سروں پر منقش رومال باندھے دونوں ترک بچیاں کمرے کی آخری صف میں بیٹھی بڑے انہماک اور مسرت سے میری گفتگو سن رہی تھیں ۔ تقریباً25طلباء و طالبات تھے اور باقی سب سفید فام غیر مسلم تھے ۔ سویڈن کی مالمو یونیورسٹی کا ایک کمرۂ تدریس تھا اور میرے پیچھے یونیورسٹی کے اسکول آف افریقن اینڈ اورئنٹل اسٹڈیز کے چیئرمین معروف مستشرق پروفیسر ینگٹ نوٹسون کھڑے تھے ۔ میں سویڈن کی وزارتِ خارجہ کا ایک ہفتے کیلئے مہمان تھا اور مختلف مقامات پر لے جا یا جا رہا تھا ۔
جولائی 2007ء کا آخری ہفتہ تھا اور ہوا میں طرادت اور سبزے کی مہک تھی ۔ پروفیسر نوٹسون نے سب سے پہلے اپنے اسکول میں ہونیوالی تدریسی سرگرمیوں کے بارے میں تفصیلاً بتایا تھا ۔ پڑھائے جانے والے نصاب پر روشنی ڈالی تھی ۔ مذہب کے طلباء و طالبات کو بلا تخصیص افریقی اور شرقی عقائد اور مذاہب سے روشناس کرایا جاتا تھا ۔ پھر مجھے وہ اپنے دفتر سے اس کمرے میں لائے تھے جہاں چند منتخب طلباء و طالبات میرے منتظر تھے ۔ چیئرمین نے میرا تعارف کرایا اور پھر باقی کا کام مجھے سونپ دیا ۔ زیادہ تر نظریں اجنبی تھیں۔ چند ایک خشمگیں اور پھر ایک طالبعلم نے غصیلے انداز میں سوال کر دیا تھا ۔ تم مسلمان لوگ اپنے قاتلوں کو پھانسی کیوں دیتے ہو؟
بعض اوقات تو ان کے سر بھی قلم کرتے ہو!
سوال متوقع تھا ۔ میں نے سوال در جواب اٹھا دیا ۔ تمہارے سوال کا جواب دینے سے قبل میں یہ جاننا چاہوں گا کہ تمہارے شہر اسٹاک ہوم میں ہر ماہ اوسطاً کتنے قتل ہوتے ہیں ؟ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ چند لمحے سکوت رہا پھر اس کی آواز ابھری’’ 5یا6!‘‘
’’صرف ایک شہر میں !اور اگر باقی شہروں کے بھی شامل کئے جائیں تو پھر تعداد یقینا زیادہ ہو گی اور یہ سب صرف ایک ماہ میں ہوتا ہے صحیح ہے ناں؟میرا اگلا سوال تھا ۔ درست ہے۔ اس کا جواب تھا ۔
تو میرے دوست! اب اپنے پہلے سوال کا جواب سنو ۔ سعودی عرب میں اور دیگر ریاستوں میں جہاں اسلامی شریعہ کے مطابق عدالتی فیصلے ہوتے ہیں، سارے سال میں بھی 4یا 5انسان قتل نہیں ہوتے ۔ وہاں امن و سکون ہے ۔
میرے جواب پر اس نے ایک اور سوال اٹھا دیا مگر تم لوگ انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھتے ۔ قاتل آدمی ہی ہوتا ہے ۔ اسی معاشرے کا فرد ہوتا ہے ۔
درست ہے لیکن مقتول بھی تو اسی معاشرے کا فرد تھا ۔ اسکے حقوق کہاں گئے؟ اسکے خاندان کے افراد بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں ۔ ان کے بھی حقوق ہوتے ہیں ! بڑی عجیب بات ہے، مغربی معاشرہ قاتلوں اور درندوں کے انسانی حقوق کی ضمانت تو دیتا ہے ۔ بیوہ ہونے والی خواتین، یتیم ہونیوالے بچوں اور بے سہارا ہونے والے ضعیف والدین کی بات نہیں کرتا ۔ تمہارا معاشرہ قاتل کو تحفظ فراہم کر کے اسے مزید جرائم کرنے پر اکساتا ہے تو ان افراد کے حقوق کہاں گئے جو قاتل اپنی آئندہ کی زندگی میں تفریحاًقتل کرتا پھرے گا ؟ تم اسے انسان نہیں سن آف سام بنا دو گے؟ کمرے میں سکوت چھا گیا ۔ پچھلی صف میں بیٹھی دونوں مسلمان طالبات کے چہروں پر مسرت و اطمینان کی لہر تھی ۔ کوئی اور سوال نہ ہوا ۔
میرے اصرار پر پروفیسر ینگٹ نوٹسون نے مجھے نصاب کی وہ کتاب دکھائی جو مذہب کے ان طلباء و طالبات کو پڑھائی جا رہی تھی ۔ 8ابواب تھے ۔ 2عیسائیت پر تھے ۔ ایک بدھ مت پر تھا ۔ ایک میں ہندوئوں کے مختلف عقائد پر بحث کی گئی تھی جبکہ ایک ہی سکھ مذہب کیلئے مختص کیا گیا تھا ۔ افریقی ارواح پرستی پر ایک باب تھا جبکہ قدیم چینی قائد کنفیوشش ازم اور شنٹو ازم پر ایک باب شامل کتاب کیا گیا تھا اور دین حنیف اسلام کو بھی صرف ایک باب کے صفحات دئیے گئے تھے ۔ اسے کھولا تو 2تصاویر بھی شامل تھیں ۔ ایک میں صدر ضیاء الحق کے وقتوں کی ٹکٹکی تھی ۔ ایک مجرم بندھا تھا اور ایک نیم برہنہ جلا د ہاتھ میں کوڑا لہراتا کچھ فاصلے پر سے بھاگا چلا آتا تھا ۔ دوسری تصویر کسی خلیجی ملک کی تھی ۔ ایک دست بریدہ مجرم ہوا میں اپنے بازو کا ٹھنٹھ بلند کئے کیمرے کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ اس کے گرد 8,7پولیس کے سپاہی اسے حراست میں لئے کھڑے تھے ۔ ٹکٹکی پر بندھے مجرم کی برہنہ پیٹھ کوڑوں کی منتظر اور چور کا کٹا ہاتھ ساری بات میری سمجھ میں آگئی ۔ مغربی جامعات کے دینی نصاب میں اسلام کی کیا تصویر دکھائی جا رہی تھی ۔ حیرت کی بات ہے کہ انکی انسانی حقوق کی تعلیم میں کہیں سن آف سام کا ذکر نہیں ۔
ڈینیل رچرڈ برکو وِٹز جون 1953میں پیدا ہوا اور ایک ناخوشگوار بچپن گزارنے کے بعد کچھ عرصہ امریکی نیوی میں بھرتی رہا ۔ 2برس وہاں گزارنے کے بعد اس نے بحریہ سے ریٹائرمنٹ لے لی ۔ پھر 1976ء کے گرما میں اچانک نوجوان امریکی لڑکیاں قتل ہونا شروع ہوئیں ۔ رات کے وقت گاڑی میں بیٹھی لڑکی پر گولی چلتی اور اکثر اوقات اس کی وہیں موت واقع ہو جاتی ۔ پورا ایک سال نیو یارک شہر کی پولیس پریشان رہی ۔ جولائی 1977ء تک اس طرح کے 8حملے ہو چکے تھے جن میں 6خواتین ہلاک اور 7شدید زخمی ہو ئی تھیں ۔ دنیا بھر میں کہرام مچا رہا ۔ قاتل اکثر مقامات پر قتل کرنے کے بعد تحریر چھوڑ جاتا جس میں وہ اپنے آپ کو ’’ سن آف سام ‘‘ لکھتا ۔ امریکی تاریخ میں اتنا خوفناک سیریل کلر نہیں پایا گیا تھا ۔ بالآخر سعی بسیار کے بعد اسے نیویارک کی پولیس 10اگست 1977ء کو گرفتار کر نے میں کامیاب ہو گئی ۔ وہ 24سال ڈینیئل رچرڈ برکو وِٹز تھا ۔ اس نے انکشاف کیا کہ عورتوں کو قتل کرنے کے احکامات اسے اپنے پڑوسی سام کے کتے سے ملتے تھے جو اس کے مطابق درحقیقت ایک بدروح تھا ۔ دنیا میں کہرام تھا ۔ اس کی گرفتاری پر ہر طرف سے مطالبہ ہوا کہ اسے سزائے موت دی جائے لیکن ایک مسئلہ تھا۔ ڈینیئل برکو وِٹز یہودی تھا ۔ اسے کون مائی کا لال برقی کرسی پر بٹھاتا؟صیہونی ذرائع ابلاغ نے انسانی حقوق کا غلغلہ اٹھایااور اسے بچالے گئے ۔ آجکل جیل میں ہے ۔
زینب سے پہلے 7دوسری بچیوں کو قاتل نے انتہائی بھیانک اور وحشتناک طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا ۔ مجھے مالمو یونیورسٹی کی وہ دوپہر یاد آرہی ہے جب سفید فام طالبعلم نے عالم ِ اسلام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا۔ اب 2ہی راستے ہیں ۔ ایک یہ کہ جہاں زینب کی لاش ملی ہے وہیں پھانسی کا تختہ نصب کر کے قاتل کو پھانسی دی جائے اور اسے ایک ہفتے تک وہاں جھولنے دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ قاتل کو سویڈن یا کسی دوسرے مغربی ملک بھیج دیا جائے جو اپنے درآمد شدہ سن آف سام کو چوم چوم کر نڈھال ہوتا رہے اور اپنی معصوم بچیاں اس کے انسانی حقوق پر قربان کرتا رہے۔