جب مبلغین کو خود مبلغین کی ضرورت پڑتی ہے
جمعرات 15 فروری 2018 3:00
حمد الماجد ۔ الشرق الاوسط
اگر کسی مبلغ یا کسی شیخ سے کسی ایسے مسلمان کے بارے میں دریافت کیا جائے کہ اس نے برسہا برس سے نماز نہیں پڑھی،دولت پر زکوٰة نہیں دی، رمضان کے روزے نہیں رکھے، ناجائز طریقے سے خوب دولت کمائی ہے،شادی اور طلاق کے سلسلے میں شرعی پابندیوں کو نظرانداز کرتا رہا ہے۔ اسے راہ راست پر آنے کےلئے توبہ کے ساتھ اور کیا کرنا ہوگا؟ فقہی اسکول سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ بِن سمجھے یہ کہیں گے کہ اسے ساری نمازیں قضا کرنا ہونگی۔ وہ کتنی بھی کیوں نہ ہوں۔ اسے چھوٹے ہوئے روزے رکھنے ہونگے۔ اسے حرام دولت سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ اسے مشکوک طریقے سے عقد نکاح میں آنےوالی بیوی سے علیحدگی اختیار کرنا ہوگی۔ اس قسم کے داعی حضرات کا جذبہ یہی ہوتا ہے کہ متعلقہ شخص گناہوں کی آلودگی سے پاک ہوجائے او رسچی توبہ کرکے صراط مستقیم پر آکر اچھی زندگی گزارنے لگے ،مگر اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس قسم کے فتوے دینے والے درحقیقت مشکلات پیدا کررہے ہیں، آسانی نہیں۔ دین سے لوگوں کو متنفر کررہے ہیں اور دین کی طرف لوگوں کو نہیں لارہے ۔ یہ لوگ دین سے لوگوںکو بیزار کررہے ہیں۔ دین میں رغبت پیدا کرنے سے گریز کررہے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ سے اسی طرح کا ایک نازک مسئلہ دریافت کیا گیا تھا ۔ انہوں نے جو جواب دیا وہ اسلامی شریعت کے مقاصد کا بھرپور ادراک رکھنے والی عالم فاضل شخصیت کا جواب معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”اگر اللہ تعالیٰ نے اسے صحیح راستہ دکھادیا ہے اور اس نے توبہ کرلی تو ایسی صورت میں اگر ہم اسے چھوٹے ہوئے تمام فرائض کی قضا کا پابند بنائیں گے اور اسے ہم حاصل کردہ دولت سے چھٹکارا حاصل کرنے کا حکم دیں گے اور اسے ہم پسندیدہ بیویوں سے علیحدگی وغیرہ کی ہدایت کریں گے تو ایسی صورت میں اسے اپنی توبہ عذاب لگنے لگے گی۔ اسے ایسی حالت میں مبینہ اسلام کے مقابلے میں اسلام سے برگشتگی اور ارتداد زیادہ آسان او ربھلا لگے گا۔ کفر سے توبہ رحمت کی علامت ہے اور عذاب سے بچنے کیلئے توبہ بڑی اچھی بات ہے۔ میں ایسے نیک لوگوں کو جانتا ہوں جو تمنا کرتے تھے کہ کاش وہ کافرہوتے پھر مسلمان ہوجاتے تو ایسی حالت میں ان کے گزشتہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ۔ مذکورہ نوعیت کی توبہ بڑی مشکل ثابت ہوگی۔ اسے توبہ کی قبولیت کیلئے چھوٹے ہوئے فرائض کی ادائیگی کا بوجھ ، پسندیدہ بیویوں سے علیحدگی اور حاصل شدہ دولت سے دستبرداری متنفر کردیگی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض گناہ گار اور کوتاہی کرنے والے توبہ کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ جو لوگ مذکورہ قسم کے فتوے دیتے ہیں وہ دراصل لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوسی کی طرف لیجاتے ہیں۔ وہ توبہ کرنے والوںکے پیروں میں زنجیریں ڈال دیتے ہیں۔توبہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو خوب خوب طہار ت حاصل کرنے والے اچھے لگتے ہیں۔
ایک تاریخی قصہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ازمنہ وسطی میں انگلینڈ کے ایک رہنما نے مراکش کے ایک حکمراں کے نام خط بھیجا۔ اس نے حلقہ بگوش اسلام ہونے کی خواہش کی اور برطانیہ میں اپنے دشمنوں کے خلاف مدد بھی طلب کی۔ کہتے ہیں کہ انگریزرہنما نے جب اسلام کا مطالعہ کیا تواسے شراب کی حرمت کا اسلامی حکم مشکل نظر آیا۔ اس نے مراکشی حکمراں کے نام مکتوب میں تحریر کیا کہ وہ مسلمان ہونا چاہتا ہے تاہم اسکی یہ بھی خواہش ہے کہ اسے شراب نوشی سے استثنیٰ حاصل ہو کیونکہ وہ شراب کا عادی ہے۔ مراکشی حکمراں نے اپنی مجلس میں موجود ایک عالم ِ دین سے استفسار کے بعد اسے جواب تحریر کیا کہ شراب حرام ہے۔ اس کا حکم تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جان کر انگریز رہنما نے مسلمان ہونے کا ارادہ ترک کردیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ برطانیہ میں مقیم الازہر کے ایک شیخ نے مذکورہ واقعہ پر” تبصرہ “کرتے ہوئے کہا کہ شراب کی ایک بوتل نے دین اسلام کو تاریخی کامیابی سے محروم کردیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مراکشی حکمراں نے جو فتویٰ بھیجا تھا وہ دینی فقہ میں کمی کا نتیجہ تھا۔ جن صاحب سے انہوں نے فتویٰ لیا تھا وہ شرعی مقاصد کے فہم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے ادراک سے قاصر تھے۔ صحیح احادیث میں آتا ہے کہ قبیلہ ثقیف کا ایک وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کیلئے مدینہ آیا تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دین حق قبول کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے شرط لگائی کہ وہ مسلمان تو ہونگے لیکن انہیں زکاة اور جہاد سے استثنیٰ دیا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی شرط قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ جب مسلمان ہوجائیں گے تو صدقہ و خیرات بھی کرینگے اور اللہ کی راہ میں جہاد بھی کرینگے۔
بعض مبلغین حکمت اور فراست سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اسلامی مقاصد کو اچھی طرح نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ فتوﺅں کے دور رس نتائج کا ادراک نہیں کرپاتے اس لئے یہ معاملے کو سلجھانے کے بجائے الجھا دیتے ہیں۔ دین سے قربت پیدا کرنے کے بجائے اس سے متنفر کردیتے ہیں۔ اس قسم کے مبلغین خود دعوت و تبلیغ کے محتاج ہیں( ملا زندہ صحبت باقی)
٭٭٭٭٭٭٭٭