوم ہوا کہ انہیں تو اللہ کھلارہا ہے۔دوپہر میں ایک دوست اچانک بہت سارا راشن لے کر آگیا۔بس اس دن سے میں توکل کا مطلب سمجھ گیا۔ میں آپ کے توسط سے دھمتل مٹھائی کے مالک خلیل والا اور اپنے دوست سلمان صدیقی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو بھرپور تعاون کرتے ہیں۔خلیل صاحب ان بزرگوں کو ناشتہ بھیجتے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ اگر یہ 500بھی ہوجائیں تو فکر نہ کرنا ناشتہ ملتا رہے گا۔ پرویزامانت کے مشن میں قدم بہ قدم ان کی اہلیہ شمیم پرویز نے گفتگو میں حصہ ڈالتے ہوئے بتایا کہ خواتین کو اپنے رشتے داروں کا انتظار رہتا ہے کہ کب وہ آئیں اور ہمیں لے جائیں لیکن کوئی انہیںلینے نہیں آتا۔ اس حالت پر بہت افسردہ ہوجاتی ہوں کچھ خواتین اپنی باتیں بتاتی ہیں کچھ گلے لگ کر روتی بھی ہیں۔پھر ہنسی مذاق کرکے اور قصے کہانیاں سنا کر ان کادل بہلاتی ہوں ۔ان کی خدمت سے دل کو بہت سکون ملتا ہے ۔ہم اللہ کی رضا پرخوش ہیں۔اسی گفتگو کے دوران وہاںمقیم ایک خاتون رحیمہ کی آنکھیںنم ہوگئیں اور رونا شروع کردیا جس سے تما م لوگ افسردہ ہوگئے اوربزرگ خاتون کودلاسہ دینے لگے۔ پرویز امانت کا22سالہ بیٹا سیموئل بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ بھرپور تعاون کرتا ہے ،اس نے بتایا کہ یہ کام پاپا کو اچھا لگا ہے اس لیے ہمیں بھی اچھالگتاہے۔پاپا کہتے ہیں ان بزرگوں کی خدمت کروں گے توکل تم ہماری بھی خدمت کروگے۔
٭٭٭اولڈ ہاوس کے بزرگوں سے بات چیت٭٭٭
63سالہ بزرگ رئیس احمد کی رہائش نارتھ کراچی میں تھی۔ انہوںنے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ16مارچ 1954کو پیدا ہوا۔اولڈ ہاؤس میں ڈیڑھ سال سے رہ رہا ہوں ۔محنت مزدوری کرتے تھے۔ مختلف فیکٹریوں میں نوکری کی ۔بیرون ملک بھی کام کیے۔ پانی کے جہازوںکے ساتھ آتے جاتے تھے ۔یہاں باتوں کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ تھوڑابہت کیرم کھیل لیتے ہیں۔کیرم میں ریٹرن بیک اچھا کھیلتا ہوں۔جوان بیٹااوربیٹیاں ہیں۔بیٹیوں کی شادی ہوگئی ہے نواسے ،نواسیاں ہیں ۔بیٹے کی شادی نہیں ہوئی ۔بچوں کے نام یاد نہیں۔بیٹا چھوڑکرگیاتھا۔ایک ایک ماہ بعد آتا ہے۔ اس سوال پر کہ بیٹاکیوں چھوڑکر گیا رئیس احمد کچھ افسردہ تو ہوئے مگر اپنے بیٹے کی عزت رکھتے ہوئے گویا ہوئے کہ علاقے میں لڑکے مجھے پریشان کرتے،پاگل کہتے اور مارتے تھے جس کی وجہ سے گھر والے پریشان ہوتے تھے اس لئے بیٹایہاں چھوڑ گیا مگر میںبیٹے کے پا س جانا چاہتاہوں۔پوتا پوتی اور نواسے نواسی یاد آتے ہیں۔بیٹی کے پاس بھی رہ سکتاہوں لیکن ذمہ داری بیٹے کی ہے اس کے پاس رہوں گا۔بیوی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں مریضوں کی طرح رہتے ہیں ۔ پرویز امانت نے بتایا کہ ا ن بزرگوں کو اگر پرانی چیزیں یاد کرائی جائیں توانہیں غصہ آجاتا ہے اور پھر ہمارے لئے سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ رئیس احمد کا ایک ہی بیٹا ہے والد سے بہت محبت کرتا ہے۔ مہینے میں 2مرتبہ آتا ہے ۔یہ گھر میں عجیب عجیب حرکتیں کرتے ہیں، کپڑے اتاردیتے ہیں ۔بیٹے کو معلوم ہوتاتو دفتر سے فوری طورپر گھر آتا اور ان کو سنبھالتا تھا ۔گھر میں اسے بڑی پریشانی تھی۔ اس نے مجبوری میں یہاں چھوڑاہے ۔ بیٹاکہتاہے میں ملازمت کروں یا ان کو سنبھالوں۔ہم کرائے کے مکان میں رہ رہے ہیں مالک مکان کئی مرتبہ کہہ چکا ہے کہ اپنے باپ کو کہیں داخل کراؤ۔ شفیق خان بھی انمول زندگی میں ایک سال سے مقیم ہیں۔انہوںنے انٹر سائنس سے کیا ۔ ایک بینک میںملازم تھے۔ طبیعت خراب ہونے کے بعد نوکری چھوڑ دی انہوں نے بتایا کہ ان کی بہن انہیں اولڈ ہاوس میں چھوڑکر گئی وہ قریب ہی رہتی ہیں مگر وہ بھی مجبور تھی شاید۔ 50سالہ رحیمہ خاتون نے اپنی یادوں کو کھنگالتے ہوئے بتایا کہ میرے والد کا نام عبدالجلیل تھا اور وہ پروفیسر تھے ۔ مجھے یہاں اولڈ ہاوس میں 5سال ہوگئے۔ ہم منگھوپیر میں رہتے تھے ۔وہاں سے سعودی عرب چلے گئے وہاں طلاق ہوگئی تھی جس کے بعد والد صاحب یہاں پاکستان لے آئے کہ دل بہل جائے گا اور بہن کے ساتھ چھوڑ دیا۔ میں بفرزو ن میں بہن کے ساتھ رہ رہی تھی میرے بچے نہیں ہیں ۔بہن فون پر بات کرتی ہیں مگر 3سال سے ملاقات کیلئے نہیں آئیں جبکہ اس اولڈ ہائوس کے قریب ہی علاقے میں رہتی ہیں پھر بھی نہیں آتیں جس سے دل اداس ہوجاتا ہے۔کیا اپنوں کا یہی رویہ ہوتا ہے؟ ۔ میرے والدین 1993ء سے سعودی عرب میں ہی مقیم تھے ۔ میری شادی بھی وہیں ہوئی مگر پھر مجھے طلاق ہوگئی جس کے بعد والد نے پاکستا ن بھیج دیا تاکہ میرا ذہن بٹ جائے اور طلاق کے صدمے باہر نکل سکوں ،میں یہاں کافی بہتر ہوگئی اور سعودی عرب واپس جانے کیلئے تیار تھی اور والدصاحب نے بھی سعودی عرب واپس جانے کا کہا مگر میری بہن پاکستان میں تنہاتھی جس کی وجہ سے میں نہیں گئی کہ وہ تنہا نہ ہوجائے مگر افسوس کہ آج وہی بہن مجھ سے ملنے نہیں آتی اور میں اب یہاں تنہا ہوں ،اسی بہن نے مجھے یہاں ڈلوادیا ۔ہم 5 بہن بھائی ہیں۔4 پہلی ماں سے اور 2دوسری ماں سے۔یہ میری سگی بہن ہے۔ پرویزامانت نے اس موقع پر بتایا کہ ہم نے ان کی بہن کو کئی مرتبہ فون کیا۔اول تو فون نہیں اٹھاتیں ۔اگر اٹھالیں تو کہتی ہیں فون کیوں کیا ہے اور ناراض ہوجاتی ہیں۔ہم انہیں احساس دلاتے ہیں کہ یہ آپ کی بہن ہیں ان سے کبھی کبھار مل لیا کریں مگر وہ کوئی نہ کوئی مجبوری بتاکر فون رکھ دیتی ہیں۔ میرے اس سوال پر کہ اتنے عرصے بعد آنے پر کبھی بہن سے شکایات نہیں کی۔ رحیمہ خاتون نے کہا کہ شکایات کرتی ہوں ۔کہتی ہے بیمار ہوں اور بھانجی بھی بیمار رہتی ہیں۔ کیا کروں خاموش ہوجاتی ہوں۔یہاں اولڈ ہاوس میںکھانا پکانے کی کوشش کی لیکن بنا نہیں سکی۔برتن دھو لیتی ہوں اور صفائی بھی کرلیتی ہوں۔میٹھا بہت پسند ہے لیکن شوگر کی وجہ سے کم کھاتی ہوں۔کھانے پینے کے معاملے میں پرویز صاحب بہت خیال کرتے ہیں ۔ مجھے سعودی عرب اچھا لگتاتھا ،وہاں ہرطرح کی سہولتیں تھیں ۔شروع میں حرم مکی کے سامنے ہی رہائش تھی۔مسجد الحرام کے دروازے سے صرف5 منٹ کا فاصلہ تھا۔5حج کیے ۔کئی عمرے بھی کیے ۔جو لوگ صاحب حیثیت ہیں انہیں چاہیے وہ ایسے لاچار اور بے بس لوگوں کیلئے ایسے گھر اورادارے بنائیں جہاں ہم جیسے لوگوں کی داد رسی ہوسکے اور عزت کے ساتھ ہمارا وقت گزر جائے ۔اللہ ان کو دنیا وآخرت میں بہت عزت دے گا ۔ پرویز امانت نے بتایا کہ شوگر کے مریضوں کو بھی ہم شوگر فری مٹھائیاں کھلاتے ہیں کیونکہ وہ بھی میٹھا کھانا چاہتے ہیں۔ رحیمہ5وقت کی نمازی اورتلاوت بھی کرتی ہیں اور ہمارے لیے دعا بھی کرتی ہیں۔ مجھے یقین ہے ہم ان کی دعا سے پھل پھول رہے ہیں۔ رحیمہ خاتون نے کہا کہ میںتمام بچوں سے درخواست کروں گی کہ اپنے والدین اور بزرگوں کی عزت کریں جس طرح انہوں نے بچپن میں تمہارا خیال رکھا اسی طرح ان کا بھی خیال رکھیں اور ان کی فرمابرداری کریں ۔ان کی باتوں کا برا نہیں مانیں اس سے والدین اور ا للہ بھی خوش ہوگا۔ 45سالہ رقیہ اولڈ ہائوس میں4سال سے مقیم ہیں ۔1997میں کراچی یونیورسٹی سے زولوجی میںماسٹر زکیا ۔یونیورسٹی کے بعد اسکول میں پڑھانا شروع کردیا تھا ۔شادی کے ڈیڑھ سال بعد جب بیٹی 8ماہ کی تھی انہیں طلاق ہوگئی ۔بیٹی کا نام خدیجہ ہے جو اب 9سال کی ہے۔ طلاق کے بعد سے بیٹی کو نہیں دیکھا۔ انہوںنے بیٹی کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ آنکھوں سے کہا کہ ہر وقت تڑپتی ہوں ۔بیٹی سسرال والوں کے پاس ہے ۔گھر سے کوئی لینے نہیں آتا کوئی آئیگا تو جائیںگے نا؟ ۔رقیہ کی افسردگی اور مرجھائی آنکھیں دیکھ کر دل عجیب سا ہوگیا۔ اس سوال پر کہ گھر والے کیوں چھوڑ گئے رقیہ نے بتایا کہ مجھے طلاق ہوئی تو کافی ڈسٹرب ہوگئی تھی ۔ میں ایک بوجھ بن گئی ،سب بہن بھائیوں نے کہہ دیا کہ ہم اس کو گھر میں نہیں رکھ سکتے ۔گھر میں جگہ نہیں ۔ سب نے مشورے سے یہاں بھیج دیا،بیٹی سمیت کوئی بھی ملنے نہیں آتا۔ یہاں بس دل گھبراتا ہے ، لوگ لوڈو یا کیرم کھیلتے ہیں مگر میرا کھیلنے کو دل بھی نہیں چاہتا ،نماز پڑھ کر دعا کرتی رہتی ہوں۔ گھریاسسرال والوں میں سے کوئی بھی لینے آجائے میری بیٹی تو ہے نا۔ میں آسمان سے تو نہیں گری ، کوئی بھی رشتے دارآجائے۔پرویز صاحب کی بیوی بہت خیال رکھتی ہیں جس کی وجہ سے خوش ہوجاتی ہوں ورنہ زندگی میں دکھ کے سوا کچھ نہیں۔میں آپ کے کے توسط سے عوام سے کہنا چاہوں گی کہ انسانیت کے ناطے بزرگوں اور والدین کوگھروں میں رکھیں اور ان کی عزت کریں۔ اللہ کے پاس اس کا بڑا اجر ہے۔جس طرح ’’انمول زندگی‘‘ والے بزرگوں کی خدمت کررہے ہیں اور اداروں کو بھی بڑھ چڑھ کا حصہ لینا چاہیے تاکہ معاشرے کے لاچار اور بوڑھے افراد کی دیکھ بھال ہوسکے۔ لوگ تعاون بھی کرتے ہیں معاشرے سے ابھی انسانیت ختم نہیں ہوئی ۔ پرویز صاحب بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور کام کر ہی رہے ہیں۔ لوگوں کو ان کی تقلید کرنی چاہیے۔ 80سالہ حاجی اسماعیل ایک د یہاتی ہیں ۔ہندوستان کی ریاست یوپی کے علاقے بخار سادات میں پیدا ہو ئے اور1948ء میں ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ انہوں نے قائداعظم سے بھی ملاقات کی۔ اپنے یادوں کو کھنگالتے ہوئے وہ بتانے لگے کہ میں ایک جگہ پر دھرنا دے کر بیٹھ گیا کہ جب تک میری قائداعظم سے ملاقات نہیں کراؤ گے یہاں سے نہیں اٹھوں گا۔بزرگ نے مسکراتے ہو ئے بتایا کہ لوگوں نے کہا یہ بہت ضدی لڑکا ہے یہاں سے نہیں اٹھے گا اسے لے جاؤ اور قائداعظم سے ملاقات کراؤ جب میری ملاقات ہوئی اس وقت میں 12سال کاتھا۔ملاقات میں قائداعظم سے کہایہاں پر ہندو اور مسلمانوں کیلئے اسمبلیاں بنائی جائیں۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور مسکرائے ۔ان کے ساتھ فاطمہ جناح بھی تھیں ۔بڑھاپے کی وجہ سے ہمت نہیں ہے۔ بیمار رہتا ہوں جب پرانی باتیں یاد آتی ہیں تو افسردہ ہوجاتاہوں۔ ا س سوال پر کہ سیاستدانوں میں کون پسند ہے حاجی اسماعیل نے برجستہ کہا کہ نواز شریف صحیح نہیں(کہااور بھی بہت کچھ مگر ہم یہاں لکھ نہیں رہے) ۔ پرویز مشرف کو پسند کرتا ہوں وہ بہت دلیرآدمی ہے۔پاکستان دل وجان سے عزیز ہے اس دوران حاجی اسماعیل نے ہاتھ اٹھا کر پاکستان اورمعاشرے کے بے حس لوگوں کیلئے دعا کرائی کہ پاکستان میرا وطن ہے۔ میں اسے چاہتاہوں۔ اے اللہ اس میں خوشحالی ہو اور لاچار لوگوں کی مد د ہو۔ جس پر مجھ سمیت سب نے آمین کہا۔ بزرگ شکیل احمد نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا میں نے بی اے کیاہواہے اور مجھ سے سوال کیا کہ آپ کی تعلیم ،پروفیسر تو نہیں بن رہے ؟ میں نے بتایاکہ میں صحافی ہوں اور ایم اے کیا۔ جواب میں قیصر احمد نے کہا کہ اس کا مطلب ہے پروفیسر بھی ہو نگے۔ میری خواہش ہے آپ 3ایم اے کریں اورپرنسپل بنیں۔ہم جوانی میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے ۔جاویدمیاندار بہت پسند تھا۔ وہ چھکے چوکے بہت لگاتا تھا۔اب شاہد آفریدی لگاتاہے۔عمران خان تواب ملک کاسیاستدان بنا ہواہے۔عمران خان جیسے لوگ وزیراعظم ہونگے تو ملک کا بیٹرا غرق ہی ہوناہے۔پاکستان کا وزیراعظم اسے ہونا چاہیے جو ملک کیلئے تعلیم اور فلاح بہبود کیلئے اخلاص سے کام کرے ۔نواز شریف جیسا وزیراعظم نہ ہو جو ملک کھا جائے اور عوام کو قرضوں میں ڈال دے۔ شکیل احمد نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ میں چینوٹ میں پی پی کا عہدے دار بھی رہا ہوں مگر استعفیٰ دے دیا۔ چینوٹ دنیا کا امیر ترین شہر ہے۔فرانس اور لند ن کوآباد کرنے والے بھی چنیوٹی ہی ہیں۔چینوٹ کے لوگ تاجر اور امیر ہوتے ہیں جو بڑے بڑ ے کاروبار کرتے ہیں۔ایک مرتبہ ٹانگ ٹوٹ گئی تھی تو گھر والے یہاں لے آئے۔ اولڈ ہائوس والو ں نے بڑا خیال کیا۔ دعا کریں صحیح ہوجاؤں اور اپنے گھروالوں اوردکان پر جاؤں۔میرا کوئی بیٹا نہیں ، بیٹیاں ،نواسے اور نواسیاں ہیں۔بیٹیاں کبھی کبھی آتی ہیں ۔بیوی کا انتقال ہوگیا ،ایک بھتیجا ہے جو کبھی کبھی آتاہے اور پیسے دے جاتا ہے۔ادارے کوبھی پیسے دیتاہے ۔ میں نے افسردہ ماحول ختم کرنے کیلئے ازراہ مذاق کہا کہ شکیل صاحب کیا ایک ہی شادی کی ہے دوسری کا ارادہ نہیں تو انہوںنے برجستہ جواب دیا کہ نہیں بھئی میرا ایک ہی شادی سے پیٹ بھر گیا ہے۔ دوسری کرنے کی ہمت نہیں۔آج کل ایک ہی شادی سے گزارا کرنا مشکل ہے اورکیاکریں۔(شکیل احمد کا یہ جملہ سن کر تما م لوگوں نے زور دار قہقہ لگایا)۔ انہوںنے اپنی یادوں کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ کیرم کھیلتے تھے اب تو اسٹائیگر بھی ہاتھ میں نہیں آتا۔بس یہاں لوگوں سے بات چیت کرکے وقت گزار لیتے ہیں۔ بزرگ محمد ضیاء بھی 4سال سے اس اولڈ ہائوس میں مقیم ہیںانہیں بھی یہی غم ہے کہ کوئی رشتے دار ملنے نہیں آتا محمد ضیا ء نے بتایا کہ میں جس کمپنی میںکام کرتا تھاوہ لوگ یہاں چھوڑگئے۔کھانے کے بارے میں وہ بتانے لگے کہ بگھارے بیگن بہت پسند ہیں لیکن اب ساری خواہشات ختم ہوگئی ہیں کیا کروں کس کیلئے کھائوں اور کون ہے جو میرے کھانے سے خوش ہو۔ امریکہ اور کینیڈا میں کئی برس گزارنے والے محسن سے سوال کیا کہ ترقی یافتہ ملک اور پاکستان کے اولڈ ہائوس میں کیا فرق ہے اور آپ یہاں کیوں ہیں تو50سالہ محسن نے بتایا کہ2سال سے یہاں مقیم ہوں ۔والدین کا انتقال ہوگیاہے۔امریکااورکینیڈا میں بھی رہا ہوں۔ وہاں اور یہاں کے اولڈ ہاؤس میںبہت فرق ہے۔ وہاں اولڈ ہاوسز میں والدین کو چھوڑ دینا کوئی معیوب نہیں سمجھاجاتا۔ یہ ان کا کلچر ہے تاہم یہاں مسئلہ ہے۔میری ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی جو صحیح نہیں ہوئی۔ فلیٹ چوتھے فلور پر تھاجہاں چڑھ نہیں سکتا تھا جسکی وجہ سے مجھے یہاں آنا پڑگیا بھائیوں نے نہیں نکالا ۔وہ خیال کرتے ہیں۔ میں نے شادی نہیں کی۔ میں عمران خان کابھائی ہوں۔میںنے برجستہ کہا عمران خان نے تو دو شادیاں کی ہیں بلکہ اب تک تو تیسری کا بھی سن رہے ہیںتو وہ ہنس کر بات ٹال گئے۔ میر ے اس سوال پر کہ اولڈ ہائوسز کا کلچر کیوں بڑھتا جارہا ہے محسن کہنے لگے کہ ہم لوگوں نے اپنی معاشی ضروریات بہت بڑھادی ہیں جس کے باعث بچے والدین اور بزرگوں کو وقت نہیں دے رہے۔بچے انہیں بوجھ نہیں اپنی ذمہ داری سمجھیں جبکہ والدین بھی بچوں کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں۔ بچے والدین کیلئے وقت نہیں نکالتے ہمارے اند ر سے احساس ختم ہوگیاہے۔میں آپ کے توسط سے درخواست کروںگا یہاں اولڈ ہاؤس میں بزرگ بہت ہیں اور جگہ کی کمی کا اہم مسئلہ ہے اسے حل کرادیں ۔میڈیاوالے کوشش کریں گے تو مسئلہ حل ہوسکتاہے ہم سب لوگ آپ کو دعادینگے ۔ یہ تو کراچی کے ایک اولڈ ہاوس میں میرا نصف دن گزارنے کا احوال تھا ،مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ شہر قائد ہی میں نہیں پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی تیزی سے اولڈ ہاوسز کے کلچر میں اضافہ ہورہا ہے۔بچے والدین اور بزگوں کو بوجھ سمجھ رہے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ترقی او ر تیزی سے امیر بننے کی دھن نے جنت کمانے کی لگن سے دور کردیا ہے۔کاش ہم سمجھ سکیں کہ یہ لوگ کس قدر قیمتی ہیں تاہم ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ان بزرگوں کو بھی اپنی اولاد کی مجبوریوں اور مسائل کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے یاد رکھیں تالی دوہاتھوں سے بجتی ہے ۔ اس لئے شاید قصور صرف ایک نسل کا نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭