زاہی حواس ۔ الشرق الاوسط
سعودی عرب میں اسلامی آثار کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں سے اسلام کی روشنی پوری دنیامیں پھیلی۔ سعودی عرب میں تاریخی مساجد ، قلعے ، محل اور گھر وغیرہ موجود ہیں۔ سعودی عرب کے اسلامی آثار ایسی خوبیوں کے مالک ہیں جو دنیا کے کسی بھی ملک میں پائے جانے والے اسلامی آثار کو نصیب نہیں۔
مملکت میں مسجد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ محفوظ ہے۔ یہ دنیا کی قدیم ترین مسجد ہے۔ یہ الجوف ریجن کے ماتحت دومة الجندل میں قلعة مارد کے پاس بنی ہوئی ہے۔ منفرد مسجد ہے۔ اسکے جنوب میں الدرع تاریخی محلہ بسا ہوا ہے۔ یہ مسجد سعودی عرب کی اہم ترین اور حسین ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ اس کا طرز تعمیر مساجد کی بناوٹ کی شروعات کا پتہ دیتا ہے۔ اس سے مدینہ منورہ میں مسجد الرسول کے طرز تعمیر کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مسجد خود خلیفہ اسلام عمربن خطاب ؓ نے تعمیر کرائی تھی۔ اس کا مینارہ چوکور شکل کا ہے جو مسجد کے جنوب مغربی حصے میں بنا ہوا ہے۔ مینارے کے بالائی حصہ ہرم کی شکل کے گنبد پر مشتمل ہے۔ یہ مینارہ 12.7میٹر اونچا ہے۔
سعودی عرب کا دوسرا اہم تاریخی مقام الدرعیہ کا الطریف محلہ ہے ۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ یہ پہلی سعودی ریاست کے دارالحکومت کا پہلا محلہ ہے۔ اسی تناظر میں تمام سعودیوں کو اس سے قلبی تعلق ہے۔ یہ محلہ انہیں اپنی خود مختاری اور بانی مملکت عبدالعزیز آل سعودکی یاد دلاتا ہے۔ یہ محلہ سعودی عرب کے موجودہ دارالحکومت ریاض کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اسے پندرہویں صدی عیسوی میں نجد کے منفرد فن تعمیر کے مطابق تعمیر کیا گیا تھا۔ الطریف محلے میں متعدد کچے مکانات ہیں اور قصر سلویٰ جیسے محلوں کے کھنڈر بھی ہیں جو سعودی عرب کی عظیم تاریخ کے نمائندہ ہیں۔ یہ محلہ بارہویں صدی ہجری کے اواخر میں تعمیر کیا گیا تھا۔ قصر سلویٰ سعودی حکومت کا صدر دفتر تھا۔ الطریف محلے میں الضیافة، سعد بن سعوداورناصر بن سعود کے قصر بھی ہےں۔ امام محمد بن سعود جامع مسجد ہے۔ طریف محلے کے اطراف عظیم الشان فصیل بنی ہوئی ہے۔ دفاعی اور نگراں برج بھی بنے ہوئے ہیں۔ الدرعیہ کے دورے کے موقع پر میں نے الطریف محلہ دیکھا تھا۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اس منفرد محلے سے ذاتی دلچسپی رکھتے ہیں۔
سعودی عرب میں ایک اور اسلامی محلہ ہے جسے ”ذی عین“کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ پہاڑ کی چوٹی پر قائم ایک قریہ ہے جہاں ٹھوس چٹانوں کے ذریعے مکانات اور عمارتیں بنائی گئی ہیں۔ یہ عمارتیں اور یہ مکان مذکورہ قریے کے عظیم اور حسن فن تعمیر کے شاہد ہیں۔ اس قریے یا اسلامی محلے کی تاریخ ایک ہزار سال پرانی ہے۔ اس قریے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اطراف کیلے کے باغات ہیں اور قدیم جنگلات کا ایک سلسلہ بھی اسے اپنی آغوش میں لئے ہوئے ہے۔ یہاں پانی کے آبشار بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہاڑ کی چوٹی پر قائم اس قریہ کے دلکش مناظر کے پیش نظر مقامی اور غیر ملکی فوٹوگرافر یہاں پہنچتے رہتے ہیں۔یہاں قائم عمارتوں کے درمیان کھڑے ہوکر اطراف کے سحر آفریں قدرتی مناظر بڑے بھلے لگتے ہیں۔یہاں مکانات 2منزلہ ہیں بعض 7منزلہ بھی ہیں۔ ان کا فن تعمیر دعوتِ دیدار دیتا ہے۔ قریہ کے معماروں نے تعمیر کیلئے پتھر استعمال کئے، گھروںکی چھتوں میں مضبوط مقامی درخت استعمال کئے گئے ہیں ۔ جہاں تک مکانات کے چھجوں کا تعلق ہے تو انہیں مثلث شکل کے خوبصورت پتھروں سے تیار کیا گیا ہے۔
قریے اور اسکے باشندوں کو کسی بھی ناگہانی حملے سے بچانے کیلئے دفاعی قلعہ بھی قائم کیا گیا ہے۔ قریہ پہاڑکی بلندی پرواقع ہونے کے باوجود حفاظت کے انتظامات بھرپور کئے گئے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قریہ اب سے لگ بھگ 400برس پہلے قائم کیا گیا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭