Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلامی عنوان دینا کتنا ضروری اور کتنا غیر ضروری؟

سعید محمد بن زقر ۔ المدینہ
گزشتہ دنوں ایک افواہ زور و شور سے سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی۔ دعویٰ کیا گیا کہ اسلامی ترقیاتی بینک اپنے نام سے ”اسلامی“ کا اضافہ ختم کرنے والا ہے۔ آئندہ اسکا نام ترقیاتی بینک ہوگا ۔ اسلامی کا اضافہ ختم کردیا جائیگا۔ بات سے بات نکلتی ہے۔ اس موقع پر مجھے وہ بات یاد آئی جسکا ذکر سربرآوردہ علماو بورڈ کے سابق رکن شیخ ڈاکٹر قیس المبارک کی مجلس میں آیا تھا۔ ان سے دریافت کیا گیا تھا کہ یہ جو ہم مختلف سرگرمیوں، خصوصاً تجارتی و اقتصادی سرگرمیوں کے ساتھ ”اسلامی “ کی صفت جوڑ دیتے ہیں آیا یہ درست ہے یا نہیں۔ ان سے یہ بھی پوچھا گیا تھاکہ کیا اسے حذف کرنا بہتر ہوگا یا نہیں۔ڈاکٹر قیس المبارک نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میرے نقطہ نظر سے ”اسلامی“ کی صفت کو حذف کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ اسکا نقصان زیادہ اور نفع کم ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں فقہ، سیرت ، حدیث اور ان کی اصطلاحات والی کتابوں میں کبھی کسی مصنف نے ”اسلامی“ کا اضافہ نہیں کیا۔ کبھی کتاب کے نام میں یہ نہیں تحریر کیا گیا کہ اسلامی فقہ کی کتاب ہے۔ یہ اسلامی سیرت کی کتاب ہے۔ یہ جدت عصر حاضر کی ہے۔ بعض اسلامی فلسفیوں نے خود کو یونانی وغیرہ غیر مسلم فلسفیوں سے جدا کرنے کیلئے اسلامی کا اضافہ بے شک کیا ہے۔ مثال کے طور پر (مقالات الاسلامیین) کے نام سے ابو الحسن العشری نے ایک کتاب تصنیف کی ۔ اس کتاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے لیکر اپنے دور تک کی اسلامی زندگی میں رونما ہونے والے فرقوںکا تعارف کرایا گیا ہے۔ مصنف نے کتاب مذکور میں مختلف فرقوں کے ملفوظات پر روشنی ڈالی ہے۔ انکا مقصد مخصوص علمی منہاج کے تحت ہر فرقے کے ملفوظات پر تنقید اور انکا تجزیاتی مطالعہ تھا۔ ڈاکٹر قیس المبارک نے آگے چل کر کہا کہ اسلامی کے اضافے کی کوئی ضرورت نہیں۔ عصر حاضر میں اس کا رواج حد سے زیادہ بڑھا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی سپر مارکیٹ، اسلامی بیکری، اسلامی بینک، عبیدشاپس برائے اسلامی ملبوسات، اسطرح کے نام بہت زیادہ پھیلتے چلے جارہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اکثر اوقات اسلامی نام کے تجارتی اقتصادی مراکز زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مختلف جماعتیں خود کو منفرد بنانے کیلئے اسلامی کا اضافہ کررہی ہیں۔ انکے اس رویئے سے یہ تاثر ملتا ہے گویا حقیقی اسلام کی ترجمان وہی ہیں اور دیگر کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ولی عہد شہزاد ہ محمد بن سلمان نے اسکی نشاندہی کرتے ہوئے توجہ دلائی تھی کہ یہ تبدیلی بیداری کی لہر کے ساتھ برپا ہوئی۔ اسکے تحت دیگر جماعتوں اور شخصیات کو معاشرے سے الگ تھلگ کرنے کا چکر چلایا گیا۔انتہا پسند جماعتیں اسلام کا اضافہ کرکے اسلام کی ٹھیکدار بن گئیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ اس قسم کے اضافوں سے گریز کیا جائے کیونکہ انکے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: