لاوا پھٹ پڑا تو کیا ہو گا؟
جی ہاں، کان پک گئے باپ، بیٹی کے شکوے سنتے سنتے۔ کوئی دن، کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا جب نواز اور مریم معزز جج حضرات کے خلاف زہر افشانی نہ کرتے ہوں۔ اُنہیں ذرا بھی خیال نہیں کہ منصف کا عہدہ حکمرانوں سے بڑا ہوتا ہے۔ منصف عدل اُسی وقت کرسکتا ہے جب اُس کی عزت کی جائے، ناکہ بے توقیری۔ روز روز کی چخ چخ سے لوگ تنگ آئیں یا نہ آئے ہوں لیکن باشعور طبقے کو یقیناپریشانی ہے کہ اگر عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ کی توقیر خاک میں مل گئی تو پھر انصاف کون دے گا؟ دُنیا جنگل اور جنگل سے بدترین ہوجائیگی اور جنگل کا قانون کوئی قانون نہیں ہوتا، تو پھر معاشرہ کہاں جائے گا۔ بہت غور کیا، بہت صبر کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا ہی پڑا ۔اگر اور کچھ دیر کردی تو وطن عزیز میں کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ لوگوں کی عزت اور وقار کی رکھوالی کون کرے گا۔ تو مؤدبانہ عرض ہے جناب نواز شریف!سپریم کورٹ کے فیصلے کو انا کا مسئلہ بنانے یا اس کا مذاق اُڑانے کے بجائے ہوش سے کام لیں۔ دنیا بھر میں صدور ِمملکت اوروزرائے اعظم کے خلاف فیصلے آتے رہتے ہیں، کہیں بھی بھونچال نہیں آتا۔ اگر ادب، آداب اُٹھ گئے اور ہم نے اُن سے ہاتھ دھو لیا تو بس اس مملکتِ خداداد پاکستان کا اﷲ ہی حافظ ہے، جس کی جو مرضی آئیگی وہ کرے گا۔
میں نے آج کا موضوع آئینہ کیوں نہ دوں اسی لیے رکھا ہے، کہ تھوڑا سا اِن باپ بیٹی کی فاش غلطیوں کا تذکرہ کروں۔ اُمید تو نہیں لیکن شاید کچھ احتیاط سے کام لیں تو سنیے نواز شریف صاحب! آپ نے جو خاندانی موروثیت کا ڈھنڈورا پیٹا ہے، تو پھر مجھے مجبوراً یاد دلانا پڑرہا ہے کہ کوئی امیری، کوئی دولت کے انبار آپ کے پاس نہ تھے۔لاہور کے پرانے علاقے گوالمنڈی میں آپ کا ایک چھوٹا سا گھر تھاجس میں بیک وقت بھرا پُرا خاندان آباد تھا۔ خود آپ کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ آپ کے والد میاں شریف ایک مزدور کی حیثیت سے ایک روپے روزانہ کی اُجرت پر پتھر کوٹا کرتے تھے۔ یہ کتاب مجھے شہباز شریف نے خود تحفتاً دی تھی اور اس کتابچے پر اُن کے دستخط بھی ہیں جو کہ آج بھی میرے پاس ہے۔ آپ کے ساتوں بھائیوں نے محنت مزدوری کرکے ایک معمولی سی لوہے کی بھٹی لگوائی جو بڑھتے بڑھتے ایک بڑی فائونڈری میں تبدیل ہوگئی۔ اتفاق نام تھا اُس کا جس کو ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 ء میں قومیا لیا۔ اب بے کس و بے چار ہوگئے۔ آپ کے خاندانی دوست میاں عامر محمود ہیں جو بعد میں لاہور شہر کے میئر منتخب ہوئے اور آج ایک میڈیا گروپ کے مالک ہیں۔ شہباز شریف نے اُن کے متعلق اپنی تحریروں میں اعتراف کیا کہ میاں عامر محمود نے کافی عرصے تک آپ کے خاندان کی دیکھ بھال کی۔ وقت پڑنے پر نواز شریف نے اپنے محسن کو پارٹی سے مکھی کی طرح باہر نکال دیا، کیا یہ احسان مندی تھی؟
آپ اور آپ کی بیٹی لمبے لمبے افسانے گھڑتے ہیں کہ آمریت نے ملک کا ستیاناس کردیا۔ کم از کم آپ کی زبان سے ایسے الفاظ اچھے نہیں لگتے اس لیے کہ آپ خود مارشل لا کی پیداوار ہیں۔جنرل اسد درّانی نے آپ کو پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا اور پھر جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی انتخابات میں 1985میں آپ پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ اُسکے بعد قسمت کی دیوی آپ پر مہربان ہوگئی اور آپ 3 مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنے، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ آپ نے جنرل ضیاء الحق سے سیاسی تربیت و پرورش پائی۔ اُن کی شہادت کے بعد آپ اُن کی برسی کے موقع پر اعجاز الحق کے نکالے ہوئے مجمع میں ضیاء الحق کے گن گاتے رہے۔ آج آپ کو عوام بہت پیارے نظر آنے لگے ہیں۔ پہلے تو کبھی خیال نہیں آیا۔ عوام تو بھوک، پیاس، فاقہ کشی سے مر رہے ہیں اور آپ کے ٹھاٹ باٹ دیکھنے کے قابل ہیں۔
جج حضرات آخر کیوں صبر سے اپنے خلاف الزامات کو سنتے رہیں گے۔ اگر کبھی یہ لاوا پھٹ پڑا تو کیا ہوگا؟ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اگر واقعی ایسا ہوگیا تو نواز شریف یا مریم کہاں کھڑے ہوں گے، کیا عزت رہ جائیگی اُن کی۔ ہزاروں کا مجمع تو آج کسی نہ کسی مفاد کی خاطر اُن کے گرد جمع ہے، حمایتی نعرے لگارہے ہیں، ایک دم ہی تتر بتر ہوجائے گا۔ نواز شریف اکیلے ہی کھڑے نظر آئیں گے۔
بہت سارے سوالات بیک وقت جنم لے رہے ہیں۔ ملکی معیشت ڈانواں ڈول ہورہی ہے۔ روپے کی قیمت روز بروز گرتی جارہی ہے، پیداوار میں نمایاں کمی ہورہی ہے، ترسیل زر جو کہ بیرون ممالک سے پاکستانی اہل خانہ کو بھیجتے ہیں، وہ بھی گھٹتی جارہی ہے، Balance of payment وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا، قرضے کہاں سے ادا ہوںگے؟ یہ سب سوال بہت اہم ہیں، نواز شریف اور اُن کے حوّاری دن رات کہتے نہیں تھکتے کہ اُن کے لیڈر کے نااہل ہوتے ہی سب کچھ بگڑ گیا۔ حقیقت بالکل برعکس ہے۔
آپ نے انتخابات کے دوران وعدہ کیا تھا کہ قومی اداروں کو دُنیا بھر سے ماہرین بلا کر ٹھیک کریں گے، لیکن آپ نے اپنے دوستوں کو ان اہم اداروں کا چیف بنادیا۔ سابق گورنر خیبرپختونخوا مہتاب عباسی کو جس چیز کا علم نہ ہو وہ کیا قومی ایئرلائن پالیسی ترتیب دیں گے، پی آئی اے اور اسٹیل مِل جیسے اہم ادارے جو کسی بھی معیشت یا ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں، آج ڈوب چکے ہیں۔ تو پھر آپ نے کیا کیا۔ مختصراً یہی کہہ دیتا ہوں کہ آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے۔