Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیکا ایکٹ ترمیمی بل: فیک نیوز پھیلانے پر تین سال قید، 20 لاکھ جرمانہ

نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا (فائل فوٹو: ایف آئی اے)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے  پیکا ایکٹ 2016 میں ترمیم کا فیصلہ کرتے ہوئے  پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس کے مطابق سوشل میڈیا پر جعلی خبریں پھیلانے والوں کو تین سال قید یا 20 لاکھ روپے جرمانہ یا اُنہیں دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیرِقانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے پیکا ایکٹ 2016 میں ترمیم کا بل ایوان میں پیش کیا جسے قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
نئے قوانین کے تحت سوشل میڈیا پر پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات اپلوڈ نہیں کیے جا سکیں گے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران حذف کیے گئے مواد کو بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی: مجوزہ بل 
قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے متن میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرے گی جو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کرے گی اور صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔
بل کے متن کے مطابق اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا۔ پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کی مجاز ہو گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کی منسوخی اور معیارات کے تعین کی بھی ذمہ دار ہو گی۔
قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بل میں بتایا گیا ہے کہ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کرے گی اور متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت بھی جاری کرے گی۔
 سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی کا قیام
پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے تحت سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی۔ ایجنسی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہو گا جن کی تعیناتی تین سال کے لیے ہو گی۔ اتھارٹی کے افسران اور اہلکاروں کے پاس مساوی پوسٹ کے پولیس افسران کے اختیارات ہوں گے۔ بل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا۔
سوشل میڈیا شکایت کونسل کا قیام
وفاقی حکومت نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2024 کے تحت سوشل میڈیا شکایت کونسل قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا شکایات کونسل پانچ اراکین اور ایک ایکس آفیشو رکن پر مشتمل ہو گی۔ 
پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے تحت ٹربیونل کا قیام
اُردو نیوز کو دستیاب پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کی دستاویزات کے مطابق ترمیمی ایکٹ پر عمل درآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبیونل قائم کرے گی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی جانب سے ہدایات پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی ٹریبیونل سے رجوع کرے گی۔
بل کے متن کے مطابق ٹریبیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا۔ ٹریبیونل میں ایک صحافی اور سوفٹ ویئر انجینیئر بھی شامل ہو گا۔ ٹریبیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں 60 دنوں کے اندر چیلنج کیا جا سکے گا۔

پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے تحت پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں کیے جا سکیں گے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اتھارٹی سے رجسٹر کرانا لازمی قرار
ترمیمی بل کے مطابق حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اتھارٹی سے رجسٹر کرانا لازمی قرار دیا ہے، یعنی یہ قانون بننے کے بعد پاکستان میں چلنے والی سوشل میڈیا ایپس سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی میں اپنی رجسٹریشن کروائیں گی۔
کون سا مواد سوشل میڈیا پر اپلوڈ کیا جا سکے گا؟
پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے تحت پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں کیے جا سکیں گے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران حذف کیے گئے مواد کو بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی اور ایسے مواد کے خلاف متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ سوشل میڈیا اتھارٹی نظریہ پاکستان کے برخلاف، شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی۔ اتھارٹی آرمڈ فورسز، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بھی بلاک کر سکے گی۔
’ترامیم میں طاقت کے غلط استعمال کا خطرہ موجود ہے‘
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر عدیل رحمان کے خیال میں الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے لیے مجوزہ ترامیم آئی ٹی کے شعبے کی ترقی اور ممکنہ خطرات دونوں کی عکاسی کرتی ہیں۔
عدیل رحمان نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کا قیام ایک خوش آئند عمل ہے جو جدید سائبر خطرات سے نمٹنے اور ڈیجیٹل گورننس کو بہتر بنانے کی طرف ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جھوٹی خبروں اور غیرقانونی مواد کے خلاف اقدامات کا زور آن لائن احتساب کو فروغ دینے کی عالمی کوششوں کے مطابق ہے۔‘

ماہرین کے مطابق مجوزہ ترامیم آئی ٹی کے شعبے کی ترقی اور ممکنہ خطرات دونوں کی عکاسی کرتی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عدیل رحمان کا کہنا تھا کہ ’ان ترامیم میں طاقت کے غلط استعمال کا خطرہ موجود ہے۔ ’قابل اعتراض مواد‘ جیسے مبہم اصطلاحات اور پلیٹ فارمز کو بلاک کرنے کے اختیارات تخلیقیت کو محدود اور آزادی اظہار کو متاثر کر سکتے ہیں۔ قانون کا نفاذ غیرمنظم یا سیاسی مفادات کے تابع ہو تو وہ نظام پر عوامی اعتماد کو کمزور کرے گا۔‘
ان اصلاحات کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ سکیورٹی اور ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے درمیان توازن قائم کیا جائے۔ آئی ٹی ماہرین، انڈسٹری لیڈرز اور سول سوسائٹی کو قانون سازی کے عمل میں شامل کرنا ناگزیر ہے۔‘
’حکومت سوشل میڈیا پر مزید کنٹرول چاہتی ہے‘
ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘بولو بھی کے ساتھ منسلک فریحہ عزیز نے پیکا ایکٹ ترمیمی ایکٹ بل پر اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’اس ترمیمی بل کے ذریعے حکومت سوشل میڈیا پر مزید کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔‘
اُنہوں نے ترمیمی بل کو ‘پنجاب ڈیفیمیشن لاء’ کی طرز کے قوانین قرار دیا ہے جن کے ذریعے نئی تحقیقاتی ایجنسی اور اتھارٹی کا قیام اور پھر سوشل میڈیا ایپس کی رجسٹریشن کی شکل میں اُن پر حکومت اور اداروں کا کنٹرول بڑھایا جائے گا۔
 اُن کا کہنا تھا کہ ’وفاقی حکومت نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے ذریعے عدالتوں کی جانب سے اظہار رائے پر پابندیوں کے سوالات کے جوابات کے لیے یہ ترامیم لائی ہیں۔ترمیمی ایکٹ میں مجوزہ سزائیں اور جعلی خبروں کی تعریف حکومت اور ریگولیٹری اتھارٹیز کی اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر ہے۔‘
فریحہ عزیز نے بتایا کہ ’ان ترامیم کا مقصد سوشل میڈیا صارفین کا تحفظ تو بالکل نہیں ہے البتہ اُن کی سرگرمیوں پر اب کڑی نظر رکھی جائے گی۔‘

 

شیئر: