پاکستان میں محنت کش خواتین
پاکستان میں 18ویں ترمیم کے بعد محنت کشوں کے حوالے سے پالیسی سازی صوبوں کی ذمہ داری ٹھہری جس پر بلوچستان ، سندھ او ر خیبر پختونخوا میں موثر پیشرفت نہ ہو سکی ۔ محنت کشوں کے حوالے سے مو¿ثر قانون موجود ہے جس میں تمام تر حقوق و فرائض تک کی رہنمائی کی گئی ہے۔ ان قوانین کے نفاذ کو یقینی بنا کر ہی جی ایس ٹی پلس کی یورپ کی طرف سے دی جانےوالی مراعات میں فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے جس میں یورپی ممالک میں ڈیوٹی فری اشیاءکی برآمدات شامل ہیں ۔ ایسی لیبر پالیسی کی اشد ضرورت ہے جس میں صنفی حساسیت کو پیش نظر رکھا گیا ہو۔ اس سے محنت کش خواتین کی حوصلہ افزائی میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کی مالی معاونت کےلئے سماجی تحفظ کے اداروں کے ڈھانچوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ عالمی انڈیکس میں جنسی تفریق کے حوالے سے پاکستان زبوں حالی کا شکار نظر آتا ہے جسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین سماجی شعبہ جات میں بہتر خدمات انجام دےکر اپنے مالی بوجھ اٹھا سکتی ہیں جس سے مالی عدم تحفظ کے احساس کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ خواتین کو معاشی طور پر خود مختاری کے حوالے سے حوصلہ افزائی کےلئے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور وفاق اور صوبوں میں کچھ ادارے بہتر کام کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے پنجاب میں بہتر کام کیا جا رہا ہے۔ باقی 3 صوبوں میں محنت کشوں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ امریکہ میں فیملی اور بچوں کی نگہداشت پر بھی ادائیگی کا نظام ہے۔ اسکے علاوہ کام کرنے والی محنت کش خواتین کے اوقات میں نرمی برتی جاتی ہے۔ امریکہ میں محنت کش خواتین ہر شعبہ میں شرکت کر کے معیشت میںاپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان میں محنت کش خواتین کو ہنر مند بنانے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭